سیرت امام
عبادت اور امام محمد باقر علیہ السلام کی عملی زندگی
تحریر شیخ شہباز حسین
اگر انسان اپنی غرض خلقت کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ معرفتِ الہی کے بعد عبادت الہی سے ہی ممکن ہے اور عبادت الہی کا عملی نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ائمہ معصومین علیہم السلام او سیدہ فاطمۃ زھراء سلام اللہ علیھا کی زندگی میں نظر آتا ہے ۔
اس مختصر مقالے میں امام محمد باقر علیہ السلام کی عبادت کے چند اہم پہلوؤں کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے ۔
امام محمد باقر علیہ السلام اسلام اپنے زمانے میں آئمۃ المتقین تھے ، امام علیہ السلام اپنے رب کی بارگاہ یک سوئی اور اخلاص کی اعلی منزل کے ساتھ اطاعت الہی اور بندگی الہی کو انجام دیتے تھے ، انہیں عبادی پہلوؤں میں چند پہلو یہ ہیں ۔
الف : امام علیہ السلام کا نماز میں خضوع اور خشوع:
عبادت میں خشوع ، انکساری اور تذلل کی اس کیفیت اور حالت کو کہتے ہیں جو بندہ خدا کی دل سے شروع ہو کر اس کے اعضاء اور جوارح پر ظاہر ہوتی ہے اور جس کی وجہ سے آواز کم اور اطراف ساکن ہوجاتے ہیں اور خضوع اور خشوع مشقت اور تھکاوٹ کو لذت میں تبدیل کر دیتا ہے، بلکہ خود معبود سے انس اور عشق کی منزلت تک پہنچا دیتا ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے خشوع کو فلاح اور کامیابی کی ضمانت قرار دیا ہے ( قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ , الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ .وہ ایمان والے یقینا فلاح پا گئے ,جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں ) ۔
مورخین امام محمد باقر علیہ السلام کی نماز کی کیفیت اور حالت کو یوں بیان کرتے ہیں کہ : أنه إذا اقبل على الصلاة اصفرّ لونه (أعیان الشیعۃ ج 4 ص 506 - تاریخ دمشق ج 51 ص 44)
امام محمد باقر علیہ السلام جب بھی نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو خوف خدا اور خشیت الہی کی وجہ سے آپ کا رنگ زرد ہو جاتا تھا .
جس ہستی نے اللہ تعالی کی عظمت اور خلقت حیات کو پہچان لیا ہو یقیناً اس کی عبادت ایسی ہی ہوگی نتیجہ میں عبادت الہی کی وجہ سے آپ علیہ السلام کی عبادت متقین کی عبادت کہلائی۔
ب : کثرت کے ساتھ نماز پڑھنا :
نماز عبد اور معبود کے درمیان ایک مضبوط رابطہ ہے یہ رابطہ جتنا مضبوط ہوگا اتنا ہی انسان اللہ تعالی کے قرب کے نزدیک ہوگا ۔
قرآن مجید میں نمازوں کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ پابندی کے ساتھ نماز کو پڑھتے ہیں ، ارشاد رب العزت ہے کہ :إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا.إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا .وَإِذَا مَسَّهُ الْخَیْرُ مَنُوعًا .إِلَّا الْمُصَلِّینَ .الَّذِینَ هُمْ عَلَی صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ (سورہ المعارج آیات 19-۔-23)
انسان یقینا کم حوصلہ خلق ہوا ہے۔جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے،اور جب اسے آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے،سوائے نمازگزاروں کے،جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں۔
مورخین امام محمد باقر علیہ السلام کی حیات طیبہ کو لکھتے ہوئے یہ بیان کرتے ہیں کہ : كان يصلي في اليوم و الليلة مائة و خمسين ركعة ( تذكرة الحفاظ ج 1 ص 125 - حلية الاولياء ج 3 ص 182)
