امام زین العابدین علیہ السلام کی سیرت طیبہ
امام زین العابدین علیہ السلام کی سیرت طیبہ
پچیس محرم الحرام امام زین العابدین علیہ السلام کی یوم شہادت کا دن ہے۔اس مناسبت سے آج ہم امام علیہ السلام کی سیرت مبارکہ کے مختلف پہلوؤں پر بات کریں گے۔امام زین العابدین علیہ السلام روحانیت و معنویت کا کامل نمونہ ہیں۔ ان کی زیارت گویا حقیقتِ اسلام کی زیارت ہے۔ آپٴ کی نمازیں‘ روح کی پرواز ہوتی تھی اور آپٴ پورے خضوع و خشوع کے ساتھ بارگاہِ پروردگار میں کھڑے ہوتے تھے۔ آپٴ محبت کے پیغام بر تھے۔ جب کبھی کوئی ایسا غریب و بے کس نظر آتا جو دوسروں کی توجہ سے محروم ہوتا تو اس کی دلجوئی کرتے اور اسے اپنے گھر لے جاتے۔
ایک دن آپٴ نے چند لوگوں کو دیکھا جو جذام کے مرض میں مبتلا تھے اور لوگ انہیں دھتکار رہے تھے، آپٴ انہیں اپنے گھر لے گئے اور ان کا خیال رکھا۔ امامٴ کا شریعت کدہ غریبوں، یتیموں اور بے کسوں کے لئے پناہ گاہ تھا۔
امام زین العابدینٴ کا دور بہت سخت اور دشوار تھا۔ یہاں تک کہ آپٴ خود فرماتے ہیں اگر کسی پر کفر کی تہمت لگائی جاتی تو یہ اس سے بہتر تھا کہ اس پر تشیع کا الزام لگایا جاتا( یعنی یہ ایسا دور تھا جس میں کافر کو اتنا برا نہیں سمجھا جاتا تھا جتنا شیعہ کو برا سمجھا جاتا تھا
نیز فرمایا: مکہ اورمدینہ میں بیس لوگ ایسے نہیں ہیں جو ہم سے محبت کرتے ہوں۔‘‘ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد
آپٴ کے دور میں اموی خاندان لوگوں پر پوری طرح سے غالب تھا کہ لوگوں پر ظلم و ستم روا رکھنے کے علاوہ ان کے دین کی تحریف پر بھی تُل گئے تھے۔ چنانچہ صحابی رسول، جناب انس بن مالک گریہ کرتے ہوئے کہا کرتے تھے جو باتیں زمانِ رسول میں موجود تھیں، ان میں سے کچھ بھی نہیں ملتا۔ جو چیزیں ہم نے رسول اللہ ص سے سیکھی ہیں ان میں سے صرف نماز بچی ہے کہ اس میں بھی بدعتیں پیدا ہوگئی ہیں۔
مشہور مورخ مسعودی کہتا ہے: علیٴ بن الحسینٴ نے انتہائی کٹھن دور میں امامت کی ذمہ داری سنبھالی۔ (اثبات الوصیہ، مسعودی جلد 4
امامٴ نے دوراندیشی اور اعلی تدبیر اختیار کرتے ہوئے بہترین انداز سے کام کیا اور وحی کے روشن چراغ کو بجھنے سے بچایا۔ آپٴ نے آسمان سے نازل ہونے والے خالص دین کو طوفانِ حوادث کے درمیان سے صحیح سلامت نکال کر اگلی نسلوں کے حوالے کیا اور اہل بیت علیھم السلام کے نام کو زندہ رکھا۔ مناسب حالات فراہم نہ ہونے کی وجہ سے قیام سے پرہیز، دعا کے قالب میں عظیم ثقافتی کام کا بیڑہ اٹھانا، ہر مناسب موقع پر شعور کو جھنجھوڑنا، عزائے سید الشہداءٴ میں زار و قطار رونا ۔۔ حصولِ مقصد میں آپٴ کے کامیاب اقدامات کا ایک حصہ ہے۔
امام سجاد(ع) کی عبادت
ہم حضرت امام سجاد(ع) کی عبادت کے بارے میں اس سے زیادہ کیا لکھ سکتے ہیں کہ تاریخ نے آپ(ع) کو "زین العابدین" اور "سید الساجدین" کا لقب دیا اور سجاد کے نام سے یاد کیا۔ تاریخی کتب میں حضرت امام سجاد(ع) کی عبادت کے بارے میں موجود روایات کو پڑھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ہم اپنے قارئین کی خدمت میں فقط چند روایات پیش کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں
روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام سجاد(ع) کا بیٹا کنوئیں میں گر گیا تو اہل مدینہ نے بہت زیادہ چیخ و پکار شروع کردی اور پھر امام کے فرزند کو کنوئیں سے نکال لیا، اس دوران حضرت امام سجاد(ع) محراب عبادت میں نماز پڑھ رہے تھے، جب بعد میں آپ(ع) کو اس واقعہ کے بارے میں بتایا گیا تو آپ نے فرمایا:مجھے کچھ محسوس نہیں ہوا میں اس دوران اپنے عظیم پروردگار سے مناجات کر رہا تھا۔
