امام علی رضا ؑکی ولی عہدی
امام علی رضا علیہ السلام کی ولی عہدی اظہار حقائق کا بہترین وسیلہ
تحریر محمد تقی ہاشمی متعلم حوزہ علمیہ نجف اشرف
ایک اہم موضوع جو ہمیشہ زیر بحث رہتا ہے کہ ظالم حکومتوں،غیر اسلامی ، غیر شرعی اور طاغوتی نظام پر مشتمل سیاسی نظاموں کے ساتھ ہمارا برتاؤ کیسا ہو ؟
اللہ نے ہمیں بہت سارے ہادیان دیے اور تقریباً تین سو سالہ دور حیات پیغمبر اسلام ص سے لے کر غیبت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف تک ہمارے سامنے ہے اور ظاہری بات ہے ان تین صدیوں میں ہر قسم کے حکومتی و سیاسی حالات رہے اور ہر معصوم ؑ کی زندگی میں الگ طرح کا کردار ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کبھی تو اسلام کے دفاع کی خاطر میدان جنگ میں جہاد،کبھی گوشہ نشینی ، کبھی ظالم کے خلاف قیام تو کبھی صلح ، کبھی طاغوتی نظاموں سے مکمل جداگانہ زندگی تو کبھی طاغوتی نظاموں میں شریک ہونا یعنی ہر طرح کے حالات میں ہر طرح کے کردار ہمارے سامنے موجود ہیں ۔
پس فقط قیام کا نعرہ لگا کر ایک ہی معصوم کی سیرت کو اپنانے کا دعوی کرنا ایسا ہی ہے گویا باقی معصومین علیہم السلام کی سیرت سے چشم پوشی کو اختیار کرنا ۔ پس ہمیں بھی ہر معصوم کی زندگی میں اس راز کو سمجھنا ہوگا کہ اسلام کی حفاظت اور دینی تعلیمات کی تبلیغ کا ذریعہ فقط قیام نہیں ہوتا بلکہ حالات کے پیش نظر بہت سارے امور کو انجام دینا ہوتا ہے ۔
انہی امور میں سے آٹھویں امام برحق حضرت علی رضا علیہ السلام کا ظالم اور طاغوتی نظام میں شریک ہونا ہے اور امام علیہ السلام کا ایک ظالم حکومت کی جانشینی کو قبول کرنا ہے ۔
کیا امام نے طاغوتی نظام کو مضبوط کیا ؟ظالم حکومت کے ساتھ تعاون کیا ؟کیا امام کا یہ فعل زہد و تقویٰ کے منافی ہے ؟یہ سارے سوالات ایسے ہیں کہ جن پر صدیوں سے علماء سیرت روشنی ڈال رہے ہیں ۔ ان سوالوں کے جواب کو سمجھنے کےلئے ہم تین نکات پر بطور اختصار روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے کہ جس سے امام علی رضا علیہ السلام کا ظالم بادشاہ کی جانشینی کو قبول کرنے کا معمہ حل ہو جائے گا
مامون کے پس پردہ کیا مقاصد تھے ؟
امام علی رضا علیہ السلام کا اس جانشینی کو قبول کرنا مکمل طور پر مامون کی طرف سے جبر اورظلم کی بنیاد پر تھا کہ جس کی صراحت خود امام علی رضا علیہ السلام نے کی کہ قتل اور جانشینی کے قبول میں معاملہ دائرتھا اور امت کی ہدایت اور اسلام کی حفاظت کےلئے ولایت عہدی کو قبول کرنا موت سے زیادہ مفید اور بہتر تھا ۔ امام علی رضا علیہ السلام کی اس ولایت عہدی کو قبول کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ جتنی تبلیغ و ترویج اسلام کا موقع اس ولی عہدی کے ذریعے ملا یقینا ًوہ اس سے پہلے نہیں تھا۔
مامون کے پس پردہ مذموم مقاصد
