اربعین حسینی تاریخ کے آئینہ میں
اربعین امام حسین علیہ السلام کے جلوس کا آغاز سنہ 61 ہجری واقعہ کربلا کی تاریخ سے متعلق ہے۔ علماء اور مورخین کے مطابق 20 صفر 61 ہجری کو شہادت امام حسین علیہ السلام کا 40 واں دن ہے۔جب اسیران کربلا يزيد لعین کی قیدسےرہائی پانےکےبعدشام سے واپس اسی دن کربلا پہنچے۔اور امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کو ان کے جسم مطہر کے ساتھ دفن کیا گیا
لہٰذا بہت سے شیعہ اور سنی مورخین کے نقطۂ نظر سے اربعین امام حسین علیہ السلام (61ہجری) کربلا میں اہل بیت ؑ کی آمد اورامام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کو ان کے جسم اطہر کے ساتھ دفن کرنے کا دن ہے۔اور صحابی رسول جابر بن عبداللہ انصاری، کربلا کے پہلے زائر ہیں جوامام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبرسن کر مدینہ سےروانہ ہوئےاور أربعين کےروز کربلا میں واردہوئے
اربعین امام حسینؑ کا دن عالم اسلام میں عشق، عقیدت، مزاحمت اور وحدت کا ایسا مظہر بن چکا ہے، جس کی نظیر نہ ماضی میں ہے نہ حال میں۔ یہ دن محض شہادت کی یاد کا موقع نہیں بلکہ انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا موقع ہے، جہاں کروڑوں زائرین امام مظلومؑ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کربلا کی جانب پیدل روانہ ہوتے ہیں۔ ہر سال صفر کی بیس تاریخ کو کربلا میں دنیا کے سب سے بڑے غیر سرکاری اجتماع کا منظر دیکھنے کو ملتا ہے، جس میں لوگ نہ صرف امام حسینؑ کی عظیم قربانی کی تجدید کرتے ہیں بلکہ اپنی روحوں کو ظلم کے خلاف استقامت سے بھی مزین کرتے ہیں ،
آیت اللہ العظمٰی سید موسیٰ شبیری زنجانی (دام ظلّہ) اربعین حسینی کے حوالے سے اپنے تاثرات کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: اربعین امام حسین (علیہ السلام) کے لیے کربلا کی طرف یہ عظیم الشان مشی، شریعتِ مقدسہ اور معصومین (علیہم السلام) کی سیرت کی تبلیغ کا مؤثر وسیلہ ہے۔
دشمنانِ دین، ظالم حکمران اور تکفیری گروہ اس زیارت کی طاقت و اثر سے خائف و لرزاں ہیں، کیونکہ یہ عظیم الشان مشی، مکتبِ تشیّع کی عظمت کی علامت بن چکی ہے۔ میری دلی آرزو ہے کہ اگر میری جسمانی قوت اجازت دیتی، تو میں بھی اس بابرکت مشی میں شریک ہوتا۔ آج یہ اربعین کی مشی نہ صرف اسلامی شعائر کا حصہ بن چکی ہے، بلکہ مذہبِ اہل بیت علیہم السلام کے فروغ کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ہے، اور اسی حیثیت سے یہ "شعائر اللہ" کی تعظیم سے متعلق وارد روایات کا ایک روشن مصداق شمار ہوتی ہے
آیت اللہ العظمٰی سید علی حسینی سیستانی (دام ظلّہ) اس زیارت کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:اس زیارت کے ثمرات میں سے ،امام حسینؑ کی راہ میں دی جانے والی قربانیوں کی یاد کے ساتھ ، اللہ کی راہ میں ان کے ساتھ وفاداری، اور دینِ مبین کی تعلیمات کا پاس و لحاظ رکھنا ہے: جیسے نماز، حجاب، اور دیگر واجبات ،جو شخص بھی اس عظیم اجتماع میں شریک ہوتا ہے، اُسے چاہیے کہ وہ ان دینی اقدار کو اپنی زندگی میں اپنائے اور دوسروں کو بھی اس کی طرف دعوت دے
ائمہ اہل بیتؑ نے زیارتِ اربعین کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اسے مؤمن کی پہچان قرار دیا ہے۔جیسا کہ امام حسن عسکریؑ سے منقول ہے کہ مؤمن کی پانچ علامات میں سے ایک زیارتِ اربعین ہے
امام جعفر صادقؑ سے منقول مخصوص زیارتِ اربعین آج بھی عزاداری کے بنیادی اعمال میں شامل ہے، جس کے الفاظ، حسینی مشن کی وضاحت کرتے ہیں:
ترجمہ :یعنی حسینؑ نے اپنی جان اس لیے قربان کی تاکہ تیرے بندوں کو جہالت سے نجات دے سکیں۔
زیارتِ اربعین کا پیدل سفر اگرچہ صدیوں پرانا ہے، مگر محدث نوریؒ جیسے علما نے اس راستے کو نئی زندگی بخشی۔ انیسویں صدی میں وہ نجف سے کربلا پیدل جاتے، ساتھ خیمے، شاگرد اور ضروری سامان ہوتا، ان کے بعد اس روایت نے اجتماعی رنگ اختیار کیا، اور یہ راستہ اب لاکھوں قافلوں کی گزرگاہ ہے ، ہر سال زائرین کا سیلاب اس راہ سے گزرتا ہے، اور راستے میں ہزاروں مواکب ان کی خدمت کے لیے موجود ہوتے ہیں، جو بغیر کسی اجرت کے کھانے، پانی، دوا، آرام گاہ، اور ہر ممکن سہولت فراہم کرتے ہیں۔
