جامع مسجد براثا ان دینی اور ثقافتی آثار میں سے ہے جو قدیم عراقیوں کی زندگی کو بیان کرتی ہے ۔

2022-07-27 17:31

جامع براثا عراق کی قدیم مساجد میں سے ایک ہے جو گذشتہ زمانے میں نصاریٰ کے عبادت خانے اور قبرستان پر مشتمل تھا ، یہ بغداد میں کرخ کی سمت سے عطیفیہ کے علائقے میں واقع ہے جو  کاظمین اور بغداد کے راستے کی ابتداء میں آتا ہے اور یہ مرکزی شہر سے تقریباً دس کلومیٹر کی دوری پر  ہے ۔
اسم ِبراثا  کی بنیاد: 
براثا کا نام نصاریٰ کے عبادت خانے کو بنانے والے کی طرف پلٹتا ہے (یعنی جس نے نصاریٰ کے عبادت خانے کو بنایا تھا اسی کے نام سے یہ مسجد ہے ) اور سریانی زبان میں براثا کا معنیٰ ابن العجائب (انوکھی چیز کا بیٹا)اور عربی زبان میں براثا کا معنیٰ سرخ نرم زمین کے ہیں ۔
تاریخی اہمیت :
اِس وقت براثا کا علائقہ ایک بہت بڑی مسجد پر مشتمل ہے جس کے اوپر دو مینار ہیں جنھیں 1375 ھ میں بنایا گیا تھا اور ایک قدیمی لائبریری ہے  ، محفوظ و مقدس مخصوص احاطہ ، نماز پڑہنے کے لیے ایک وسیع صحن اور پانی کا کنوان جو بئر امام علی علیہ السلام (امام علی علیہ السلام کا کنواں )سے مشہور ہے  اور ایک قدیمی قبرستان ہے ۔ 
مؤرخین کے مطابق اس مکان کی بہت زیادہ تاریخی اہمیت ہے اور کہا جاتا ہے کہ بہت سارے انبیاء اور صالحین اور ان انبیاء میں سے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور دانیال ذوالکفل نبی نے اس مقام کی زیارت کی تھی جس طرح امام علی علیہ السلام نے جنگ نہروان میں خوارج سے لڑنے کے بعد  اس مقام کی  زیات کی تھی ۔ 
محمد بن علی بن حسین نے اپنے اسناد کے ساتھ جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں : امام علی علیہ السلام نے ہمارے ساتھ براثا میں نماز پڑھی جب آپ علیہ السلام خوارج سے جنگ کر کے واپس پلٹے تھے اور ہم تقریباً ایک لاکھ مرد تھے تو اس وقت اس خانقاہ اور عبادت خانے سے ایک نصرانی نکلا اور اس نے کھا : اس لشکر کا سردار کون ہے ؟ پس ہم نے آپ علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا اور اس نے اپنا رخ امام علیہ السلام کی طرف کیا اور آپ علیہ السلام پر سلام کیا اور عرض کیا : اے میرے سردار کیا آپ نبی ہیں ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا :نہیں ، میرے سید اور سردار نبی ﷺ اس دنیا سے چلے گئے ہیں ، نصرانی نےعرض  کیا : آپ نبی پاک ﷺ کے وصی اور جانشین ہیں ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا : جی (میں نبی پاک ﷺ کا وصی اور جانشین ہوں)پھر امام علی علیہ السلام نے اسے فرمایا : بیٹھ جاؤ ، اس بارے میں تم نے سوال کیوں کیا    ؟ نصرانی نے عرض کیا  : میں نے اس عبادت خانے کو اس جگہ ۔براثا۔ پر بنایا ہے اور میں نے آسمانی کتابوں میں پڑھا ہے کہ اس مقام پر اس جماعت کے ساتھ کوئی نماز نہیں پڑھے گا سوائے نبی یا نبی کے وصی کے اورمیں آیا ہوں تاکہ اسلام قبول کروں پس اس نے اسلام قبول کیا ۔ (حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں  )وہ ہمارے ساتھ کوفے کی طرف روانہ ہوا، امام علی علیہ السلام نے اس سے پوچھا کہ اس مقام پر کس نے نماز پڑھی ہے ؟ تو  نصرانی نے عرض کیا حضرت عیسیٰ بن مریم  اور ان کی ماں  نے پھر امام علیہ السلام نے اس سےفرمایا کیا میں تمھیں بتاؤں کہ اس مقام پر کس نے نماز پڑھی ہے تو اس نے کہا جی بتائیں تو امام علی علیہ السلام نے فرمایا : حضرت ابراہیم خلیل اللہ  علیہ السلام نے ۔
اور مسجد براثا محلہ براثامیں  بغدادکے کنارے  کرخ کی جہت اور سمت میں باب محوّل کے جنوب میں واقع ہے ،براثا شہر بغداد کے بننے سے پہلے ایک قریہ (قَصبَہ)تھا ، مولا علی علیہ السلام اس مقام سے گزرے تھے جب خوارج کے فرقے حروریۃ (خوارج کا ایک فرقہ جو کوفہ کے قریب مقام حَرَورَاءکی طرف منسوب ہے ) سے نہروان میں جنگ کی تھی  اور اسی مسجد میں نماز ادا کی تھی ، اس مسجد  کو کئی بار منہدم کیا گیا کیونکہ شیعوں میں سے ایک گروہ  اس مسجد میں جمع ہوتا تھا ، عباسی خلیفہ راضی باللہ کے حکم سے اس مسجد کو منہدم کرکے زمین کے برابر کردیا پھر بغداد کے شہزادے بجکم ماکانی کے حکم سے اس مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔
جب خلافت کے دور میں بغداد دار الخلافہ تھا تو کوفہ کا مکتب  مختلف علمی سرگرمیوں میں پڑواں چڑھا اور جب عباسی حکومت کمزور پڑی اور فارس کے بویھین کےہاتھ میں حکومت آگئی تو عراق کے اکثر علائقوں میں شیعہ علماء نے سکھ کا سانس لیا تو اس کے نتیجہ میں دار الخلافہ بغداد میں شیعوں کے لیے چوتھے مکتب فکر کی بنیاد رکھی گئی جس کے سربراہ شیخ مفید (336- 413 ھ ) تھے،یہ وہ منفرد شخصیت ہیں جن کے علم ، ذہانت  زہد اور تقویٰ کا اعترا ف مخالفین اور ان کے چاہنے والوں نے کیا ہے اور شیخ مفید اپنے زمانے میں علم کلام کے بزرگ  اساتذہ میں سے شمار ہوتے تھے جس کی گواہی مختلف مکاتب فکر کے درمیان فکری اور عقائدی  بحث و مباحثہ دیتا ہے اور آپ بڑٰی عزت اور بلند مرتبے کے مالک تھے   ، آپ کے لیے مسجد براثا  بغداد میں تدریس کے لیے ایک کرسی معین تھی ، علماء اور عوام اپنے علم میں اضافے کے لیے شیخ مفید رح کے پاس آتے تھے اور آپ کی مختلف علوم میں دو سؤ سے زیادہ تصنیفات ہیں ۔ 
رپورٹنگ : عباس نجم 
مترجم : شہباز حسین مہرانی

منسلکات

العودة إلى الأعلى