آپ علیہ السلام دن رات میں ایک سو پچاس رکعت نماز پڑھتے تھے۔
اور امام علیہ السلام کا کثرت سے نماز پڑھنا امت کی رہنمائی اور علمی کاموں میں رکاوٹ کا سبب نہیں بنتی تھی اور آپ علیہ السلام کے نزدیک سب سے عزیز نماز ہی تھی اس لیے کہ نماز سے بڑھ کر اللہ اور ان کے درمیان مضبوط رابطہ نہیں تھا ۔
ج: سجدے کی حالت میں دعا کرنا :
جتنا مومن سجدے کی حالت میں اللہ تعالی کے نزدیک ہوتا ہے اتنا کسی اور حالت میں نہیں ہوتا یہی سبب ہے امام علیہ السلام سجدہ کی حالت میں انتہائی عاجزی کے ساتھ اور قلب کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوا کرتے تھے امام علیہ السلام سے سجدے میں پڑھنے والی دعائیں نقل ہوئی ہیں ہیں ہم نمونے کے طور پر ایک روایت ذکر کرتے ہیں : عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ قَالَ لِی أَبُو عَبْدِ اللَّهِ (علیه السلام) إِنِّی کُنْتُ أَمْهَدُ لِأَبِی فِرَاشَهُ فَأَنْتَظِرُهُ حَتَّی یَأْتِیَ فَإِذَا أَوَی إِلَی فِرَاشِهِ وَ نَامَ قُمْتُ إِلَی فِرَاشِی وَ إِنَّهُ أَبْطَأَ عَلَیَّ ذَاتَ لَیْلَةٍ فَأَتَیْتُ الْمَسْجِدَ فِی طَلَبِهِ وَ ذَلِکَ بَعْدَ مَا هَدَأَ النَّاسُ فَإِذَا هُوَ فِی الْمَسْجِدِ سَاجِدٌ وَ لَیْسَ فِی الْمَسْجِدِ غَیْرُهُ فَسَمِعْتُ حَنِینَهُ وَ هُوَ یَقُولُ- سُبْحَانَکَ اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّی حَقّاً حَقّاً سَجَدْتُ لَکَ یَا رَبِّ تَعَبُّداً وَ رِقّاً اللَّهُمَّ إِنَّ عَمَلِی ضَعِیفٌ فَضَاعِفْهُ لِی اللَّهُمَّ قِنِی عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ وَ تُبْ عَلَیَ إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ (فروع الكافي ج3 ص 323)
اسحاق بن عمار نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں جب میں اپنے بابا کے لیے بستر لگا تھا انتظار کرتا تھا کہ وہاں جائیں آپ کے بستر پر آ کر سو جاتے میں بھی اپنے بستر پر آ کر سو جاتا ایک دن آنے میں تاخیر ہوئی میں آپ علیہ السلام کو تلاش کرتا ہوا مسجد میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ علیہ السلام سجدے کی حالت میں ان الفاظ کے ساتھ پروردگار الہی کو یاد کرنے میں مشغول تھے : سُبْحَانَکَ اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّی حَقّاً حَقّاً سَجَدْتُ لَکَ یَا رَبِّ تَعَبُّداً وَ رِقّاً اللَّهُمَّ إِنَّ عَمَلِی ضَعِیفٌ فَضَاعِفْهُ لِی اللَّهُمَّ قِنِی عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ وَ تُبْ عَلَیَ إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ
خداوندا تو پاک و پاکیزہ ہے اے میرے رب تو ہی حقیقت درحقیقت میرا رب ہے اے پالنے والے میں تیرا سجدہ بندگی کی بنا پر کرتا ہوں اے میرے رب بے شک میرا عمل کمزور ہے ہے تو اس پر اپنے لطف و کرم سے اضافہ کر دے اے میرے پروردگار قیامت کے دن مجھے اپنے عذاب سے محفوظ رکھ اور میری توبہ قبول فرما کہ تو بہترین توبہ قبول کرنے والا ہے ۔
د: امام علیہ السلام کا حج :