مامون اور امین دو بھائیوں کے باپ ہارون رشید کے چلے جانے کے بعد مامون تمام ملکوں پر قبضے کی خاطر اپنے بھائی امین کو قتل کر دیتا ہے جبکہ ہارون رشید دو بھائیوں کے درمیان ملکوں کی حکومت کو تقسیم کر کے مرتا ہے لیکن دونوں اس تقسیم پر راضی نہیں ہوتےامین کو قتل کرنے کے بعد مامون کی حکومت ایک طاقتور حکومت نہ بن سکی عباسیوں اورعلویوں دونوں کی طرف سے تنقید اور عدم رضایت کی صورت حال رہی عباسی اس وجہ سے راضی نہ رہے چونکہ وہ مامون کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ مامون ایک لونڈی کا بیٹا تھا جو کہ عجمی تھی جبکہ امین کی ماں عربی تھی اور لونڈی بھی نہیں تھی اس کے علاوہ مامون کی حکومت کو چلانے والا بھی عجمی فارسی تھا کہ جس کا نام فضل بن شاذان تھا جو کہ مامون کے بہت قریب اور اس کا ہمرازتھا جبکہ یہ بات بھی عباسی قبیلہ کےلئے قابل ہضم نہ تھی کہ کس طرح عجمی شخص اتنے اختیارات کا مالک بن بیٹھا ہے! اور دوسری طرف سے مامون کے باپ اور آباء اور اجداد کی طرف سے علوی سادات پر مظالم کی ایک تاریخ تھی ایسا ظلم کہ جس میں کسی بھی علوی کو زمین پر زندہ رہنے کا حق نہ تھا حتی کہ بچوں کو نہر میں زندہ بہا دیا جاتا تھا اور اس ظلم کی وجہ سے لوگوں کی یہ خواہشات جنم لے رہی تھیں کہ کاش یہ حکومت ختم ہو جائے اور وہی پرانی ظالم حکومت واپس آجائے جیسا کہ اس دور کے شعراء کے کلام میں بھی اس بات کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے :شاعر کہتا ہے
یالیت جور بنی مروان عاد لنا
ولیت عدل بنی العباس فی النار
کہ کاش بنی مروان کا ظلم واپس آجائے اور بنی عباس کا عدل جائے جہنم میں ۔
پس مامون کو اپنے آباء و اجداد کے ظلم پر پردہ بھی ڈالنا تھا اور لوگوں کو اپنی حکومت سے راضی بھی کرنا تھا جبکہ علویوں کی طرف سے انقلابی تحریکیں بھی شروع ہو چکی تھیں اور ادھر سے مامون کی فوج میں ایک بڑی تعداد شیعہ مؤمنین کی بھی تھی ۔
پس مامون کو ضرورت تھی کہ اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کےلئے کسی بلند و بالا شخصیت کا سہارا لے اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے پوتے امام علی رضا علیہ السلام سے بڑھ کر کونسی شخصیت ہوسکتی تھی؟ اور یوں مامون امام علی رضا علیہ السلام کو اپنی حکومت میں شامل کر کے جہاں علویوں کو راضی کرنا چاہتا تھا وہاں اپنی فوج کے اخلاص کو بھی حاصل کرنا چاہتا تھا اور ساتھ ہی عباسیوں کو یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ میں علویوں کے ساتھ مل کر الگ حکومت بھی بنا سکتا ہوں لہذا میرے خلاف کوئی بھی شورش بپاکرنے سے پہلے میری طاقت کا اندازہ لگا لیں ۔
اپنی حکومت کو شرعی حیثیت دے کر حکومت کو ہر قسم کی بغاوت سے بھی محفوظ کرنا چاہتا تھا اور یہ تبھی ممکن تھا کہ جب فرزند ِرسول ص کو اپنی حکومت کا حصہ بنا لیا جائے
اس کے علاوہ بھی بہت سارے اسباب ہیں کہ جن پر تفصیلی گفتگو تفصیلی کتب سیرت میں موجود ہے ۔
ولی عہدی کو قبول کرنا اختیاری تھا یا جبری؟
خود امام علی رضا علیہ السلام کے دور میں اس سوال پر بحث ہوتی رہی کہ آپ ؑنے کیوں ظالم کی جانشینی کو قبول کیا؟اور امام علیہ السلام نے خود ان سوالات کے جوابات دیے ۔