اگرچہ اربعین کی یہ تحریک آج زندہ و تابندہ ہے، مگر تاریخ کے بعض ادوار میں اس پر سنگین پابندیاں بھی لگائی گئیں۔جیسا کہ بنو امیہ و بنو عباس کے دور میں بھی سخت پابندیاں لگائی گئیں لیکن اس کے باوجود زیارت مظلوم کربلا کو عاشقان و شیعيان امام حسین علیہ السّلام نے جاری و ساری رکھا ۔ ماضی قریب خاص طور پر صدام حسین کے دورِ حکومت میں زیارتِ اربعین پر سخت ترین قدغنیں لگائی گئیں' زائرین کو راستے میں گرفتار کیا جاتا، ان پر گولیاں برسائی جاتیں، حتیٰ کہ بعض کو راستے ہی میں قتل کر کے دفن کر دیا گیا۔ لیکن عشقِ حسینؑ کے متوالے ان رکاوٹوں سے نہ ڈرے اور خفیہ طریقوں سے زیارت کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1977ء کا انتفاضہ صفر درحقیقت بعثی حکومت کے خلاف عوامی بغاوت کی چنگاری تھی، جب نجف سے کربلا جانے والے قافلے پر حملہ ہوا، سینکڑوں شہید و گرفتار ہوئے، مگر حسینی پیغام دب نہ سکا
2003ء میں صدام حکومت کے سقوط کے بعد اس زیارت کو نئی توانائی ملی۔ پہلے لاکھوں، پھر کروڑوں زائرین پیدل کربلا جانے لگے۔ 2023ء میں زائرین کی تعداد اکیس ملین سے تجاوز کر گئی۔ ان میں نہ صرف عراق بلکہ ایران، پاکستان، بھارت، لبنان، شام، بحرین، یورپ، امریکا اور افریقہ کے عشاقِ حسینؑ بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ اجتماع مذہبی و ثقافتی وحدت، سماجی خدمت، اور انسانی ہمدردی کا عالمی مظاہرہ بن چکا ہے۔
نجف سے کربلا کا تقریباً 80 کلومیٹر فاصلہ 1452 ستونوں (کھمبوں) پر منقسم ہے۔ ہر ستون کے ساتھ کئی مواکب نصب ہوئے ہیں، جہاں زائرین کو کھانے، آرام، دوا، حتیٰ کہ کپڑے دھونے، اور موبائل چارج کرنے کی سہولت دی جاتی ہے۔ یہ خدمات بغیر کسی حکومتی ادارے کی مدد کے، عوام اپنے جذبۂ اخلاص سے انجام دیتے ہیں۔ بعض مقامات پر زائرین کے پاؤں دھوئے جاتے ہیں، تو کہیں ان کے کندھوں کا مساج کیا جاتا ہے۔ کچھ جگہوں پر علما دینی مسائل بیان کرتے ہیں، تو کچھ مواکب میں عزاداری کے جلسے، مرثیہ خوانی، نوحے اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں۔
زائرین کا یہ سفر صرف جسمانی نہیں بلکہ روحانی بھی ہوتا ہے۔ راستے میں وہ نہ صرف امام حسینؑ کو یاد کرتے ہیں بلکہ اپنی زندگی کا محاسبہ بھی کرتے ہیں۔ ہر قدم کے ساتھ یہ احساس تازہ ہوتا ہے کہ وہ نواسۂ رسولؐ کے مشن کو زندہ رکھنے جا رہے ہیں۔ اس سفر میں نہ زبان کی قید ہے، نہ رنگ، نہ نسل، اور نہ قومیت۔ سب صرف "لبیک یا حسینؑ" کی صدا میں یکجا ہوتے ہیں۔
مشہور فقیہ و مفسر آیت اللہ جوادی آملی نے اربعین کی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے: اربعین صرف ایک یادگار نہیں، بلکہ یہ کربلا کے پیغام کی عالمی توسیع ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب امت حسینؑ کی قربانی سے سبق لیتی ہے اور ظالموں کے خلاف قیام کی تیاری کرتی ہے
وہ مزید کہتے ہیں کہ: اربعین میں قدم قدم پر عشق ہے، اشک ہے، اور بیداری ہے۔ یہ ملتوں کے دلوں کو جھنجھوڑ دینے والا مظہر ہے
کربلا میں 20 صفر کو جلوس نکالا جاتا ہے جو عزاداری کا نقطۂ عروج ہوتا ہے۔ اس میں نوحہ، ماتم، زنجیر زنی، اور امام حسینؑ کے روضہ پر حاضری شامل ہے۔ یہ جلوس نہ صرف ایک دینی فریضہ ہے بلکہ دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ حسینؑ آج بھی زندہ ہیں، اور ان کا پیغام ہر دور میں تازہ ہے
اربعین کا سفر دراصل انسانیت کی بقا کا پیغام ہے۔ یہ ظلم و جبر کے خلاف ایک اعلان ہے کہ باطل چاہے جتنا طاقتور ہو، وہ حق کو ختم نہیں کر سکتا۔ آج جب دنیا مختلف بحرانوں سے گزر رہی ہے، اربعین ایک امید ہے، ایک روشنی ہے، اور ایک بیداری ہے، جو ہر سال کربلا میں نئی توانائی کے ساتھ طلوع ہوتی ہے۔ حسینؑ کا کارواں 61 ہجری سے چل رہا ہے، اور یہ قافلہ تا قیامت یزیدیت کے خلاف اعلانِ جہاد کرتا رہے گا