سیرت امام حسن عسکری علیہ السلام

2022-10-05 11:43:34

امام حسن عسکری علیہ السلام کی کنیت "ابو محمد" ہے جبکہ مختلف کتب میں آپ (ع) کے متعدد القاب ذکر ہوئے ہیں جن میں مشہور ترین "عسکری" ہے جس کا سبب شہر سامرا کے محلہ "عسکر" میں آپ (ع) کی رہائش یا بالفاظ دیگر "قلعہ بندی" ہے۔ "زکی" یعنی پاک و تزکیہ یافتہ، آپ (ع) کا دوسرا مشہور لقب ہے۔

ہر امام معصوم (ع) کا علم منبع وحی سے ماخوذ ہوا کرتا تھا اور حتی دشمنوں اور مخالفین نے تصدیق کی ہے کہ آئمہ علیہم السلام کا علم اس قدر وسیع تھا کہ بیان کے دائرے میں نہیں آتا  امام علیہ السلام کے احکامات، فرامین، اقوال اور دروس و پیغامات اور آپ (ع) سے منقولہ احادیث و روایات سے آپ (ع) کی دانش کا اظہار ہوتا ہے

بزرگ عیسائی عالم اپنے شاگرد بطریق سے کہتا ہے ابن الرضا ابو محمد عسکری کی طرف چلے جاؤ اور جان لو کو ہمارے زمانے میں آسمان تلے ان سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے اور خبردار! اگر وہ تمہیں کوئی حکم دے تو ہرگز اعتراض مت کرنا

آپ (ع) کی حیات طیبہ خدائے مہربان سے انس و محبت اور صبر و شکر کا اعلی نمونہ تھی محمد شاکری نے روایت کی ہے کہ "میرے مولا اور استاد امام حسن عسکری علیہ السلام محراب عبادت میں سجدے میں چلے جاتے تھے اور آپ (ع) کا سجدہ اور ذکر و دعا کا یہ سلسلہ اس قدر طویل ہوجاتا تھا کہ میں سوجاتا اور جاگ جاتا اور دیکھتا تھا کہ آپ (ع) ابھی سجدے کی حالت میں ہیں۔

امام حسن عسکری علیہ السلام کے سجدے رات کو فجر سے متصل کر دیتے تھے اور آپ (ع) کی عارفانہ مناجات ہر مردہ اور دنیا زدہ دل کو آسمانی حیات بخش دیتی تھی۔ آپ (ع) نے اپنے جد امجد امیر المؤمنین علیہ السلام کی مانند دنیا کو تین طلاقیں دی تھیں اور دنیا کی نعمتوں سے اپنی ضرورت سے زیادہ اٹھانا پسند نہیں فرمایا کرتے تھے اور اپنی پوری زندگی صرف آخرت کا خانہ تعمیر کرنے میں مصروف رہتے تھے۔

مامون کی موت کے بعد معتصم عباسی بغداد میں داخل ہوا اور لوگوں سے اپنے لئے بیعت لی اور اس کے بعد حکومت میں اعلی مناصب پر موجود ترکوں کی مدد سے بغداد کے شمال مشرق میں شہر "سامرا" کی بنیاد رکھی۔ اس شہر میں اس نے ایک محلہ فوجیوں کو مختص کیا جس کو عسکر کہا جانے لگا۔ عباسی حکمران اپنے عباسی اور اموی اسلاف کی مانند شیعیان آل محمد (ص) اور بطور خاص فرزندان رسول (ص) آئمہ طاہرین (ع) سے خوفزدہ رہتے تھے چنانچہ سامرا کی تعمیر کے بعد امام علی النقی الہادی علیہ السلام اور آپ (ع) کے فرزندوں ـ بالخصوص امام حسن عسکری علیہ السلام ـ کو عسکر کے محلے میں نظر بند رکھا گیا اور یہ محلہ آل محمد (ص) کے جبری مسکن میں تبدیل ہوا

امام حسن عسکری علیہ السلام کا محاصرہ اس قدر شدید تھا کہ اہل خاندان اور دوستوں کا آپ (ع) سے رابطہ تقریبا ناممکن تھا

 

امام عسکری علیہ السلام کے بارے میں نہ صرف آپ کے مخالفین آپ کی امامت کے معترف تھے بلکہ اس وقت کاحاکم (معتمد عباسی) بھی امام عسکری علیہ السلام کی امامت کا اعتراف کرتا تھا