طاؤوس کہتا ہے کہ میں نے ایک دن مسجد الحرام میں میزاب کے نیچے ایک نمازی کو دیکھا کہ جو دعا کر رہا تھا اور دعا میں بہت گریہ کر رہا تھا، جب اس آدمی نے نماز ختم کی تو میں اس کے پاس گیا تو دیکھا تو وہ امام علی بن حسین (ع) ہیں۔ میں نے امام(ع) سے کہا: اے اللہ کے رسول کے فرزند!میں نے آپ کو اس حالت میں د یکھا ہے حالانکہ آپ کے پاس تین ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں مجھے امید ہے کہ وہ آپ کو خوف سے امان دے سکتی ہیں ان میں سے پہلی چیز یہ ہے کہ آپ رسول خدا(ص) کے فرزند ہیں، دوسری چیز آپ کے جد امجد کی شفاعت ہے اور تیسری چیز خدا کی رحمت ہے۔ امام سجاد(ع) نے یہ سن کر فرمایا: اے طاؤوس جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میں رسول خدا کا فرزند ہوں تو یہ چیز مجھے امان نہیں دے سکتی کیونکہ میں نے خدا کا یہ فرمان سن رکھا ہے "اس دن ان کے درمیان کوئی رشتہ داری نہ رہے اور نہ ہی وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے" اور جہاں تک میرے جد امجد کی شفاعت کی بات ہے تو وہ بھی مجھے امان نہیں دے سکتی "کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے وہ صرف اسی کی شفاعت کریں گے جس سے اللہ راضی ہو گا" اور جہاں تک خدا کی رحمت کی بات ہے تو اللہ فرماتا ہے "خدا کی رحمت محسنین کے قریب ہے اور میں یہ نہیں جانتا کہ میں محسن ہوں یا نہیں
امام سجاد(ع) اور عفو
معاشرتی زندگی کی ایک اہم خصوصیت دوسروں کی کوتاہیوں کو نظرانداز کردینا اور حلم کا مظاہرہ کرنا ہے ۔اور اگر انسانی معاشرے میں اس عنصر کا فقدان ہو تو اس میں ہمیشہ نزاع، دشمنی، نفرت ، تصادم اور تشدد سایہ فگن رہیں گے اور پھر جہاں یہ سب چیزیں ہوں وہاں امن و سکون کا وجود تو ہو ہی نہیں سکتا چنانچہ اللہ تعالٰی بھی ہر ایک کو اس قرآنی حکم پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے
امام سجاد(ع) کی زندگی میں عفو اور بخشش کے بے پناہ نمونے ملتے ہیں چنانچہ ایک جگہ یہ روایت ملتی ہے کہ ایک کنیز امام(ع) کے لئے پانی لیکر آئی اور لوٹا اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا جس سے امام(ع) کا سر اقدس زخمی ہوگیا کنیز بڑی شرمندہ ہوئی اور اس خوف میں کہ کہیں امام(ع) اسے کچھ نہ کہیں اس آیت کی تلاوت کرنی لگی:’’وَالْکَاظِمِینَ الْغَیْظَ‘‘، امام (ع) نے فرمایا: میں نے اپنے غصہ کو پی لیا۔’’وَالْعَافِینَ عَنِ النَّاسِ‘‘ فرمایا : میں نے تجھے معاف کردیا ۔ کنیز نے کہا:’’وَاللّهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ‘‘ ۔ فرمایا میں نے تجھے آزاد کردیا ۔
۴۔ امام سجاد(ع) کا صبر و بردباری
اسلامی طرز حیات میں، صبر ایک کلیدی اور اہم اخلاقی صفت ہوتی ہے۔مذہبی اور اخلاقی دنیا میں صبر سب سے اہم عنصر ہے کہ جسے ہر ایک انسان کی زندگی میں ہونا چاہیئے چونکہ یہ تمام اچھائیوں اور خوبیوں کی جڑ اور بنیاد ہے چنانچہ ارشاد ہوتا :
إِنَّما یُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسابٍ
بے شک صبر کرنے والے اپنے اجر اور جزا کو بے حساب اللہ کی طرف سے حاصل کریں گے۔
ابو حمزہ ثمالی خود امام سجاد(ع) سے روایت کرتے ہیں:’’ قیامت کے دن ایک منادی ندا دے گا کہ صبر کرنے والے اٹھیں ۔ چنانچہ کچھ لوگ اٹھ کر جنت کی طرف چل پڑیں گے دروازے پر ملائکہ سوال کریں گے کہ ابھی تو میزان نصب نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی کا حساب لیا گیا تو تم لوگ کون ہو؟ جواب دیں گے کہ ہم نے دنیا میں بہت صبر کیا تھا لہذا ہم بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جا رہے ہیں۔ملائکہ سوال کریں گے کہ تم لوگوں نے کس چیز پر صبر کیا تھا جو تمہیں یہ اجر دیا گیا؟ جواب دیں گے: ہم نے اللہ کی اطاعت پر صبر کیا اور اس کی معصیت سے اپنے کو روکا ۔ فرشتے کہیں گے کہ جاؤ تم بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوجاؤ چونکہ تم اسی اجر کے مستحق تھے