سیرت امام زین العابدین علیہ السلام کے نورانی پہلو: ایک عارفانہ جائزہ
امام زین العابدین علیہ السلام، چوتھے امام اور سید الساجدین کے لقب سے مشہور وہ عظیم ہستی ہیں، جن کی زندگی قرآنِ مجسم اور اخلاقِ محمدیؐ کی عملی تفسیر ہے
ان کا نورانی وجود نسب اور سیرت دونوں لحاظ سے ایک معجزہ تھا، جنہوں نے عبادت، حلم، بخشش، اور صبر کو نئی معراج عطا کی
شاہِ عرب و عجم کا فرزند
آپؑ کی والدۂ ماجدہ سیدہ شہربانو سلام اللہ علیہا تھیں، جو یزدگرد سوم بادشاہِ ایران کی بیٹی تھیں۔ حضرت علیؑ نے انہیں "شاہِ زنان" یعنی عورتوں کی ملکہ کا لقب دیا۔ بعض مورخین کے مطابق ان کے دیگر اسماء بھی نقل ہوئے ہیں، جیسے: سلامہ، سلافہ، سادرہ، سلمه، شہربانویہ۔ اس طرح امام زین العابدینؑ ایک ایسے نورانی درخت کی شاخ تھے، جس کی ایک جڑ نبوّت کی زمیں میں تھی اور دوسری سلطنتِ عجم کے آسمان کو چھو رہی تھی۔
امامؑ کی ذاتِ گرامی میں نبی اکرمؐ کی نسل اور عادل بادشاہ کسریٰ کی عظمت دونوں جمع ہو گئی تھیں، اور یہی وحدت ان کے روحانی مقام کی عظمت کو اور بڑھا دیتی ہے۔
سجاد ع کیوں کہلائے؟
شیخ عباس قمیؒ منتهی الآمال میں روایت نقل کرتے ہیں کہ امام محمد باقرؑ نے فرمایا:میرے والد کبھی اللہ کی کسی نعمت کو یاد کرتے، کوئی مصیبت ٹلتی، آیت سجدہ سنتے، یا دو افراد میں صلح کرواتے، تو فوراً سجدے میں چلے جاتے۔ ان کے جسم کے تمام اعضاء پر سجدے کے نشانات نمایاں تھے، اس لیے انہیں سجاد کہا جاتا تھا
عبادت کی یہ کیفیت صرف رسمی نہیں تھی، بلکہ ایک عارفانہ جذبہ اور فنا فی اللہ کا عملی اظہار تھی۔ آپؑ کی نمازوں اور سجدوں میں وہ خشوع تھا، جو دلوں کو جھنجھوڑ دیتا تھا
طمانینت کا پیکر
ایک حیرت انگیز واقعہ نقل ہوا ہے کہ جب امامؑ نماز میں مشغول تھے، شیطان ایک عظیم الجثہ اژدہے کی شکل میں ظاہر ہوا تاکہ امام کو ڈرائے۔ مگر آپ نے ذرا بھی التفات نہ کیا۔ یہ وہ مقام تھا، جہاں نبی موسیٰؑ عصا کو اژدہا بنتے دیکھ کر خوف زدہ ہوئے تھے، مگر امام زین العابدینؑ نہایت سکون سے راز و نیاز میں مصروف رہے۔
یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ امامؑ کی روحانی توجہ اس درجے کی تھی کہ کسی مخلوق کی موجودگی یا دہشت بھی انہیں عبادت سے غافل نہ کر سکی۔
کظمِ غیظ اور مکارم اخلاق کا بے نظیر نمونہ
امام زین العابدینؑ کی سیرت میں کظمِ غیظ (غصے پر قابو پانا) اور عفو و درگزر جیسی صفات نمایاں ہیں۔ شیخ مفیدؒ نے الارشاد میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک بدگو شخص نے امامؑ کو برے الفاظ سے مخاطب کیا، امام خاموش رہے۔ بعد ازاں امامؑ اس کے گھر گئے اور قرآن کی آیت تلاوت کرتے ہوئے فرمایا:والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یحب المحسنین (آل عمران: 134)
اور وہ جو غصے کو ضبط کرتے اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
امامؑ نے اس شخص سے فرمایا:اگر جو تم نے کہا وہ حقیقت ہے تو میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں، اور اگر وہ باتیں میرے اندر نہیں تو میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تمہیں معاف کرے۔
یہ الفاظ سن کر وہ شخص شرمندہ ہو گیا، امام کے قدموں میں گر پڑا اور اعتراف کیا کہ جو کہا وہ غلط تھا، اور میں خود ان عیوب کا زیادہ مستحق ہوں
یہی وہ اخلاق ہے جسے قرآن نے "عفو"، "احسان" اور "کظم غیظ" کہا ہے، اور امام زین العابدینؑ کی شخصیت اس کی عملی تفسیر تھی۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی شخصیت نہ صرف ایک عظیم عبادت گزار کی تھی، بلکہ وہ علم، اخلاق، حلم، عفو، اور زہد میں بھی اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے۔ ان کی دعائیں، جیسا کہ صحیفۂ سجادیہ میں محفوظ ہیں، آج بھی قلوب کو منور کرتی ہیں۔
ایسے امام کو جاننا اور ان کی سیرت پر چلنا، دراصل قرآن کی روشنی میں چلنے کے مترادف ہے۔ امام زین العابدینؑ وہ درِ ہدایت ہیں، جن کی سجدہ گاہیں ہمیں تقویٰ، صبر، اور محبتِ الٰہی کی معراج تک لے جاتی ہیں۔