بنیادی طور پر تاریخ کے مسلمہ امور میں سے ایک یہ ہے کہ بنو امیہ کے حکام اور بنو عباس کے حکام دونوں اس بارے میں کوئی شک وشبہ نہیں رکھتے تھے کہ امامت ، آئمہ طاہرین علیہم السلام کا مسلمہ حق ہے ، ان کے لئے واضح تھا کہ امامت اہلبیت علیہم السلام کا حق اوران کی شان میں ہے اس کے علاوہ امامت سے متعلق روایات و دلائل که یہی حکمران ان کے بارے میں عام لوگوں سے زیادہ معلومات رکھتے تھے ،خودآئمہ کی زندگی وآثاراوراوصاف بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ امامت اہلبیت کا حق ہے ۔
امام عسکری علیہ السلام کے بھائی جعفر، معتمد عباسی سے کہتا ہے کہ کوئی ایسا کام کرو کہ میں شیعوں کے لئے امام کے عنوان سے منصوب ہو جاؤں ، معتمد عباسی جعفر کے جواب میں یوں کہتا ہے

 «إعْلَمْ أَنَّ مَنْزِلَةَ أَخِيكَ لَمْ تَكُنْ بِنَا إِنَّمَا كَانَتْ بِاللَّهِ عَزَّوَجَلَّ»'' یہ مقام و مرتبہ جو تیرا بھائی کا ہے وہ ہمارے اختیار سے باہر ہے ہم نے ان کو یہ مرتبہ نہیں دیا ہے یہ مرتبہ تو خداوند عزوجل نے ان کو دیا ہے ۔
آئمہ طاہرین علیہم السلام کی دشمنوں کا اعتراف ہے کہ وہ کہتا ہے کہ یہ مقام و مرتبہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ، ہم نے ان کو نہیں دیا ہے یہ مقام تو خداوند تبارک وتعالی کے اذن سے ہے ۔
اس کے بعد وہ کہتا ہے صرف وہ کام جوہم کرسکتے ہیں '' نَحْنُ كُنَّا نَجْتَهِدُ فِي حَطِّ مَنْزِلَتِهِ وَ الْوَضْعِ مِنْهُ وَ كَانَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ يَأْبَى إِلَّا أَنْ يَزِيدَهُ كُلَّ يَوْمٍ رِفْعَةً بِمَا كَانَ فِيهِ مِنَ الصِّيَانَةِ وَ حُسْنِ السَّمْتِ وَ الْعِلْمِ وَ الْعِبَادَة» ہماری کوشش تو یہ ہے کہ ہم ان کو لوگوں کی نظروں سے گرادیں ، لوگوں کے درمیان ان کے مقام و مرتبہ کو کمزور کردیں ، ( یہ بھی معتمد عباسی کا اقرار ہے کہ وہ اس کوشش میں ہے کہ امام عسکری علیہ السلام کے مقام ومرتبہ کو لوگوں کے سامنے کم کرے ) لیکن جو بھی ہوخداوندعالم کا ارادہ یہ ہے کہ ان کو بلند کرے ، کس دلیل کے تحت ؟ دلیل علم ،عبادت اور ان صفات کی بناء پر جو ان کے اندر ہیں ۔
امام عسکری علیہ السلام کے بارے میں دوسرا نکتہ اوروہ دلچسپ واقعات جو ان امام کے زمانے میں واقع ہوئے ، شیعہ کی حقانیت اور امام عسکری علیہ السلام کی امامت کے بارے میں دوسرے مذاہب کا اعتراف ہے ،اگر ہم تاریخ کی جانچ پڑتال کریں تو یہ اہم بات سامنے آئے گی کہ آئمہ معصومین علیہم السلام کی امامت کہ جن میں امام عسکری علیہ السلام بھی ہیں کا اقرار صرف شیعہ نہیں کرتے تھے بلک دوسرے مذاہب کے علماء  یعنی یہود و نصاری کے علماء جو امام عالیمقام کے زمانے میں تھے سب امام عسکری علیہ السلام کی امامت اوراہلبیت عصمت وطہارت کے معترف تھے ۔
