نماز میں سستی کے نقصانات سیرتِ فاطمہ زہراء ؑکی روشنی میں

2022-12-26 11:15:29

محمد تقی ہاشمی

قرآن کریم میں ارشادِ رب العزت ہوتا ہے

وَ إِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها۔

اور تم اللہ کی نعمتوں کو شمار بھی کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے ہو۔ سورہ نحل آیت 18

انسان اگر ہر لمحے سانس لے رہا ہے تو یہ بھی اللہ کی  بہت بڑی نعمت ہے چونکہ اگر وہ یہ نعمت عطا نہ کرے تو انسان سانس لینے پر ہی قدرت نہیں رکھتا اور جس ہوا میں سانس لے رہا ہے وہ بھی اللہ کی طرف سے نعمت ہے اور جس زمین پر کھڑا ہو کر یا بیٹھ کر یا سو کر سانس لے رہا ہے وہ زمین بھی اللہ کی طرف سے نعمت ہے اور انسان کا کھڑا ہونا یا بیٹھنا یا سونا یا آرام کرنا بھی اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے۔

  اور اگر کھانے پینے کے مسائل میں آجائیں تو انسان کی زبان کا ذائقے کو محسوس کرنا بھی بہت بڑی نعمت ہے اور کھانے کی صلاحیت ، ہضم و خون وغیرہ کا بننا بھی سب اللہ کی نعمت ہے اور جو وہ کھا پی رہاہے حتی کہ وہ پانی جسے انسان معمولی سمجھتا ہے وہ بھی انسان کا اپنا بنایا ہوا نہیں وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے اور جو وہ کھاتا ہے وہ بھی انسان کی اپنی تخلیق نہیں وہ بھی اللہ کی پیدا کی ہوئی نعمت ہے ۔

اگر دیکھنے ، سننے اور بات کرنے کے مسائل پر آجائیں تو یہ آنکھیں یہ کان یہ زبان یہ زبان کا علم یہ سب اللہ کی عطا کردہ نعمات ہیں۔

اور اگر سمجھنے پڑھنے اور سوچنے کی بات پر آجائیں تو یہ عقل و دل بھی اللہ کی عطا کردہ نعمات ہیں اگر آج میں لکھ رہا ہوں اور آپ پڑھ رہےہیں تو یہ قدرت و صلاحیت یہ طاقت بھی اللہ کی عطا کردہ  ایک نعمت ہے ۔

یعنی انسان اپنی ذات میں سوچنا شروع کر دے تو اللہ کی اتنی زیادہ نعمات ہیں کہ انسان فقط اپنی ذات کے بارے میں بھی عطا کردہ نعمتوں کو شمار نہیں کر سکتا ۔

پس یہ بات تو ثابت ہے کہ انسان کے پاس سوئی کے ذرہ برابر بھی اپنا کوئی کمال نہیں ہے سب اس کے خالق ومالک رحمن و رحیم اللہ کی طرف سے عطا کرد ہ ہے اب انسان کی عقل و اخلاق و غیرت کا یہ تقاضہ ہے  کہ وہ اپنے اوپر احسان کرنے والےخالق و رحمن کا شکریہ بھی ادا کرے  اور یہ بات واضح ہے کہ دنیا میں جب انسان دوسرے پر احسان کرتا ہے تو زندہ انسان کا ضمیر اسے یہی کہتا ہےکہ اس کا شکریہ ادا کرو اور اگر وہ انسان شکریہ ادا نہیں کرتا تو مسلسل بے آرامی ، بے سکونی اور گلٹی فیل کرتا رہتا ہے بالکل اسی طرح اپنے حقیقی منعم ، اپنے خالق اور بے شمار احسانات و نعمات عطا کرنے والے اللہ کا جب انسان شکر ادا نہیں کرتا تو اس کے نفس میں بے آرامی اور بے سکونی پیدا ہوجاتی ہے چونکہ انسان اپنے عقلی و اخلاقی فریضے سے ہٹ رہا ہے ۔