تاریخ کہتی ہے کہ تقریبا دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ مامون کےلئے لگ گیا کہ وہ امام علی رضا علیہ السلام کو اپنی جانشینی اور ولایت عہدی کو قبول کروائے اور جب اس نے امام علی رضا علیہ السلام سے کہا
میں نے آپ کے علم و فضل کو درک کر لیا ہے یقیناً آپ خلافت کےلئےمجھے سے زیادہ حق رکھتے ہیں میں اپنی خلافت آپ کو دینا چاہتا ہوں ؟ تو امام علی رضا علیہ السلام نے ایک تاریخی جواب دیا کہ جس سے مامون کا غصہ شدید ہوگیا آپ علیہ السلام نے جواب میں فرمایا تھا
إِنْ كَانَتْ هَذِهِ الْخِلَافَةُ لَكَ وَ جَعَلَهَا اللَّهُ لَكَ فَلَا یجُوزُ أَنْ تَخْلَعَ لِبَاساً أَلْبَسَكَهُ اللَّهُ وَ تَجْعَلَهُ لِغَیرِكَ وَ إِنْ كَانَتِ الْخِلَافَةُ لَیسَتْ لَكَ فَلَا یجُوزُ لَكَ أَنْ تَجْعَلَ لِی مَا لَیسَ لَك
اگر یہ خلافت اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے قرار دی ہے توتجھے اس بات کا حق ہی نہیں کہ جولباس اللہ نے تجھے پہنایا کسی اورکےلئے قرار دو اور اگر خلافت تیرے لئے نہیں ہے تو تم کیسے اس چیز کو مجھے دے سکتے ہو جس پر تیرا حق ہی نہیں اور جو تیرےلئے ہے ہی نہیں!( الأمالی( للصدوق) ص69)
مامون شدیدغصے میں آگیا اور کہنے لگا کہ آپ کو یہ پیشکش ہر صورت قبول کرنا پڑے گی امام علیہ السلام نے فرمایا:میں کبھی بھی ایسا نہیں کروں گا۔
اور یوں مامون ہر طرح کی کوشش کرتا رہا ہے کہ کسی طرح امام علی رضا علیہ السلام کو اپنی حکومت میں شامل کرے اور بالآخر دھمکیوں پر اتر آیا اور ایک دفعہ جب بحث گرم ہوئی تو امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا
اللہ کی قسم ہے کہ جب سے اس نے مجھے پیدا کیا ہے میں نے جھوٹ نہیں بولا میں نے زہد و تقویٰ کو دنیا کےلئے نہیں اپنایا اور میں تیرے ارادے کو خوب جانتا ہوں؟
مامون نے کہا کہ میرا کیا ارادہ ہے؟
آپ نے فرمایا کہ تم مجھے اپنی حکومت میں شامل کر کے لوگوں کو یہ ثابت کرنا چاہتے ہو کہ علی بن موسی الرضا زاہد انسان نہیں ہیں اور کس طرح خلافت کی لالچ رکھتے ہیں ۔
مامون مزید غصے میں آگیا اور کہنے لگا: فَبِاللَّهِ أُقْسِمُ لَئِنْ قَبِلْتَ وِلَایةَ الْعَهْدِ وَ إِلَّا أَجْبَرْتُكَ عَلَى ذَلِكَ فَإِنْ فَعَلْتَ وَ إِلَّا ضَرَبْتُ عُنُقَك
کہ اللہ کی قسم یا تو میری جانشینی کو قبول کر لو وگرنہ میں تمہیں مجبور کر دوں گا اگر ایسا نہ کیا تو تمہاری گردن اڑا دوں گا۔( وسائل الشیعة ؛ ج17 ؛ ص204)
تو اس وقت امام علی رضا علیہ السلام اپنے رب کی بارگاہ میں متوجہ ہوئے اور یوں گویا ہوئے
کہ اے اللہ تو نے اپنے آپ کو ہلاکت اور موت میں ڈالنے سے منع فرمایا ہے اور میں یوسفؑ و دانیال ؑ کی طرح مجبور اور مضطر ہوچکا ہوں کہ ان دونوں نے بھی اپنے زمانے میں طاغوتی نظام کو قبول کیا تھا ۔
اور پھر امام علیہ السلام نے دعا کی :اے اللہ کوئی ولایت و حکومت نہیں ہے مگر ساری ولایت و حکومت تیری ہے پس مجھے دین کو قائم کرنے کی اور سنت نبی ص کو زندہ کرنے کی توفیق دے بے شک تو ہی میرا مولیٰ اور تو ہی مدد گار ہے ۔