انوش نصرانی کا واقعہ بہت مشہور ہے اس نے معتمد عباسی سے کہا کہ وہ امام عسکری علیہ السلام سے ان کے دو بیٹوں کی تندرستی اور صحت یابی کے لئے دعا کرنے کوکہے ، انوش نے جو جملہ کہا ہے یہ ہے : نحن نتبرك بدعاء بقايا النبوة و الرسالة» ہم نبوت و رسالت کے خاندان سے دعا کوتبرک کرتے ہیں اور ان کی برکت سے ہماری مشکلیں حل ہوتی ہیں ۔
قصہ مفصل ہے : جب امام عسکری علیہ السلام سے کہا گیا کہ انوش نصرانی نے ایسا جملہ ''نحن متبرک۔۔۔۔۔۔'' کہا ہے تو امام عسکری علیہ السلام نے فرمایا : «الحمدلله الذي جعل النصراني أعرف بحقنا من المسلمين»خدا کا شکر ہے کہ جس نے ہمارے حق کے متعلق نصارا کو مسلمانوں سے زیادہ آگاہ قرار دیا،اس سے مراد خود امام علیہ السلام کے زمانے کے مسلمان ہیں وہ بھی سارے نہیں بلکہ ان میں سے ایک گروہ یعنی وہ لوگ جو اسلام کا دعوا کرتے تھے اورخلافت کو غصب کیا اوراپنے کو مسلمانوں کا حاکم قراردیا تھا،اس کے بعد امام علیہ السلام انوش نصرانی کے گھر گئے ، تاریخ میں لکھا ہے کہ انوش کس انداز سے امام علیہ السلام کے استقبال کو گیا کہ «فخرج إليه مكشوف الرأس حافي القدمين»سروپیر برہنہ امام کے استقبال کو گیا اور اس کے گرد قسیسین تھے شمامسہ تھے ( شمامسہ قسیسین سے نچلے درجہ کے روحانی) جو انوش کے ساتھ امام کے استقبال پرنکلے تھے  «و حوله القسيسون و الشمامسة و الرهبان» اس کے سینہ پر ایک انجیل تھی ہم نے آپ سے اسی کتاب کے ذریعہ متوسل ہوئے کہ جس کے آپ ہم سے زیادہ عالم ہیں ،اس کے بعد امام علیہ السلام سے عرض کیا ا. کہ اس کتاب کے واسطے آپ کو جو تکلیف دی ہے  مجھے معاف فرما اورمسیح بن مریم کے واسطے کہ جس کا وہ خود عقیدہ رکھتے تھے ، اور انجیل کے واسطے بہت اہم جملہ ہے کہ کہتا ہےمیں آپ سے جو متوسل ہوا ہوں اور آپ سے اپنے بچوں کی شفاء کے لئے درخواست کی ہے تو اس کی دلیل یہ ہے کہ ہم نے اس انجیل میں خدا کے نزدیک آپ کے مرتبہ کو حضرت مسیح کے مرتبہ کے مانند پایا  (وہ انجیل جوحضرت امام عسکری علیہ السلام کے زمانے میں تھی)
معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر کے اوصیاء کی خصوصیات بھی اس کتاب میں تھے ، یہ ایسے نکات ہیں کہ جن کے اوپر ہمیں بہت غور کرنا چاہئے ،آج شاید مختلف انجیل ہوں ، لیکن امام عسکری علیہ السلام کے زمانے کے بعد تقریباً بارہ سو سال گزرنے کے بعد شاید پیغمبر کے ان اوصیاء کے بارے میں کوئی چیز نہ ملے ، اگرچہ بعض اناجیل میں کچھ اشارے ملتے ہیں ۔
لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ انجیل جو اس وقت تھی اور وہ پادری خود اعتراف کرتا ہے کہ ہم اس کتاب میں خدا کے نزدیک آپ کے مرتبہ کو مسیح کا مرتبہ ہی دیکھتے ہیں ، البتہ ہمارا عقیدہ ہے آئمہ حضرت مسیح سے بہت بالاتر ہیں ، ہمارا عقیدہ ہے کہ آئمہ طاہرین علیہم السلام تمام انبیاء سے افضل ہیں اس کی دلیل بھی موجود ہے ، لیکن ان نصرانیوں کی معرفت کی مقدار اس قدر تھی ، البتہ یہی افراد بھی ہمارے لئے بہت اہم ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی کتاب میں آپ کے مقام ومرتبہ کو دیکھا اور خدا کے نزدیک آپ کا مرتبہ عیسی سے کم نہیں ،اس لئے آپ سے درخواست کی ہے کہ یہاں تشریف لائے ، امام نے اس کے بیٹوں کو دیکھا اور فرمایا : یہ بیٹا زندہ رہے گا اور شیعہ ہو جائے گا اوراہلبیت عصمت و طہارت کے دوستوں میں سے ہوگا ، لیکن دوسرا تین دن کے بعد دنیا سے رخصت ہو جائے گا تاریخ میں ہے کہ وہی کچھ ہوا جو امام علیہ السلام نے بیان فرمایا تھا ۔
پس یہ حاکم عباسی اورمختلف مذاہب کا امام عسکری علیہ السلام کے بارے میں اعتراف ہے امام عسکری ایک معصوم امام اور حقیقت مسلمہ ہے کہ آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی اولاد میں سے ہیں جن کا یہ مقام و مرتبہ ہے کہ جو انی کے عالم میں ہی حاکم عباسی اور دوسرے سارے آپ کے احترام ایک عام آدمی کے لحاظ سے نہیں بلکہ خدا کی منتخب فرد وشخصیت کے لحاظ سے کرتے ہیں ۔
امام عسکری علیہ السلام کے زہد وعبادت کے اعتبار سے یہی مشہور واقعہ کافی ہے کہ زمانے کے سب سے برے دو آدمیوں کو امام کازندان بان مقررکر دیا گیا ، کچھ عرصہ بعد دیکھا گیا کہ وہ دونوں عبادت گزار ہوگئے ہیں ، ان کو بلایا گیا اور ڈانٹ کے کہا گیا کہ ہم نے تم دونوں کو نگرانی کے لئے بھیجا تھا ،لیکن تم دونوں ہی بدل گئے ہو؟ ان دونوں نے کہا تم کیا کہتے ہو،ایک ایسے شخص سے ہمارا واسطہ پڑا ہے جو راتوں کو عبادت کرتا ہے دن کو روزے رکھتا ہے کوئی بات نہیں کرتا اور ہمیشہ عبادت میں مصروف ہے ۔
یہاں پر یہ نکتہ یاد رکھنا چاہئے خاص طور پر ہم طلاب علوم دینی کو کہ آئمہ کو جب بھی کوئی فرصت ملتی تھی ، ظاہری طور پر تو زمانہ والے ان کو محدود کرتے تھے اور آئمہ کوئی کام انجام نہیں دے سکتے تھے ، ایسے وقت میں آئمہ زیادہ تر عبادت اور خدا کی بندگی میں مشغول رہتے تھے اس کی تلاش میں رہتے تھے کہ عبادت و بندگی کے لئے کوئی فرصت مل جائے ۔
ہمیں بھی کسی حد تک ایسا ہونا چاہئے ، ہمارے عمل سے اسلام ، تقوی ا ور خدا کی بندگی ظاہر ہونی چاہئے ، یہ ریا کی خاطر نہ ہو کہ خدانخواستہ دوسروں کو دکھانے کے لئے ہم ان نیک کاموں کے پیچھے رہیں ۔ خاص طور پر ہم اس دور میں زیادہ اس کے محتاج ہیں کہ لوگ ہمیں عمل میں دیکھیں کہ ہم زاہد ہیں نہ دعوا اور نعرہ اور نہ دکھاوے میں ،عملی طور پر ہمیں دیکھیں کہ ہم عبادت گزار ہیں ، عمل میں دیکھیں کہ ہم دنیا پرست نہیں ، ہم دنیا سے اعراض کرتے ہیں ، یہ ہمارے تمام آئمہ علیہم السلام کی سیرت میں تھا،خاص طورپر امام عسکری علیہ السلام کی سیرت میں ، یہ کچھ نکات ہیں امام عسکری کے بارے میں ، البتہ گفتگو اس سے کہیں زیادہ مفصل ہے کیونکہ امام عسکری نے تین عباسی حکمرانوں کا دور دیکھا ، اس وقت کیا کیا مسائل رونما ہوئے ،ان تینوں حکمرانوں کے ساتھ امام کا رویہ کیسا تھا ؟ یہ بھی بہت تفصیلی گفتگو ہے ، آپ تاریخ کا مطالعہ کریں ،

العودة إلى الأعلى