پس انسان اپنی روح کوپرسکون رکھنے کےلئے اس بات کی طرف محتاج ہے کہ بے شمار او ر ان گنت نعمتیں دینے والے خالق سے اپنا رشتہ جوڑے اور اس کےلئے اللہ تعالیٰ نے خود انسان کو طریقہ بھی سکھایا اور چوبیس گھنٹو ں میں پانچ دفعہ مختلف وقفوں کے ساتھ انسان کو اپنی بارگاہ میں آنے کا حکم دیا تاکہ انسان اور عبد کا چوبیس گھنٹوں میں مکمل ایک رابطہ قائم رہے اور انسان مسلسل اپنے خالق و مالک کی طرف متوجہ رہے جب صبح آنکھ کھلے تو اللہ کی بارگارہ میں سجدہ ریز ہوجائے جب دن چڑھے سورج درمیان آسمان کو پہنچے تو بھی اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے اور جب سونے لگے اور سورج غروب ہوجائے تو بھی اللہ کی بارگاہ میں متوجہ ہو جائے۔

لیکن اگر چوبیس گھنٹوں میں انسان  اپنے اللہ ،اپنے مالک و رب کے ساتھ تعلق بنانے میں ، اس کا شکریہ ادا کرنے میں سستی کرے گا تو انسان کی زندگی بے سکونی و بے آرامی کا شکار ہوتی چلی جائے گی ظاہری بات ہے جب انسان پر کوئی اتنے زیادہ احسان کر رہا ہو اور انسان اسے شکریہ تک ادا نہ کہہ رہا ہو تو انسان کا ضمیر ، انسان کی روح  بےسکونی کا شکار ہو جاتی ہے ۔

ہم جانتے کہ جس زمانے سے ہم گزر رہے ہیں یہ زمانہ  خواہشات نفسانی کا زمانہ ہے کہ جس میں انسان کو اپنے مالک و خالق ،اپنے اوپر احسان کرنے والے کریم اللہ سے غافل کر دیا گیا ہے  اور گناہ کے مواقع اس طرح سے آسانی سے میسر ہیں کہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی اسی دلدل میں چلا جاتا ہے،  آج کا دور انٹر نیٹ کا دور ہے ہر کسی کے پاس ایک موبائل ہے  اس کا نفس مسلسل اسے  گمراہ کر رہا ہے اور ساتھ ہی اس کے پاس مکمل موقع ہے کسی کو کچھ بھی علم نہیں ہونے والا۔

جس طرح حضر ت یوسف علیہ السلام  کو شیطان نے مکمل گناہ کے قریب کردیا تھا اسی طرح آج کے دور کے  ہر انسان کو شیطان نے   فحاشی کے قریب کر دیا  ہے    جس طرح یوسف علیہ السلام کے لئے دروازے بند کر دیے گئے تھے اسی طرح انسان کے کمرے کا دروازہ کھلا ہونے کے باوجود بھی بند ہے اور کسی کو پتہ نہیں چلنے والا چونکہ یہ دور انٹرنیٹ کا دور ہے ہر انسان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ جب چاہے گناہ کی طرف چلا جائے  !

  اب اس مرحلہ میں انسان اپنے اندر کیسے طاقت پیدا کرے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ اللہ کی آواز پر لبیک کہہ دے اور گناہ کو چھوڑ دے ۔

اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ انسان پختہ ارادہ اور مضبوط ارادہ کر لے کہ نہیں کروں گا لیکن ایسا ممکن نہیں چونکہ انسان بہت کمزور ہے اور اس کے پختہ سے پختہ ارادے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اگر ہم قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کی سیرت کو دیکھیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو گناہ سے کیسے بچایا جب کہ وہ معصوم انسان تھے ہم جیسے گناہگار بھی نہ تھے ۔

تو قرآن مجیدمیں بڑا واضح  ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے رب پر اعتماد کرنے کی وجہ سے اس گناہ سے بچے تھے یعنی یوسف علیہ السلام نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں اپنے پختہ ارادہ کی وجہ سے بچ  گیا! پھر قرآن مجید نے بڑے واضح انداز میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بیان کو نقل فرمایا:

وَ مَا أُبَرِّئُ نَفْسىِ  إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةُ  بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبىّ‏ِ  إِنَّ رَبىّ‏ِ غَفُورٌ رَّحِيم

اور میں اپنے نفس کو بھی بری نہیں قرار دیتا کہ نفس بہرحال برائیوں کا حکم دینے والا ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے کہ وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔سورہ یوسف آیت 53

حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ بیان نہیں دیا کہ نفس برائی کا حکم دیتا ہے اور میں یوسف علیہ السلام اتنا پختہ ارادہ رکھتا ہوں کہ نفس کو شکست دے دی بلکہ فرمایا: إِلَّا مَا رَحِمَ رَبىّ‏ِ   اگر رحمتِ خدا نہ ہوتی تو آج یوسف جیسا معصوم نبی بھی برائی سے نہ بچ پاتا ۔

پس حضرت یوسف علیہ السلام جو کہ نبی اور معصوم ہیں وہ بھی یہ نہیں فرماتے کہ میں اپنے اعتماد اور اپنے مضبوط ارادے سے بچ گیا بلکہ انہوں نے بھی کہا کہ یہ سب اللہ کی میرے اوپر رحم کرنے کی وجہ سے ہے پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم لوگ بھی گناہ سےبچنے کےلئے اللہ سے اس کی رحمت کی بھیک مانگیں ۔

اور اسی فحاشی اور گناہ سے بچنے کےلئے انسان کو نفس کی قوت کی ضرورت ہے اور یہ طاقت  اسے نماز سے ملتی ہے  چونکہ قرآن مجید میں واضح اعلان ہے :

 إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهى‏ عَنِ الْفَحْشاءِ وَ الْمُنْكَر

یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔(سورہ عنکبوت آیت 45)

نماز خود تو نہیں روکتی لیکن نماز انسان کے اندر اتنی قوت پیدا کریتی ہے  کہ وہ انسان برائی کر سکنے کے باوجود بھی برائی سے رک جاتا ہے چونکہ جب انسان چوبیس گھنٹے میں مسلسل اپنے رب ، اپنے خالق سے جڑا رہے گا تو وہ رب بھی اسے یہ طاقت عطا کر دے گا کہ وہ برائی سے بچ سکے ۔

پس نماز ہی وہ نسخہ ہے کہ جس کی بدولت آج کے دور میں انسان برائی سے بچ سکتا ہے اورجس طرح انسان جسمانی صحت اور فٹنس کےلئے محنت کرتا ہے اپنے کھانے پینے اور آرام کا خیال رکھتا ہے اسی طرح اپنی روح کی فٹنس کےلئے بھی انسان کو اس نما زکا خیال رکھنا ہوگا۔

اور جس طرح آج کے دور میں غذائیں خالص نہیں ملتیں اور ماحول بھی آلودہ ہے تو فٹنس کا خیال رکھنےو الا انسان مکمل سٹڈی کرتا ہے کہ نیچرل ماحول اور خالص خوارک کو تلاش کرے وہ ہر خوراک کے بارے میں پڑھتا ہےا ور سمجھتا ہے کہ کونسی چیز زیادہ کھانے سے اس کا وزن بڑھ جائے گا کونسی خوارک میں شوگر کی مقدار کتنی زیادہ ہے اور دن میں اسے کتنی شوگر کتنے وٹامنز کی ضرورت ہے اور اپنی فٹنس اور سمارٹ پن کو باقی رکھنے کےلئے اسے مرغن غذائیں چھوڑنی بھی پڑیں تو وہ چھوڑ دیتا ہے وہ اچھی اچھی اور لذیذ مٹھائیاں اور مصالحہ دار کھانوں تک کو قربان کر دیتا ہے کہ کہیں اس کا پیٹ نہ بڑا ہوا جائے کہیں یہ موٹا نہ ہوجائے کہیں شوگر نہ ہوجائے اور یہ بات بھی بہت اچھی ہے کہ انسان صحت کا خیال رکھے اور اپنے خواہش کی ایک نہ سنے لیکن کیا انسان اپنی روح کا خیال رکھنے کےلئے اتنی فکر کرتا ہے ؟

