استغفار کی اہمیت و فضیلت: آیات و روایات کی روشنی میں

: شیخ سردار حسین 2025-09-28 12:36

استغفار، یعنی اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی طلب کرنا، انسانی روح کی پاکیزگی اور دل کی سکونت کے لیے ایک لازمی عمل ہے

یہ انسان کو نہ صرف اپنے ماضی کے گناہوں کی صفائی کی طرف مائل کرتا ہے بلکہ مستقبل میں بھلائی اور نیکی کے راستے کی رہنمائی بھی کرتا ہے قرآن و سنت میں استغفار کی بار بار تاکید کی گئی ہے تاکہ ہر انسان یہ سمجھے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا جائز نہیں، اور ہمیشہ امید کی روشنی میں اپنے اعمال کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہہ دو، اے میرے بندو! جو اپنی جانوں پر زیادتی کر چکے ہو، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اللہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے، وہی بخشنے والا، مہربان ہے۔ (الزمر، 53)

یہ آیت انسان کے دل میں یہ حقیقت بٹھاتی ہے کہ اگرچہ ہم اپنی زندگی میں گناہ کرتے ہیں،لیکن  اللہ کی رحمت ہمیشہ کھلی ہوئی ہے۔ استغفار کے ذریعے انسان اپنے گناہوں کی معافی طلب کر کے اپنی روحانی زندگی کو تازگی بخشتا ہے اور اللہ کی جانب رجوع کرتا ہے۔ اس آیت میں مایوسی سے دور رہنے اور اللہ کی رحمت کی تلاش کی طرف واضح رہنمائی موجود ہے۔

اسی طرح قرآن میں ارشاد ہے: اور جو شخص برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے، پھر اللہ سے استغفار کرے، وہ اللہ کو بخشنے والا، مہربان پائے گا (النساء، 110)

یہ بیان واضح کرتا ہے کہ استغفار نہ صرف گناہوں کے کفارہ کا ذریعہ ہے بلکہ یہ انسان کی اصلاح اور اخلاقی بہتری کی طرف بھی رہنمائی کرتا ہے انسان کو یہ باور کراتا ہے کہ اگر وہ اپنے گناہوں پر نادم ہو اور توبہ کے ساتھ استغفار کرے تو اللہ اس کی نیت اور عمل دونوں کو قبول فرماتا ہے

اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا اور اپنے رب سے استغفار کرو، پھر اس کی طرف توبہ کرو، بے شک میرا رب بہت رحم کرنے والا، محبت کرنے والا ہے (ہود، 90)

یہ آیت استغفار اور توبہ کے ساتھ دل کی صفائی اور بندگی کی دعوت دیتی ہے۔ یہاں اللہ کی محبت اور رحمت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے تاکہ انسان دل و جان سے گناہوں کو چھوڑ کر بہتر کردار اختیار کرے

استغفار کی اہمیت اور ضرورت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے قرآن میں یہ بھی فرمایا گیا: تو کیا وہ اللہ کی طرف توبہ اور استغفار نہیں کرتے؟ اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔ (المائدہ، 74)

اور اللہ کی رحمت سے مایوسی کے بارے میں واضح فرمایا گیا: اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا مگر گمراہ لوگ (الحجر، 54)

یہ آیت انسان کو مایوسی سے دور رہنے اور اللہ کی رحمت کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ استغفار ایک ایسا دروازہ ہے جو ہمیشہ کھلا رہتا ہے اور جس کے ذریعے انسان اللہ کی قربت اور رحمت حاصل کر سکتا ہے

استغفار کے ذریعے انسان نہ صرف گناہوں کی معافی پاتا ہے بلکہ اس کے دل کو سکون، اطمینان اور روحانی تازگی بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے اثرات مادی زندگی میں بھی نظر آتے ہیں، جیسے رزق میں برکت، عذاب سے نجات اور دیگر نعمتوں کی فراہمی۔ استغفار کے اثرات کی شدت اور دوام کا انحصار انسان کی نیت، دل کی صفائی، اور مسلسل کوشش پر ہے۔ اس عمل کے لیے ضروری ہے کہ انسان دل سے نادم ہو، گناہوں سے باز رہے، اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کرے اور سچے دل سے دعا کے ذریعے اللہ سے معافی طلب کرے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: گناہ  کے فوراً بعد، ایک پل جھپکنے کے برابربھی تاخیر کیے بغیر استغفار کرو، اگر یہ نہ کر سکو تو صدقہ دے کر تلافی کرو، اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو غصے کو ضبط کرو، اگر یہ نہ کر سکو تو لوگوں کو معاف کر دو، اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو ان کے ساتھ احسان کرو،  اگر یہ نہ کر سکو تو کم از کم گناہ پر اصرار چھوڑ دو، اور اگر یہ سب بھی نہ کر سکو تو بس اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو، یقیناً اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہیے

