سیرتِ امام صادق علیہ السلام

2022-05-26 11:49

(روزی کما کر نیک مقاصد پر خرچ کرنا)

تحریر: محمد تقی ہاشمی ۔ حوزہ علمیہ نجف اشرف عراق۔۔

آل محمد علیہم السلام کے فضائل  کی معرفت حاصل کرنا عام بشر کے بس کی بات نہیں ہے اور کی کے  آل محمد ؑ کے فضائل کا انکار کرنے سے یا اقرار کرنے سے آل محمدؑ کی فضیلت میں کسی قسم کی نہ کمی پیدا ہوتی اور نہ زیادتی  لہذا اہم بات یہ ہے کہ جو آل محمد ؑ نے کردار پیش کیا ، ہم اس کردار کا مطالعہ کریں اور اپنی زندگی میں اس کردار کو اپنانے کی کوشش کریں ۔

صادق آل محمد ، امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی بہت سارے اخلاقی واقعات اور سیرت سے بھری پڑی ہے ، اس مختصر مضمون میں اپنے اہل و عیال کےلئے کمانا اور پھر لوگوں پر خرچ کرنے کے اعتبار سے امام علیہ السلام کی سیرت پاک کیا رہی ہے پرمختصر روشنی ڈالیں گے۔

اپنے اور اپنے عیال کےلئے کمانا

دین اسلام میں محنت و مشقت کرنا اور اپنے لئے اور اپنے اہل و عیال کےلئے حلال طریقے سے روزی کمانا دنیا داری نہیں ہے بلکہ دینداری ہے اور باعث ثواب ہے اور اسی وجہ سے امام صادق علیہ السلام سخت محنت کر کے کمانے کو بہت پسند فرماتے تھے ، اصول کافی میں اس سلسلے میں کچھ روایات موجود ہیں جن میں سے ایک روایت کو ہم ذکر کرتے ہیں اور اس پر غور و فکر کرتے ہیں قَالَ حَدَّثَنِی جَمِیلُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیبَانِی قَالَ: رَأَیتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع وَ بِیدِهِ مِسْحَاةٌ وَ عَلَیهِ إِزَارٌ غَلِیظٌ یعْمَلُ فِی حَائِطٍ لَهُ وَ الْعَرَقُ یتَصَابُّ عَنْ ظَهْرِهِ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ أَعْطِنِی أَكْفِكَ فَقَالَ لِی إِنِّی أُحِبُّ أَنْ یتَأَذَّى الرَّجُلُ بِحَرِّ الشَّمْسِ فِی‏ طَلَبِ‏ الْمَعِیشَةِ.

( الكافی (ط - الإسلامیة) ؛ ج‏5 ؛ ص76

ترجمہ:راوی کہتا ہے کہ جمیل بن صالح نے ابو عمرو الشیبانی سے نقل کیا ، وہ کہتا ہے

میں نے امام صادق علیہ السلام کو اس حالت میں دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں بیلچہ تھا  اور سخت چادر  سے کمر بستہ کئے ہوئے تھے اور اپنے باغ میں کام کر رہے تھے اور ان کی کمر سے پسینہ بہہ رہا تھا ، تو میں نے کہا : مولا میں قربان جاؤں ،یہ کام مجھے دے دیجیے میں کر لیتا  ہوں تو امام علیہ السلام نے فرمایا مجھے یہ بات بہت پسند ہے کہ ایک مرد اپنی معیشت کمانے کےلئے سورج کی گرمی میں تکلیف اٹھائے ۔

قارئین محترم!یہ حدیث اپنے اندر بہت سارے پیغام رکھتی ہے کہ جن میں سے دو اہم پیغام یہ ہیں

1 اپنا کام کسی کے حوالے نہ کرنا

اگر کسی سلسلہ میں  کسی کو  کام کاج کرنا پڑ جائے تو  اگر کوئی ان سے کہہ دے صاحب آپ رہنے دیں ہم  کر دیتے ہیں تو وہ ان کے حوالے کا م کر دیتے ہیں  لیکن بہت ہی توجہ کا مقام ہے کہ امام علیہ السلام اپنا کام دوسرے کو نہیں دیتے باوجود اس کے کہ دوسرا اصرار کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ میں آپ پر قربان ہو جاؤں ، لیکن پھر بھی امام علیہ السلام اپنا کام خود کرتے ہیں اورا س کے کہنے کے باوجود اپنا کام اس کے سپرد نہیں فرماتے ۔

پس زندگی میں کسی موڑ پر جب ہم اپنا کام کر رہے ہوں اورکوئی کہہ دے کہ جناب عالی رہنے دیں ہم کر دیتے ہیں تو ہمیں امام صادق علیہ السلام کی سیرت پاک کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب امام صادق علیہ السلام جیسی عزت و فضیلت کی مالک ہستی اپنا کام کسی کے سپرد نہیں کرتی اور خود انجام دینا پسند کرتی ہے تو ہم بھی اسی سیرت پر عمل کرتے ہوئے خود اپنے کام کو انجام دیں اور کسی کے کہنے پر بھی اس کے حوالے نہ کریں۔