آج کے دو رمیں کیا وہ اس خالص نماز کی تلاش کرتا ہے کہ جو اسے گناہوں سے بچانے کی طاقت عطا کر دے؟ کیا وہ نماز کی شرائط و وضو اور طریقوں کو جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ جن کی وجہ سے نماز خالص ہوتی ہے اور جتنی نماز خالص ہوگی اتنا ہی اس کا فائدہ زیادہ  ہوگا ؟ انسان یہ تو جانتا ہے کہ وقت پر کھانا کھانے اور سونے سے انسان کی صحت او ر فٹنس باقی رہتی ہے لیکن کیا اپنی روح کی فٹنس اور صحت کےلئے وہ نماز کے وقت کا خیال کرتا ہے یا پھر نماز میں سستی ہی کرتارہتا ہے اور جب اس کی روح فاسد ہوجاتی ہے اور گناہوں سے نہیں بچ باتا تو بے سکونی اور بے آرامی اور ٹینشن کی دنیا میں چلا جاتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ میرا تو نماز کےلئے دل بھی نہیں کرتا ۔

 انسان کا پھیکے اور بے ذائقہ کھانے کھانے کو بھی دل نہیں کرتا لیکن پھر بھی وہ کھاتاہے کیونکہ اسے علم ہے کہ اس میں وٹامنز زیادہ ہیں اس میں اسے بہت فائدہ ہوگا جسمانی فٹنس کے مسئلے میں وہ دل کی نہیں عقل کی سنتا ہے لیکن روحانی فٹنس میں وہ دل ہی کی کیوں سنتا ہے عقل کی بات پر توجہ کیوں نہیں دیتا ؟؟

اور اسی بات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ آج کے دور میں انسان کو سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنی سب سے زیادہ اہمیت اور توجہ نماز پر دے کیونکہ جب تک وہ نماز کو اہمیت نہیں دےگا اس وقت تک آج کے دور میں گناہوں سے نہیں بچ سکے گا ۔

ایک روز جناب سیدہ فاطمہ علیہا السلام نے اپنے بابا رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا:

يَا أَبَتَاهْ مَا لِمَنْ‏ تَهَاوَنَ‏ بِصَلَاتِهِ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَاءِ

اے بابا جان مردوں اور عورتوں میں سے جو نماز میں سستی کرے اس کے لئے کیا ہے؟

تَهَاوَنَ‏  کا مطلب  کسی بات کومعمولی سمجھنا ہے ، اسے اہمیت نہ دینا ہےاور اسے ہلکہ سمجھناہے ۔

پس نماز کو ہلکا اور معمولی سمجھنے کا کیا مطلب ؟

اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان نماز تو بجالا لاتا ہے لیکن اس کے باوجود نماز اس کی زندگی میں اہمیت نہیں رکھتی وہ پہلے دوسرے کام کرتا ہے اور پھر نماز کی طرف آتا ہے۔

نماز کو ہلکا سمجھنے کا ایک اور مطلب یہ بھی ہے اور وہ یہ ہےکہ انسان نماز تو پڑھتا ہے اور نماز کے وقت کو بھی اہمیت دیتا ہے لیکن نماز کا کیا طریقہ ہے کس طرح پڑھنی ہے قرائت کیسے کرنی ہے رکوع و سجود کیسے ہونے چاہئیں اور وضوء و طہارت کی  کیا شرائط ہیں ان پر کوئی توجہ نہیں دیتا نہ ہی اس کے بارے میں خود سٹڈی کرتا ہے اور نہ ہی کسی سے پوچھتا ہے بس جو اس کے ذہن میں ہو وہی کرتا ہے  تو یہ بھی نماز کو ہلکا سمجھنا ہے  جب انسان اپنی اور اپنے بچوں کی صحت کےلئے صحت مند اور نقصان دہ غذاؤں کے بارے میں سٹڈی کرتا ہے یا اس کے بارے میں نیٹ یا ٹی وی پر شو بھی  دیکھتا ہے  لیکن جب اس کی روحانی غذا کا مسئلہ آتا ہےیعنی نماز کےبارے میں اہمیت نہیں دیتا اور اس کو بہت ہی معمولی سمجھنے کی وجہ سے اس کے بارے میں نہ سٹڈی کرتا ہے اور نہ ہی ٹی و ی یا نیٹ پر نماز کے بارے میں پروگرامز بھی نہیں دیکھتا ۔

پس یہ سب نماز کو ہلکا اور معمولی سمجھنے کی صورتیں ہیں اور جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے تھاون بالصلاۃ کا لفظ استعمال فرما کر ان سب صورتوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سےسوال فرمایا۔