امام محمد باقر علیہ السلام جب بھی بیت اللہ کے حج کے لئے جایا کرتے تو ماسوائے خدا ہر چیز کو چھوڑ کر خدا کی طرف ہوتے اور اسی کے حضور توبہ اور استغفار مصروف میں ہوتے تھے اس طرح کہ آپ علیہ السلام پر خضؤع اور خشوع اوار اطاعتِ پروردگار کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے امام علیہ السلام کے غلام افلح کا کہنا ہے کہ میں امام علیہ السلام کے ساتھ حج کے لیے گیا اور جب امام علیہ السلام نے مسجد الحرام میں قدم رکھا تو آپ علیہ السلام نے گریہ کرنا شروع کر دیا ،میں نے جب اپنے مولا کی یہ حالت دیکھی تو عرض کیا مولا میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں، لوگ اس انتظار میں ہیں کہ کب آپ کے رونے کی آواز کم ہو۔
امام توجہ نہیں دی بلکہ آرام سے اس سے فرمایا : وَيْحَكَ يَا أَفْلَحُ وَ لِمَ لَا أَبْكِي لَعَلَّ اللَّهَ تَعَالَى أَنْ يَنْظُرَ إِلَيَّ مِنْهُ بِرَحْمَةٍ فَأَفُوزَ بِهَا عِنْدَهُ غَدا
اے افلح ! وائے ہو تجھ پہ میں بلند آواز میں اسے لیے گریہ کر رہا ہوں کہ شاید اللہ تعالیٰ کی اس رونے کے سبب مجھ پر اپنی نظر رحمت کرے تاکہ کل روز قیامت میں کامیاب ہو جاؤں ۔
پھر آپ نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور مقام کے پیچھے رکوع کیا اور جب رکوع سے سجدے کی حالت میں پہنچے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔(كشف الغمة في معرفة الأئمة (ط - القديمة)، ج2، ص: 117)
حاجی اپنے اپنے بال منڈوا رہے تھے لوگوں کا ہجوم تھا کہ جس نے اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا لوگ اپنے مناسک حج کے متعلق سوال کر رہے تھے اور امام علیہ السلام ہر شخص کا جواب دے رہے تھے لوگ آپ علیہ السلام کے وسعت علم سے بہرہ مند ہو رہے تھے لیکن حق سے دور افراد نے سوال کیا کہ یہ کون ہیں کہ جن لوگوں نے اپنے دائرے میں لیا ہوا ہے اور یہ علمی جواب دے رہا ہے اتنے میں آپ کے چاہنے والوں میں سے ایک نے آگے بڑہ کر یوں اپنے مولا علیہ السلام کا تعارف کروایا :
أَلَا إِنَّ هَذَا بَاقِرُ عِلْمِ الرُّسُلِ وَ هَذَا مُبَيِّنُ السُّبُلِ وَ هَذَا خَيْرُ مَنْ رَسَخَ فِي أَصْلَابِ أَصْحَابِ السَّفِينَةِ هَذَا ابْنُ فَاطِمَةَ الْغَرَّاءِ الْعَذْرَاءِ الزَّهْرَاءِ هَذَا بَقِيَّةُ اللَّهِ فِي أَرْضِهِ هَذَا نَامُوسُ الدَّهْرِ هَذَا ابْنُ مُحَمَّدٍ وَ خَدِيجَةَ وَ عَلِيٍّ وَ فَاطِمَةَ هَذَا مَنَارُ الدِّينِ الْقَائِم
جان لو کہ یہ علوم انبیاء کو کھولنے والے حق کے راستوں کی نشاندہی کرنے والے ، اصحاب سفینہ کے پاک صلبوں میں بہترین فرزندِ فاطمہ زہراءسلام اللہ علیھا ہیں ، یہ ناموسِ دہر ، فرزند محمد ﷺ اور خدیجہ ہیں اور دین کے ستون ہیں ۔ (مناقب آل أبي طالب عليهم السلام (لابن شهرآشوب)، ج4، ص: 182)
اس کے علاوہ اور بہت سارے امام علیہ السلام کے عبادی پہلو ہیں جیسے آپ علیہ السلام کا ذکر الہی کرنا اور دنیا سےزہد اختیار کرنا اور مناجات الہی وغیرہ ۔
اگر کوئی انسان کمال کی اعلیٰ منزل کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ چہاردہ معصومین علیھم السلام کی عملی زندگی کو پڑھ کر اسے نمونہ عمل بنائے ۔
اور اسی طرح جوشخص چاہتا ہے کہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو اور عبادت کی اعلی منزل کو حاصل کرنے کی کوشش کرے تو اس کے لیے لازمی ہے کہ وہ امام علیہ السلام کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرے اور اس پر عمل کرے ۔
اللھم صل علی محمد و آل محمد و عجل فرجھم