اور امام اس وقت گریہ بھی فرما رہے تھے اور بہت دکھی تھے۔
اور امام علیہ السلام نے حکومت میں شریک ہونے کی انوکھی شرطیں بھی رکھ دیں کہ جو یہ تھیں کہ نہ امام ؑکسی کو معزول کرنے کا حق رکھتے ہیں اور نہ کسی کو نصب کرنے کااور حکومت میں کوئی دخل اندازی نہیں کریں گے ہاں اگر کوئی مشورہ مانگا گیا تومشورہ دیں گے ۔
امام کی ولی عہدی کو قبول کرنےکے بعد وہ عباسی لوگ کہ جو مامون کے پس پردہ مذموم مقاصد کو نہیں جانتے تھے مامون سے سخت ناراض تھے اور ادھر چند مؤمنین کہ جو یقین کی منزل پر نہ تھے وہ بھی امام علیہ السلام کے اس فعل سے راضی نہ تھے اور بہت سارے لوگوں نے امام علیہ السلام سے ولی عہدی کو قبول کرنے کے بارے میں سوالات پوچھے اور امام علیہ السلام نے تسلی بخش جواب دیے انہی سوال کرنے والوں میں ایک ریان بن صلت بھی ہیں کہ جو امام ؑ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ :
لوگ کہتے ہیں کہ آپ تو متقی اور زاہد انسان تھے پھر کیوں ایک ظالم حکومت کی جانشینی کو قبول کیا؟
تو امام علی رضا علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:
اللہ میری ناپسندی کو جانتا ہے کہ جب مجھے قتل اور جانشینی کے قبول کرنے میں اختیار دیا گیا تو میں نے جانشینی کو قبول کیا ۔
اور پھر اس جملے کے بعد امام علیہ السلام نے اپنے طرزِعمل کا جواب قرآن مجید سے دیا:فرمایا: وَیحَهُمْ أَ مَا عَلِمُوا أَنَّ یوسُفَ ع كَانَ نَبِیاً وَ رَسُولًا فَلَمَّا دَفَعَتْهُ الضَّرُورَةُ إِلَى تَوَلِّی خَزَائِنِ الْعَزِیزِ قالَ اجْعَلْنِی عَلى خَزائِنِ الْأَرْضِ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ وَ دَفَعَتْنِی الضَّرُورَةُ إِلَى قَبُولِ ذَلِكَ عَلَى إِكْرَاهٍ وَ إِجْبَارٍ بَعْدَ الْإِشْرَافِ عَلَى الْهَلَاك
لوگوں کا برا ہو کیا وہ نہیں جانتے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نبی بھی تھے اور رسول بھی اور جب ان کو عزیز مصر کے خزائن کی سرپرستی کرنے کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے خود (طاغوت سے)کہا کہ (اجْعَلْنِی عَلى خَزائِنِ الْأَرْضِ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ: ۔یعنی: مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کریں کہ میں بلاشبہ خوب حفاظت کرنے والا، مہارت رکھنے والا ہوں۔ سورہ یوسف آیت55) (جب کہ حضرت یوسف ؑ کو مجبور نہیں کیا گیا تھا)اور مجھے ضرورت نے ولی عہدی کو قبول کرنے کی طرف دھکلیلا ہے جبکہ میں قتل کر دیے جانے کی وجہ سے مجبور اور مضطر بھی تھا ۔
(عیون أخبار الرضا علیه السلام ؛ ج2 ؛ ص139)
امام علیہ السلام نےبہت سارے مواقع پر حضرت یوسف علیہ السلام کے ظالم حکومت میں شریک ہونے سے استدلال فرمایا ہے ایک اور سوال کرنے والے کے جواب میں بھی فرمایا تھا:کہ حضرت یوسف ؑ نبی تھے اور میں وصی ہوں ، وہ جس طاغوتی حکومت میں شریک ہوئے وہ مشرکین کی تھی اور میں جس میں شریک ہوا وہ مسلمانوں کی ہے حضرت یوسفؑ مجبور بھی نہ تھے فقط مصلحت اور تبلیغی مقصد سے شامل ہوئے جبکہ میرے ساتھ مصلحت اور دین کی تبلیغ و ترویج کے ساتھ ساتھ جبر اور اکراہ بھی شامل ہے ۔