یہ حدیث انسان کو استغفار کے فوری اور مسلسل اثرات کی طرف توجہ دلاتی ہے اور یہ سکھاتی ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوسی اختیار کرنا انسان کی زندگی میں سب سے بڑی نقصان دہ بات ہے۔ استغفار نہ صرف گناہوں کے کفارہ کا ذریعہ ہے بلکہ یہ انسان کی اخلاقی، سماجی اور روحانی اصلاح کا بھی ذریعہ ہے

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا اے محمد بن مسلم! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ جب ایک مؤمن بندہ اپنے گناہ پر نادم ہو، اس سے استغفار کرے اور توبہ کرے، تو اللہ اس کی توبہ قبول نہیں کرتا؟

محمد بن مسلم نے عرض کیا کہ وہ شخص ایسا کئی بار کرتا ہے: گناہ کرتا ہے، پھر توبہ اور استغفار کرتا ہے۔

تو امام علیہ السلام نے فرمایا: جب بھی مؤمن بندہ استغفار اور توبہ کے ساتھ اللہ کی طرف پلٹتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس پر اپنی مغفرت کے ساتھ رجوع فرماتا ہے، اور بے شک اللہ بہت زیادہ بخشنے والا، مہربان ہے اور برائیوں کو معاف کرنے والا ہے۔ پس خبردار! مو من کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرنا

اسی طرح امام علیہ السلام نے فرمایا جب مؤمن بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے (عذاب یا حساب میں لکھنے سے پہلے) سات گھنٹے مؤخر کر دیتا ہے۔ پس اگر وہ اس مدت میں اللہ سے استغفار کر لے تو اس پر کچھ بھی لکھا نہیں جاتا۔ اور اگر سات گھنٹے گزرنے کے باوجود استغفار نہ کرے تو اللہ اس کے لیے وہ گناہ لکھ دیتا ہے۔ اور مؤمن شخص بیس سال بعد بھی اپنے گناہ کو یاد کرتا ہے، تو وہ اللہ سے استغفار کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے۔ لیکن کافر تو اسی لمحے (گناہ کے بعد فوراً) اسے بھول جاتا ہے

یہ روایات واضح کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ مؤمن کی نیت اور استغفار کے عمل کی قدر فرماتا ہے اور بندے کی توبہ و رجوع کو کبھی ضائع نہیں ہونے دیتا۔ مایوسی صرف ان لوگوں کی نصیب بنتی ہے جو اللہ کی رحمت سے کٹے ہوئے ہیں یا اپنے اعمال کی اصلاح میں سنجیدہ نہیں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا مجھے اس شخص پر تعجب ہوتا ہے جو اللہ سے مایوس ہو جاتا ہے، حالانکہ اس کے پاس استغفار کی نعمت موجود ہے

یہ بیان ہمیں یاد دلاتا ہے کہ استغفار، اللہ کی رحمت کی سب سے بڑی کنجی ہے۔ انسان جتنا بھی گناہگار ہو، اگر وہ دل سے نادم ہو اور استغفار کرے تو اللہ کی رحمت اس پر حاضر ہے۔ استغفار انسان کو گناہوں کے بوجھ سے آزاد کرتا ہے اور زندگی میں روحانی سکون، اخلاقی بہتری اور اجتماعی نیکی کی ترغیب فراہم کرتا ہے

ابو جعفر محمد بن علی الباقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا دنیا میں عذابِ اللہ سے دو چیزیں باعث امان تھیں، ایک اٹھالی گئی، اور دوسری اب بھی تمہارے پاس موجود ہے۔ اسے مضبوطی سے تھامے رکھو۔ جو امان اٹھالی گئی وہ رسول اللہ ﷺ کی ذات تھی، اور جو باقی ہے وہ استغفار ہے۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا: 'اور اللہ ایسا نہیں کہ تم ان لوگوں کے درمیان موجود ہو کر انہیں عذاب دے، اور نہ اللہ ان پر عذاب کرے جب تک وہ استغفار کر رہے ہوں

سیّد رضی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یہ بہترین استخراج اور عمدہ نکتہ آفرینی ہے، جو استغفار کی فضیلت اور اس کے روحانی اثرات کی گہری وضاحت کرتا ہے

استغفار کی یہ تمام آیات و روایات انسان کے لیے واضح درس ہیں کہ اللہ کی رحمت، مغفرت اور ہدایت ہمیشہ دستیاب ہے۔ استغفار کے ذریعے انسان اپنی روحانی زندگی کو صاف رکھتا ہے، اپنے اخلاق و اعمال کو بہتر بناتا ہے، دل میں سکون حاصل کرتا ہے اور اللہ کی قربت کا مستحق بنتا ہے۔ لہذا ہر شخص کو چاہیے کہ وہ استغفار کو اپنی روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بنائے اور اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو

استغفار کی یہ تعلیمات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ اللہ کی رحمت لامحدود اور برائیوں کے کفارہ کا بہترین ذریعہ ہے۔ چاہے انسان کے گناہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، اللہ کی طرف رجوع، استغفار اور توبہ کی نعمت ہمیشہ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت میں بار بار تاکید کی گئی ہے کہ انسان استغفار کرے، مایوسی سے بچے اور اللہ کی رحمت اور مغفرت کی طرف دل لگا کر اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھالے

العودة إلى الأعلى