عزاداری امام حسین علیہ السلام بدعت یا سنت ؟! ایک علمی و اجمالی جائزہ

: شیخ سردار حسین 2025-07-04 06:58

تاریخِ اسلام میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک ایسا ہمہ گیر انقلاب ہے جس نے انسانی ضمیر کو ہمیشہ جھنجھوڑا ہے

امام حسین علیہ السلام کی یاد میں برپا ہونے والی مجالس، گریہ، ماتم اور عزاداری صدیوں سے جاری ہیں، مگر بعض مخصوص گروہ اس عمل کو "بدعت" قرار دے کر عوام الناس کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اس انداز کی عزاداری نہیں ہوئی، اس لیے یہ دین میں نئی چیز اور بدعت ہے۔ لیکن کیا واقعاً ہر نیا عمل بدعت ہے؟

اس سوال کا جواب ہمیں قرآن، سنت، سیرتِ انبیاء و ائمہ اور عقلِ سلیم کی روشنی میں تلاش کرنا ہوگا۔

"بدعت" کا لغوی مطلب ہے کسی چیز کو بغیر سابقہ مثال کے پہلی بار ایجاد کرنا۔

شریعت کی اصطلاح میں بدعت سے مراد وہ نیا عمل ہے جو دین میں بغیر کسی شرعی دلیل کے داخل کیا گیا ہو۔ اگر کسی عمل کی جڑیں قرآن، سنت یا عقل میں موجود ہوں تو وہ بدعت نہیں کہلاتا، بلکہ سنت حسنہ (اچھی سنت) ہوتی ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا اگر تاریخی و دینی جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی پیش گوئی کی، ان پر گریہ فرمایا، اور صحابہ کرام کو بھی آپ علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت سے باخبر کیا۔ صحیح مسلم، مسند احمد، سنن ترمذی، اور مستدرک حاکم جیسی کتب میں موجود روایات اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا:

"انّ جبرئیل اخبرني أنّ امتي ستقتل ابني هذا" ترجمہ :جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میرے اس بیٹے کو شہید کرے گی۔

اسی طرح اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کو دیکھا جائے تو امام زین العابدین علیہ السلام سے لے کر امام رضا علیہ السلام تک سب نے امام حسین علیہ السلام پر مسلسل گریہ فرمایا اور اہل ایمان کو ان کے مصائب یاد کرنے اور یاد دلانے کی ترغیب دی۔جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے:

البكاؤون خمسة: آدم، یعقوب، یوسف، فاطمہ، زین العابدین، اور تم جو اپنے جد حسین علیہ السلام پر روتے ہو، تم پانچویں گروہ میں ہو"۔ یہ سب باتیں واضح کرتی ہیں کہ گریہ و ماتم اہل بیت علیہم السلام کی سنت ہے، جس کا سلسلہ معصومین علیھم السلام کے زمانے سے جاری و ساری ہے۔

قرآن کریم میں بھی رونے اور گریہ کو نفاق یا بے ایمانی نہیں کہا گیا ، بلکہ اسے خشوع، خضوع اور تقویٰ کی علامت قرار دیتا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے یوسف سے فراق پر مسلسل رونے اور ان کی آنکھوں کا سفید ہو جانا قرآن کی واضح آیت ہے۔ حضرت مریم علیہا السلام کے بیٹے حضرت عیسی علیہ السلام کے اصحاب کے بارے میں فرمایا گیا کہ جب آیاتِ الٰہی سنتے ہیں تو ان کی آنکھیں آنسو بہاتی ہیں۔ اگر رونا ممنوع یا دین سے باہر ہوتا تو انبیاء کی سیرت میں اس کا ذکر نہ ہوتا۔

اہل سنت کے اکابر علماء نے بھی بدعت کے شرعی مفہوم کو وضاحت سے بیان کیا ہے۔ ابن حجر عسقلانی، امام راغب اصفہانی اور دیگر علمائے کرام کے مطابق بدعت وہی ہے جس کا دین میں کوئی اصل نہ ہو۔ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو جب قرآن و سنت اور سیرت معصومین علیھم السلام میں دیکھتے ہیں تو یہ ہرگز بدعت نہیں، بلکہ سنتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تسلسل اور اسوۂ حسین علیہ السلام کی تعظیم ہے۔ اگر ہر نیا عمل بدعت قرار پاتا تو آج کی ہر نئی چیز جیسے قرآن کی طباعت، دینی مدارس، مائیک پر اذان، یا رمضان کے ٹی وی پروگرامز سب بدعت کے زمرے میں آتے، جو کہ عقلاً و شرعاً درست نہیں۔

جو لوگ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو بدعت کہتے ہیں، وہ دراصل بدعت کے معنی و مفہوم سے ناآشنا ہیں یا بلکہ جاھل ہیں بلکہ وہ لوگ ایک ایسی سنت حسنہ کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔

کربلا صرف ایک تاریخ و واقعہ نہیں، بلکہ ایک دائمی معیار ہے حق و باطل کی شناخت کا۔ امام حسین علیہ السلام کا غم منانا دراصل انسانی اقدار، مظلوموں کی حمایت، اور ظالموں کے خلاف بیداری کا پیغام ہے۔ یہ وہ پیغام ہے جو ہر زمانے کے یزید کے خلاف چراغِ ہدایت بن کر روشن ہوتا ہے۔

لہٰذا، امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو بدعت کہنا نہ صرف شرعی مفہومِ بدعت سے لاعلمی ہے بلکہ یہ امت کی فطری، روحانی اور ایمانی روایت پر حملہ ہے۔ اگر آنکھ کا نم ہونا گناہ ہوتا، تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں امام حسین علیہ السلام پر کبھی نہ نم ہوتیں۔ اگر غم حسین علیہ السلام منانا فتنہ ہوتا، تو حضرت امام علی علیہ السلام ، حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور امام سجاد علیہ السلام اسے امت تک منتقل نہ کرتے۔پس عزاداری ایک شعور ہے، ایک بیداری ہے، ایک تعظیم ہے اور یہ قیامت تک باقی رہے گی، کیونکہ اس کی بنیاد مظلومیت پر ہے، اور مظلوم کی حمایت کبھی ختم نہیں ہو سکتی

العودة إلى الأعلى