ظالم حکومت کی جانشینی کو قبول کرنے کا دین اسلام کےلئے کیا فائدہ ہوا؟
امام علی رضا علیہ السلام جب مامون کی حکومت کا حصہ بن گئے تو پھر ظاہری بات ہے کہ آپؑ کے ہر فعل پر نگاہ رکھی جانے لگی اور کوئی بھی علمی کارنامہ یا کرامت جو دربار میں پیش آئے اسے چھپانا ناممکن تھا اور یوں امام علیہ السلام کےلئے ایک مضبوط میڈیا تھا کہ جہاں سے وہ دین اسلام کی تبلیغ کر سکتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ امام علیہ السلام نے مامون کے دربار میں ہر مذہب کے علماء سے مناظرے کئے کبھی نصاری کے علماء سے تو کبھی یہودیوں کے علماء سے تو کبھی مجوسیوں سے تو کبھی اپنوں سے ولایت و امامت کے نظریہ کے تحفظ کےلئے ۔
اور اسی وجہ سے ہمارےپاس آج امام علی رضا علیہ السلام کے علمی مناظروں اور مذاکروں کا وسیع پیمانے پر ذخیرہ موجود ہے اور آج بھی متکلمین امام علی رضا علیہ السلام کی دی ہوئی دلیلوں سے سہارا اور مدد لیتے ہیں ۔
اور ادھر دوسری طرف مامون بھی دنیا کے کونے کونے سے بڑے سے بڑے عالم کو بلاتا اور سب سے یہی کہتا کہ کوئی ایسے سوال اور کوئی ایسی بحث کرو کہ امام علیہ السلام عاجز آجائیں لیکن اس کا مقصد ناکام رہ جاتا اور اہل حق کےلئے یہ روشن ہوجاتا کہ تخت و تاج پر قبضہ کر لینا آسان ہے لیکن بساط علم و فضل پر قدم رکھنا آسان نہیں ہے یہ صرف علی ؑ کا حصہ ہے جو روز ازل سے قدرت نے ان کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے اور ان کا کام امت کی مشکل کشائی اور اسلام کے وقار کا تحفظ ہے ۔
ملک میں قحط پڑنے پر امام علی رضا علیہ السلام کی دعا سے ہی بارش ہوئی اور یوں امام کی یہ فضلیت بھی سب پر واضح ہوئی شائد اگر امام حکومت میں نہ ہوتے تو اس طرح کی شہرت نہ ملتی۔
امام جب بھی دربار میں آتے تو سب احترام کےلئے کھڑے ہوجاتے اور پردہ کو ہٹاتے تھے اور جب بنی عباس نے سیاسی خطرہ محسوس کیا تو یہ طے کر لیا کہ کوئی پردہ نہ ہٹائے گا اور کوئی کھڑا نہیں ہوگا لیکن جب امام پردے کے پاس پہنچے تو ایسی تیز ہوا کا جھونکا آیا کہ پردہ ہٹ گیا اور سب امام کےلئے کھڑے ہوگئے اور جاتے وقت بھی ہوا چلی اور پردہ ہٹ گیا اور یوں امام کی شخصیت سب کے سامنے نکھر کر سامنے آئی اور کسی کےلئے چھپانا بھی ممکن نہ تھا۔
اس کے علاوہ بھی جہاں امام علی رضا علیہ السلام نے دین و اسلام کی ترویج کےلئے ولی عہدی کو استعمال کیا وہاں اپنی معرفت کا ذریعہ بھی قرار دیا ۔
اور حقیقت امر یہ ہے کہ اگر امام علیہ السلام نے اس ولی عہدی کو قبول نہ فرمایا ہوتا تو ان فوائد کا حاصل کرنا ناممکن تھا اور اگر ان میں سے کوئی واقعہ پیش آبھی جاتا تو خود حکومت اور اس کے کارندے اس کی جشم پوشی کرتے اور کسی کو نہ امام علیہ السلام کی کرامات کا پتہ چلتا نہ آپؑ کے علم کا اور نہ ہی دین اسلام کا اس طرح دفاع ہو پاتا۔