2:معیشت کے طلب کرنے میں اذیت کو برداشت کرنا

عمومی طور پر ہم  چھوٹا موٹا اور آسان سا کام انتخاب کرتے ہیں جس سے نہ  سورج کی گرمی میں نکلنا پڑے اور نہ ہی جسم سے پسینہ آئے لیکن امام علیہ السلام اس سوچ کو مکمل غلط ثابت کر رہے ہیں اور فرما  رہے ہیں کہ اگر تم صادق آل محمد ؑ کی پسند کو جاننا چاہتے ہو تو یاد رکھو صادق آل محمد ؑ  کو یہ بات پسند ہے کہ روزی کمانے کی خاطر انسان سورج کی گرمی کو برداشت کرے ۔

پس یہاں پر ایک بہت بڑا درس ہے  کہ اگر کسی کو اپنی روزی کمانے کےلئے اچھی جاب نہیں ملتی اور اسے محنت و مشقت اور سورج کی گرمی میں کام کرنا پڑتا ہے تو وہ کبھی شکوہ نہ کرے اور  نہ ہی پریشان ہو بلکہ وہ اس بات پر خوش ہو جائے کہ اسے روزی کمانے کےلئے ایسا کام کرنا پڑ رہا ہے کہ جسے صادق آل محمدؑ بہت پسند فرماتے تھے اور یہ بات واضح ہے کہ معصومؑ کسی کام کو اس وقت تک پسند نہیں فرماتے جب تک وہ کام اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو پسند نہ ہو اور اس کا اجرو ثواب بہت زیادہ نہ ہو ۔

دوسروں سے بے نیاز ہونے کےلئے کمانا

گزشتہ حدیث سے یہ واضح ہوگیا کہ  روزی کمانے کےلئے اذیت براشت کرنا ، سورج کی گرمی سہنا  صادق آل محمد ؑ کو بہت پسند ہے اور جو کام صادق آل محمد ؑ کو پسند ہے یقیناً وہ کام اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بھی بہت پسند ہے اور اس کی فضیلت و ثواب بہت زیادہ ہے لیکن یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کتنا کمائے؟

تو اس سوال کا جواب بھی ہمیں سیرت صادق  آل محمدؑ میں مل جاتا ہے کہ انسان اپنے لئے اتنا کمائے تاکہ دوسروں سے بے نیاز ہو جائے اور اسے کسی سے مانگنے کی ضرورت نہ پڑے ۔

اصول کافی کی حدیث ہے

عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى مَوْلَى آلِ سَامٍ قَالَ: اسْتَقْبَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع فِی بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِینَةِ فِی یوْمٍ صَائِفٍ‏ شَدِیدِ الْحَرِّ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ حَالُكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ قَرَابَتُكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ أَنْتَ تُجْهِدُ لِنَفْسِكَ فِی مِثْلِ هَذَا الْیوْمِ فَقَالَ یا عَبْدَ الْأَعْلَى خَرَجْتُ‏ فِی‏ طَلَبِ‏ الرِّزْقِ‏ لِأَسْتَغْنِی عَنْ مِثْلِكَ.

( الكافی (ط - الإسلامیة) ؛ ج‏5 ؛ ص74

عبد الاعلیٰ کہتا ہے کہ شہر کے بعض راستوں میں ،میں نے شدید گرمی میں امام صادق علیہ السلام کو مشقت کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے عرض کیا

 آپ پر قربان جاؤں ، اللہ کے نزدیک آپ کا مقام ہے اور رسول اللہ ﷺ کے آپ قریبی ہیں ، اس کے باوجود آج کے دن کی شدید گرمی میں آپ ؑ محنت و مشقت کر رہے ہیں؟ تو امام علیہ السلام نے جواب دیا

اے عبد الاعلیٰ میں رزق کمانے کےلئے نکلا ہوں تاکہ تم جیسے لوگوں سے بے نیاز ہو جاؤں ۔

قارئین محترم ! یہ حدیث بھی اپنے اندر بہت زیادہ پیغام رکھتی ہے ، کہ جن میں سے دو اہم پیغام یہ ہیں

1:انسان کا جتنا بھی مرتبہ ہو اسے مشقت و محنت کرنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہئے

کہنے والا واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ آپ کا تو بہت بڑا مقام ہے ، پھر بھی یہ مشقت؟

یعنی امام علیہ السلام اپنی سیرت پاک سے یہ واضح کرنا چاہ رہے ہیں کہ اپنی عزت و فضیلت کے باوجود مشقت و محنت سے رزق کمانا اللہ کے محبوب بندوں کو بہت ہی محبوب ہے ، پس یہ دنیا والوں کی سوچ ہوگی کہ عزت و مقام اور شخصیت بڑی ہو گئی  ہے تو ہو کام کاج اور محنت و مشقت سے گھبراتے ہیں لیکن ہمارے امام اتنی بڑے فضائل و کمالات کے باوجود محنت و مشقت کو پسند فرماتے ہیں ، اب سیرت امام واضح ہے اورہمیں خود دیکھنا ہے کہ ہماری سوچ اور ہمارا رواج کہاں جارہا ہے اور امام کی سوچ اور سیرت کہاں جا رہی ہے ۔

