غلو کے مقابلے کے لیے امام جعفر صادق علیہ السّلام کی حکمت عملی (2)

2024-05-09 06:04

         تحریر: ڈاکٹر سید وقار حیدر نقوی

  گزشتہ تحریر میں غلو کے مقابلے کے لیے امام جعفر صادق علیہ السّلام کی حکمت عملی کے اہم تین نکات ذکر کیے جا چکے ہیں اور کچھ کا ذکر اس تحریر میں کیا جا رہا ہے۔

(4)غالیوں کے عقائد اور ان کی طرف سے بیان کردہ روایات کا قرآن مجید اور احادیث معتبرہ کے ساتھ موازنہ کرنا۔ 

  جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ غالیوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ فاسد عقائد ونظریات کو شیعہ کتب میں شامل کرنے کی کوشش کی اور ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے ۔امام جعفر صادق علیہ السّلام نے اس مشکل کے حل کے لیے نہایت شاندار فارمولا پیش فرمایا کہ جس پر عمل کر کے ہر خاص و عام بہت آسانی سے یہ معلوم کر سکتا ہے کہ یہ عقیدہ یا نظریہ شیعہ مکتب فکر کا ہے یا غالیوں نے اس کو اس مقدس مکتب فکر کا حصہ بنانے کی ناکام کوشش کی ہے ۔

  یہ فارمولا امام جعفر صادق علیہ السّلام سے منقول الفاظ کی شکل میں ملاحظہ فرمائیے ارشاد ہوتا ہے کہ :(ما تقبلوا علينا حديثاً الا ما وافق القرآن والسنة او تجدون معه شاهدا من احاديثنا المتقدمة فإن المغيرة ابن سعيد لعنة الله عليه دس في كتب ابي أحاديث لم يحدث به‍ا أبي فاتقوا الله ولا تقبلوا علينا ما خالف قول ربنا و سنة نبينا فإنا إذا حدثنا قلنا قال الله عز وجل و قال رسول الله)مناقب امیر المومنین،محمد بن سلمان الکوفی،ص:224

ترجمہ: ہماری طرف سے صرف اس حدیث کو قبول کرو جو قرآن وسنت کے موافق ہو یا ہماری گزشتہ احادیث میں سے تمہارے پاس اس کا کوئی شاہد موجود ہو ۔مغیرہ بن سعید(خدا اس پر لعنت کرے )نے میرے والد گرامی کی کتابوں میں ایسی احادیث شامل کر دی ہیں جو ہرگز میرے والد گرامی نے بیان نہیں فرمائی ہیں اللہ تعالیٰ کا خوف کرو اور ہم سے منسوب کی جانے والی ان باتوں کو قبول نہ کرو۔ کیونکہ ہم جب کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا پے(یعنی ہم اپنی طرف سے کوئی نیا دین پیش نہیں کرتے)

(5)غالی گروہ کے ساتھ انتہائی سخت رویہ اختیار کرنا۔ 

  اگر کسی کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ یہ شخص واقعاً غالی ہے تو اس کے ساتھ سخت سے سخت رویہ اپنانا چاہیے البتہ کسی شخص کو غالی ثابت کرنے کے لیے ان تمام معیارات کا لحاظ رکھنا بے حد ضروری ہے کہ جن کی وجہ سے کوئی شخص شرعی طور پر غالی قرار پاتا ہے ۔امام جعفر صادق علیہ السّلام غالیوں کے ساتھ کتنا سخت رویہ اختیار فرماتے تھے؟ اس روایت میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔"سہمی"نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ عیسیٰ الحجرانی نے کہاکہ میں جعفر بن محمد الصادق(ع)کی خدمت میں حاضر ہوا اور اور آپ(ع) سے پوچھا جو کچھ میں نے ان(غالی) لوگوں سے سنا ہے کیا وہ آپ کو سناؤں ؟فرمایا بولو!میں نے کہا:(فإن طائفة منهم عبدوك واتخذوك إله‍ا من دون الله و طائفة أخرى والوالك النبوة و...) ترجمہ :ان کا ایک گروہ آپ کی عبادت کرتا ہے اور خدا کی بجائے آپ کو معبود مانتا ہے اور دوسرا گروہ آپ کو نبوت تک پہنچا دیتا ہے۔یہ سن امام علیہ السّلام نے اس قدر گریہ فرمایا کہ آپ کی ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو گںٔی۔(یہ کتنا بڑا جرم تھا جس نے امام علیہ السلام کے قلب نازنین کو اس قدر رنجیدہ کر دیا تھا)اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا کہ (إن املكني الله من ه‍ؤلاء فلم أسفك دماںٔهم سفك الله دم ولدي على يدي) تاریخ جرجان،ص:222,223

ترجمہ: اگر خداوند کریم مجھے ان پر قدرت عطا فرمائے اور میں ان کا خون نہ بہاؤں تو اللہ تعالیٰ میرے ہاتھوں پر میرے بیٹے کا خون بہائے ۔

  امام جعفر صادق علیہ السّلام غالیوں کے خلاف اتنے شدید طرز عمل کو اختیار فرما رہے تھے کہ آپ ع کے نزدیک ان کی سزا قتل کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھی۔آج کے دور میں اگرچہ خود سے غالیوں کو قتل کرنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ امام معصوم ع یا ان کے نائب کی اجازت موجود ہو۔بہر طور اس حدیث کو ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ غلو امام جعفر صادق علیہ السّلام کی نظر میں کتنا بڑا جرم ہےاور آپ ع کا اس کے خلاف ردعمل کیا تھا۔آج کے دور کا شیعہ قتل کے علاوہ دیگر ممکنہ اقدامات کو اختیار اورکر سکتا ہے مثلاً قانونی کاروائی وغیرہ ۔

(6)غالیانہ عقائد و افکار اور غالی افراد کی مذمت کرنا۔ 

  کچھ غالی آںٔمہ علیہم السلام کونبی گردانتے تھے اور کچھ خدا۔امام جعفر صادق علیہ السّلام ایسے افراد پر لعنت بھیج کر ان کے عقائد وافکار کی مذمت فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا:(من قال فينا إنا انبياء فعليه لعنة الله و من شك في ذالك فعليه لعنة الله)رجال کشی،ص:300

ترجمہ:جو شخص ہمارے بارے میں قاںٔل ہو کہ ہم انبیاء ہیں تو اس پر اللہ کی لعنت ہو اور جو اس میں شک کرے اس پر بھی اللہ کی لعنت ہو۔

اور جو لوگ آںٔمہ علیہم السلام کو خدا قرار دیتے تھے ان کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام لعنت کے ذریعے کچھ یوں مذمت فرما رہے ہیں:(لعن الله من قال فينا ما لا نقول في أنفسنا و لعن الله من ازالنا عن العبودية لله الذي خلقنا وإليه مآبنا و بيده نواصينا)رجال الکشی ص302

ترجمہ: خدا اس شخص پر لعنت کرے جو ہمارے بارے میں اس بات کا قائل ہےکہ جس کے ہم خود اپنے بارے میں قاںٔل نہیں ہیں اور خدا اس پر بھی لعنت کرے جو ہمیں اس خدا کی عبودیت سے جدا کرتا ہے جس نے ہمیں پیدا فرمایا اورجس کی طرف پلٹنا ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اسی کے ہاتھ میں ہماری تقدیر ہے۔

اگر کوئی شخص کچھ بھی نہیں کر سکتا تو امام جعفر صادق علیہ السّلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے غالیوں پر لعنت کے ذریعے مذمت تو کر سکتا ہے۔(جاری ہے)

العودة إلى الأعلى