انفاق فی سبیل اللہ: ایک سماجی، روحانی اور حسینی فریضہ

: شیخ سردار حسین 2025-08-03 11:07

اسلام ایک ایسا مکمل دین ہے جو انسان کی صرف عبادات یا اعتقادات ہی کی اصلاح پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ وہ فرد اور معاشرے دونوں کی روحانی، اخلاقی اور معاشی تربیت کا جامع نظام بھی پیش کرتا ہے

اس نظام میں انفاق فی سبیل اللہ کو ایک مرکزی مقام حاصل ہے، جو انسان کے ایمان، اخلاق اور سماجی ذمہ داریوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے

انفاق عربی زبان کا لفظ ہے، جو مادہ "ن ف ق" سے نکلا ہے، اور اس کے لغوی معنی ہیں: خرچ کرنا، صرف کرنا، راہِ خدا میں دینا، یا کسی چیز کو باہر نکالنا

اصطلاحِ شریعت میں انفاق سے مراد ہروہ مال ہے جو اللہ کی رضا کے لیے بندگانِ خدا کی ضرورت پر خرچ کیا جائے، چاہے وہ زکوٰۃ، صدقہ، خیرات، یا کوئی بھی نیکی کا عمل ہو

قرآن کریم نے متعدد مقامات پر انفاق کو ایمان کی علامت، نیکی کی پہچان، اور نجات کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو دلوں کو سخاوت سکھاتا ہے، روح کو پاک کرتا ہے، اور معاشرے کو عدل و تعاون کی بنیاد پر استوار کرتا ہے۔

اسلام کے نزدیک مال انسان کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کی عطا کردہ امانت ہے، جسے مستحقین تک پہنچانا انسان کا اخلاقی، دینی اور سماجی فریضہ ہے۔ انفاق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کی درجنوں آیات میں انفاق کو ایمان، صبر، تقویٰ اور توکل جیسے اوصاف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔

اہل بیت علیہم السلام کی سیرت میں بھی انفاق کو ایک عظیم انسانی خلق کے طور پر اپنایا گیا۔ کربلا میں امام حسینؑ کی قیام کو انفاق کی معراج قرار دیا جا سکتا ہے، جہاں سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا گیا۔

پس انفاق ایسا عمل ہے جو صرف ضرورت مندوں کی حاجت روائی نہیں کرتا بلکہ دینے والے کے نفس کی تربیت، دل کی طہارت، اور خدا کی قربت کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ قرآن اعلان کرتا ہے:لن تنالو البر حتی تنفقو مما تحبون ترجمہ :تم ہرگز نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔ (آل عمران: 92)

یہی انفاق انسان کو مادہ پرستی سے نکال کر خدا پرستی کی طرف لے جاتا ہے۔ جو شخص اپنے مال میں دوسروں کا حق سمجھ کر خرچ کرتا ہے، درحقیقت وہی متقی اور محسن ہے جسے قرآن نجات کی بشارت دیتا ہے۔

قرآن مجید میں معیارِ انفاق

قرآن کی روشنی میں انفاق صرف مالی معاملہ نہیں بلکہ ایمان، اخلاق اور قربِ الٰہی کی جیتی جاگتی علامت ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ : اے ایمان والو! جو مال تم کماتے ہو اور جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے، اس میں سے عمدہ حصہ خرچ کرو، اور ردی چیز خرچ نہ کرو، جسے تم خود بھی لینا پسند نہ کرو مگر آنکھیں بند کر کے۔ جان لو کہ اللہ بے نیاز اور قابلِ حمد ہے

قرآن کے مطابق انفاق کا معیار درج ذیل ہے:

1. کسبِ حلال سے ہو:من طیبات ما کسبتم

2. افضل اور پسندیدہ چیزوں سے ہو، نہ کہ ردی یا نکمی اشیاء سے۔

 جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: لن تنالو البر حتی تنفقو مما تحبون (آل عمران: 92)

3. محض رضائے الٰہی کی نیت سے ہو، نہ کہ شہرت یا بدلے کی خاطر

روایات کی روشنی میں انفاق کی فضیلت

اہل بیت علیہم السلام نے انفاق کو اخلاقی طہارت، رضائے خدا، اور نجاتِ آخرت کا ذریعہ قرار دیا۔

امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں:صدقہ کے دس فائدے ہیں: پانچ دنیا میں اور پانچ آخرت میں۔

دنیا میں: مال کی پاکیزگی، رزق میں اضافہ، بلاؤں کا دفع ہونا، لوگوں کے دلوں میں محبت، اور عیبوں کا پردہ (الکافی، ج4، ص48)

ایک اور حدیث میں آیا ہے: ما من یوم الا وینادی ملکان : اللھم اعط منفقا خلفا واعط ممسکا تلفا

ہر دن دو فرشتے آواز دیتے ہیں: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو مزید عطا کر، اور روکنے والے کو ہلاکت دے۔(وسائل الشیعہ، ج9، ص465)

امام علیؑ فرماتے ہیں: ما نقص مال من صدقہ  ترجمہ : صدقہ دینے سے مال کبھی کم نہیں ہوتا۔(نہج البلاغہ، حکمت 258)

انفاق اور امام حسین ؑ کا راستہ

راہِ خدا میں انفاق کا سب سے عظیم مظہر ہمیں کربلا میں نظر آتا ہے۔ امام حسینؑ نے اپنا سب کچھ، حتیٰ کہ جان، خاندان، اور بچے تک اللہ کی رضا کے لیے قربان کر دیے۔ ان کا راستہ صرف تلوار کا نہیں، بلکہ ایثار، انفاق، اور قربانی کی عملی تفسیر ہے۔

مجالسِ عزاء، زائرین کی خدمت، تعلیمی اداروں کی سرپرستی، اور فلاحی کاموں میں شرکت — یہ سب انفاق فی سبیل اللہ کی عملی شکلیں ہیں، جو راہِ حسینؑ سے وابستگی کا اظہار بھی ہیں

انفاق کے اثرات

1. روحانی پاکیزگی:

خذ من اموالھم صدقہ تطھر ھم و تذکیھم بھا   ترجمہ :انفاق بخل، خودغرضی اور دنیا پرستی سے دل کو پاک کرتا ہے۔ توبہ

2. اجتماعی برکات:

جب انسان اپنی دولت دوسروں پر خرچ کرتا ہے تو معاشرے میں غربت کم ہوتی ہے اور دلوں میں محبت، اعتماد اور الفت بڑھتی ہے۔

3. الٰہی رضا اور نجات:

وسیجنبھا الاتقی الذی یوتی مالہ یتزکی (اللیل:17-18) ترجمہ :جو شخص تزکیے کے لیے مال خرچ کرتا ہے، وہ جہنم سے بچا لیا جاتا ہے۔

انفاق: ایک عقیدہ اور عبادت

قرآن کہتا ہے: وانفقو مما جعلکم مستخلفین فیہ ترجمہ : اس مال سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں خلیفہ بنایا ہے (الحدید:7)

یہ مال اگرچہ ہم نے کمایا ہے، لیکن اس کا اصل مالک اللہ ہے اور ہم اس کے فقط امانت دار ہیں۔ یہی عقیدہ انسان کو بخل سے نجات اور اخلاص کی دولت عطا کرتا ہے۔

انفاق فی سبیل اللہ محض چند سکوں کا صدقہ نہیں، بلکہ یہ ایک عقیدہ، اخلاقی نصب العین، اور روحانی بالیدگی کی بنیاد ہے۔

امام حسینؑ کی راہ میں انفاق کرنا ، چاہے وہ مجلسِ عزا ہو یا زائرین کی خدمت، تعلیم کا فروغ ہو یا غریبوں کی امداد ،درحقیقت خدا کی راہ میں قدم بڑھانا ہے۔

خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں انفاق کا فہم، اخلاص، اور عمل عطا فرمائے۔ اللہ غنی حمید

اللہ بے نیاز ہے، مگر وہ دل سے دیا گیا صدقہ قبول کرتا ہے۔

مطلوبہ الفاظ : انفاق فی سبیل اللہ

العودة إلى الأعلى