تو پیغمبرِ اکرم ﷺ نے فرمایا

اے فاطمہ (علیہا السلام) مردوں اور عورتوں میں سے جو بھی نماز میں سستی کرتا ہے تو اللہ اسے پندرہ چیزوں میں مبتلاء کر دیتا ہے  ان میں سے چھ اسی دنیا میں اور تین اس کی موت کے وقت اور تین اس کی قبر میں اور تین قیامت کے دن کہ جب وہ قبر سے نکلے گا۔

جن چھ چیزوں میں وہ اسی دنیا میں مبتلاء ہوجائے گا وہ یہ ہیں

اللہ اس کی عمر  سے برکت کو اٹھا لیتاہے ۔1

اللہ اس کے رزق سے برکت کو اٹھا لیتا ہے ۔2

(وضاحت: یعنی نماز میں سستی کرنے کی وجہ سے انسان کی صحت اور مال و دولت پر بھی اثرات پڑتےہیں تو اس پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اگر انسان نماز کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دے اور اس کو ہمیشہ ہر کام پر مقدم کرے اور اسے اول وقت میں اد ا کرے تو نہ صرف یہ کہ انسان کی روح طاقت ور ہوگی بلکہ اس کی صحت پر بھی اچھے اثرات پڑیں گے کہ جس کی وجہ سے اس کی زندگی میں اضافہ ہوگا اور اسی طرح انسان یہ نہ سمجھے کہ اگر اس نے نماز کو اپنے کاروبار و بزنس یا اپنی جاب پرزیادہ اہمیت دے دی تو اس کا رزق تھوڑا ہوجائے گا بلکہ بات بالکل الٹ ہے اگر نماز کو زیادہ اہمیت دے گا تو خود اس کے رزق میں بھی برکت ہوجائے گی اور نماز کو اہمیت نہ دے کر اپنے کسی اور کام کو اہمیت دے گا اور پہلے وہ کام کرے گا تو پھر رزق سے برکت ختم ہوجائے گی اور اس میں کمی واقع ہوجائے گی ۔ )

اللہ اس کے چہرے سے نیکوں کی پاک علامتیں مٹا دیتا ہے ۔3

جو بھی وہ نیک کام کرے گا اسے  اس پر  اجر نہیں دیا جاتا ۔4

اس کی دعا آسمان پر نہیں پہنچتی ۔5

نیک لوگوں کی دعاؤں کا اسے حصہ بھی نہیں دیا جاتا ۔6

(وضاحت:جب نیک لوگ تمام مؤمنین کےلئے دعا کرتے ہیں کہ مثال کے طور پر اے اللہ تمام مؤمنین کے رزق و مال میں برکت عطا فرما، تمام بیماروں کو صحت عطا فرما تو نماز میں سستی کرنے والے کو ان دعاؤں میں شامل نہیں کیا جاتا)

اور وہ تین چیزیں جن میں موت کے وقت مبتلا ہو گا

1وہ ذلیل ہو کر مرے گا۔ 2:بھوکا مرےگا۔ 3:پیاسا مرے گا اگرچہ اسے دنیا کے دریا پلا دیے جائیں تب بھی اس کی پیاس نہیں بجھے گی۔

اور وہ تین چیزیں کہ جن میں یہ قبر کے اندر مبتلاء ہوگا

1 اللہ ایک فرشتے کو موکل فرمائے گا جو اسے قبر میں عذاب دیتا رہے گا۔

2 اس پر قبر کو تنگ کر دیا جائے گا۔3:اس کی قبر میں تاریکی ہوگی ۔

اور وہ تین چیزیں کہ جن میں بروز قیامت وہ مبتلا ہوگا

1جب قبر سے اسے نکالا جائے گا تو ایک فرشتے کو اللہ مقرر کرے گا جو اسے چہرے کے بل کھینچ کر لائے گااور  تمام دنیا کی مخلوق اسے دیکھ رہی ہوگی۔

2اس کا حساب سختی سے لیا جائے گا۔

3اللہ اس کی طرف نگاہ نہیں کرے گا اور اس کےلئے دردناک عذاب ہوگا۔

(ماخوذ از: فلاح السائل و نجاح المسائل ؛ ص22)

العودة إلى الأعلى