دنیا کا وہ براعظم جو لاکھوں سال پہلے کھوگیا تھا جس کو تلاش کرنے میں ایک زمانہ لگ گیا

2024-04-25 04:57:36

سائنسدانوں کو دنیا کا آٹھواں براعظم دریافت کرنے میں 375 سال لگے، جو سب کی نظروں کے سامنے ہونے کے باوجود بھی نظروں سے اوجھل رہا۔ یہ ایک ایسا معمہ ہے جس کا جواب مشکل ہے

سائنسدانوں نے تحقیق کے ذریعہ انکشاف کیا ہے کہ زی لینڈیا سمندر میں سما گیا ہے جس کی وجہ سے اس کے بارے میں پتہ نہیں تھا۔ اب سائنسدانوں نے باضابطہ اس کا نقشہ تیار کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور آٹھویں بر اعظم کے تعلق سے کئی اہم باتیں بھی سامنے رکھی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پیش کردہ نقشہ کے مطابق زی لینڈیا براعظم 50 لاکھ اسکوائر کلو میٹر میں پھیلا ہے

سنہ 2017 میں ماہرین ارضیات کا ایک گروپ اُس وقت شہ سرخیوں کی زینت بنا جب انھوں نے زی لینڈیا کی دریافت کا اعلان کیا۔ 1.89 ملین مربع میل (4.9 ملین مربع کلومیٹر) کا ایک وسیع براعظم جو مڈغاسکر سے چھ گنا بڑا ہے

اگرچہ دنیا کے انسائیکلوپیڈیا، نقشوں اور سرچ انجن کچھ وقت کے لیے اس بات پر قائل تھے کہ دنیا میں صرف سات براعظم ہیں مگر اس ٹیم نے پورے اعتماد کے ساتھ دنیا کو آگاہ کیا کہ یہ غلط ہے۔ اُن کے مطابق دنیا میں آٹھ براعظم ہیں اور اس تازہ ترین اضافے نے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں کیونکہ یہ دنیا کا سب سے کم عمر، پتلا اور سب سے چھوٹا براعظم ہے۔ مشکل بس یہ ہے کہ اس کا 94 فیصدحصہ زیرِ آب ہے اور صرف چند ایک جزائر ہیں جن میں نیوزی لینڈ بھی شامل ہے جو سمندر کی گہرائیوں سے اُبھر کر سطح سمندر سے اوپر ہیں۔ یہ سب نظروں سے چھپے ہوئے نہیں تھے مگر اس طرف دھیان نہیں گیا

پھر 1960 کی دہائی میں ماہر ارضیات نے آخر کار اس تعریف پر اتفاق کیا کہ براعظم کیا ہوتا ہے۔ وسیع پیمانے پر پھیلا ایک ارضیاتی علاقہ جس میں ایک بلندی والا علاقہ، مختلف قسم کے پتھر اور اس پر پرت یعنی پتھروں کی موٹی تہہ موجود ہو۔ اس کا بڑا ہونا بھی ضروری ہے۔ نک مورٹیمر کہتے ہیں کہ ’یہ صرف ایک چھوٹا سا ٹکڑا نہیں ہو سکتا۔‘

اس سے ماہرین ارضیات کو کچھ اشارے ملے، اگر وہ ثبوت اکٹھا کرسکیں تو وہ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ آٹھواں براعظم ایک حقیقت ہے۔

اس کے باوجود یہ مشن رک گیا۔ ایک براعظم کو دریافت کرنا مشکل اور مہنگا کام ہے اور مورٹیمر نے بتایا کہ اسے ڈھونڈنے کی کوئی جلدی بھی نہیں تھی۔ پھر 1995 میں امریکی جیو فزسسٹ بروس لوئنڈک نے ایک بار پھر اس خطے کو براعظم قرار دیا اور اسے زی لینڈیا کا نام دینے کی تجویز پیش کی۔ اینڈی ٹولوخ کے مطابق یہ وہ موقع تھا جب اسے دریافت کرنے کی کوششوں میں بہت تیزی آئی

اگر نیوزی لینڈ یہ ثابت کرسکتا ہے کہ یہ ایک بڑے براعظم کا حصہ ہے تو وہ اپنے علاقے میں چھ گنا اضافہ کر سکتا ہے۔ اچانک اس علاقے کے جائزہ لینے کے لیے دوروں کے لیے کافی سرمایہ ملنے لگا اور آہستہ آہستہ شواہد جمع ہونے لگے۔  چٹانوں سے اکٹھے کیے گئے ہر نمونے کے ساتھ زی لینڈیا کا کیس مضبوط ہوتا گیا۔

کسی منطقی نتیجے تک پہنچنے میں تیزی سیٹلائٹ سے اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار سے آئی جن سے کرہ ارض کے مختلف حصوں میں سمندر کی گہرائی میں پتھروں کی تہوں یا پرت پر کشش ثقل میں تغیرات کا سراغ لگانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے زی لینڈیا واضح طور پر غیر ہموار زمین کا ٹکڑا دکھائی دیتا ہے جو تقریباً اتنا ہی بڑا ہے جتنا آسٹریلیا ہے


العودة إلى الأعلى