میر شمس الدین عراقی نے (906-907ھ) میں بلتستان میں اسلام کا نور پھلایا

2023-06-07 16:31

بلتستان پاکستان کے شمالی صوبہ گلگت بلتستان میں دو پہاڑی سلسلوں، کوہ قراقرم اور ہمالیہ کے دامن میں واقع  ہے۔ آٹھویں صدی ہجری میں میر سید علی ہمدانی اورمیر شمس الدین عراقی کے ذریعے یہاں نور اسلام پہنچا۔

سنہ 500 عیسوی میں بلتستان پر سلطنت پولولو کی حکمرانی تھی۔

مقامی لوگوں کے مطابق میر سید علی ہمدانی  نے (1373-1383ء) میں بلتستان کا سفر کیا یہاں سے بلتستان میں اسلام پھیلنا شروع ہوا۔

 میر سید علی ہمدانی کے بعد میر شمس الدین عراقی نے تمام بتکدوں کو ویران کر کے ان کی جگہ مساجد تعمیر کروائیں. اسی وجہ سے انہیں بت شکن کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔

یہاں اسلام تشیع کی صورت میں پھیلا کیونکہ جنہوں نے یہاں نور اسلام پھیلایا، وہ نور ولایت محمد وآل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منور تھے۔یہی وجہ ہے کہ صد ہا سال بعد بھی اس علاقے میں محبان اہلبیت علیہم السلام کی اکثریت موجود ہے، جن کے دل محبت آل محمد سے سرشار ہیں ۔آل محمد علیہم السلام کی محبت میں یہ لوگ اپنی جان مال سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔

یوں بلتستان کے باسی صدیوں سے عبادت گاہوں کی تعمیر پر دل کھول کر خرچ کرنے کی عادی رہے ہیں۔ یہاں کے لوگ مسجد خانقاہ اور امام بارگاہوں کی تعمیر کو خدا اور خدا کے مقرب ترین بندوں سے اظہار عقیدت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

سکردو شہر سے 30 کلومیٹر دور گول کے مقام پر امام بارگاہ شہداء کربلا کی نام سے بنائی گئی ہے۔ اس عمارت کا تعمیری کام آپ کو  حیرت میں مبتلا کر دے گا۔قدیم و جدید طرز تعمیر کے امتزاج کی مظہر ، یہ عمارت عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت بنائی ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق معروف مبلغ سید شمس الدین عراقی کی ساتویں نسل سے ایک بزرگ عالم دین سید نظام الدین موسوی نے بلتستان میں اپنے قیام کے لئے گول گاؤں کا انتخاب کیا تھا اور اس امام بارگاہ کی بنیاد رکھی کیونکہ تبلیغ کے لئے گول نہایت ہی مناسب جگہ ہے۔ یہ جگہ خپلو ،کھرمنگ اور سکردو  کے تقریبا درمیان میں واقع ہے۔

1970 میں پہلی بار اسی کی ترمیم ہوئی اور 2015 میں اس امام بارگاہ شہداء کربلا کو نئے سرے سے اسی پرانی ڈیزائن پر بنایا گیا اور بلتی و کشمیری طرز تعمیر کا خیال رکھا گیا۔مقامی کاریگروں نے اسی طرح لکڑیوں پر نقش نگاری کی ہےجیسے پہلے تھی۔

مرکزی دروازے پر حضرت علی علیہ السلام کا نام ڈیزائن کے ساتھ نقش کیا گیا ہے اور بغیر کسی مشین کے سہارے یہ سارا کام ہاتھ سے کیا گیا ہے۔مرکزی دروازہ 30 دن میں جبکہ اطراف کے چھوٹے دروازے 20 دنوں میں مکمل کیے گئے۔

 یہ تمام کام یہاں کے مقامی علماء کرام کی زیر نگرانی ہوا

منسلکات

العودة إلى الأعلى