2:اتنا کماؤ کہ لوگوں سے سوال نہ کرنا پڑے

یہ پیغام تو امام علیہ السلام نے واضح فرما دیا  کہ میری اس مشقت کے پیچھے ایک راز یہ بھی ہے کہ مجھے لوگوں سے سوال نہ کرنا پڑے ، پس چھٹے امام علیہ السلام کے اس جواب سے واضح ہو جاتا ہے کہ انسان کو روزی کمانے میں شدید مشقت کرنی چاہئے تاکہ وہ لوگوں سے سوال کرنے سے بے نیاز ہو جائے۔

لوگوں کےلئے خرچ کرنا

گزشتہ احادیث سے یہ واضح ہو گیا کہ اتنا کماؤ کہ لوگوں سے بے نیاز ہو جاؤ ، لیکن زیادہ کمانے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان اپنے پیسے کو کہاں خرچ کرے ؟

سیرت معصومین علیہم السلام اور خصوصاً امام جعفر صادق علیہ السلام کی سیرت سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ یہ ہستیاں لوگوں کی مشکلات کو آسان کرنے کےلئے بھی کماتی تھیں ، اس  سلسلہ میں جود و سخا کی شہرت کسی سے مخفی نہیں ہے ، لوگوں کی مشکلات کے لئے خرچ کرنا ، ان کی مشکلات کو ختم کرنا یقیناً سیرت معصومین علیہم السلام میں بہت ہی پسندیدہ عمل ہے لیکن سیرت امام صادق علیہ السلام سے ایک اور اہم اور انوکھی بات ظاہر ہوتی ہے کہ چھٹے امام علیہ السلام  نے اپنے پیسے کی کچھ رقم لوگوں میں صلح صفائی کی خاطر خاص کر رکھی تھی ، یعنی جب دو مؤمن آپس میں اختلاف کر بیٹھیں اور پیسوں کا جھگڑا ہو جائے تو امام علیہ السلام نے اپنی طرف سے پیسے مختص کر رکھے تھے کہ یہ پیسے ان پر خرچ کر کے ان میں صلح کرائی جائے ۔

اصول کافی کی حدیث ہے

 ابْنُ سِنَانٍ عَنْ أَبِی حَنِیفَةَ سَابِقِ الْحَاجِ‏ قَالَ: مَرَّ بِنَا الْمُفَضَّلُ وَ أَنَا وَ خَتَنِی‏ نَتَشَاجَرُ فِی مِیرَاثٍ فَوَقَفَ عَلَینَا سَاعَةً ثُمَّ قَالَ لَنَا تَعَالَوْا إِلَى الْمَنْزِلِ فَأَتَینَاهُ فَأَصْلَحَ بَینَنَا بِأَرْبَعِمِائَةِ دِرْهَمٍ فَدَفَعَهَا إِلَینَا مِنْ عِنْدِهِ حَتَّى إِذَا اسْتَوْثَقَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنَّا مِنْ صَاحِبِهِ قَالَ أَمَا إِنَّهَا لَیسَتْ مِنْ مَالِی وَ لَكِنْ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع أَمَرَنِی إِذَا تَنَازَعَ رَجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِنَا فِی شَی‏ءٍ أَنْ أُصْلِحَ بَینَهُمَا وَ أَفْتَدِیهَا مِنْ مَالِهِ فَهَذَا مِنْ مَالِ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع

(الكافی (ط - الإسلامیة) ؛ ج‏2 ؛ ص209

ترجمہ: حاجیوں کا سالار ابو حنیفہ(سعید بن بیان) کہتا ہے کہ میں اور میرا داماد میراث کے معاملے میں جھگڑ رہے تھے کہ مفضل (امام صادق علیہ السلام کا صحابی) ہمارے پاس سے گزرا اور کچھ دیر کےلئے رک گیا ، پھر اس نے ہم سے کہا کہ گھر چلو اور ہم اس کے گھر چلے گئے تو اس نے چار سو درہم اپنی طرف سے ہمیں دے کر ہمارے درمیان صلح کرائی اور ہم ایک دوسرے پر راضی ہوگئے ، تو مفضل نے کہا کہ یہ پیسے میری طرف سے نہیں تھے امام صادق علیہ السلام نے مجھے حکم دے رکھا ہے کہ جب ہمارے دوست آپس میں جھگڑا کریں تو میں ان کے درمیان صلح کراؤں اور امام علیہ السلام کے پیسوں سے عطا کر کے معاملہ حل کر دوں، پس یہ پیسے امام صادق علیہ السلام کے مال سے ہیں۔

قارئین محترم!  یہ بھی امام  صادق علیہ السلام کی سیرت ہے  کہ اپنے مختلف اصحاب کو اس غرض سے پیسے دے رکھے تھے تاکہ جب مؤمنین  میں پیسوں پر کوئی اختلاف ہو جائے تو امام کی طرف سے پیسے دے کر معاملہ رفع دفع کر دیا جائے ۔

اور اس کا فلسفہ اسی بات سے واضح ہے کہ فرض کریں میرے سامنے کوئی لڑائی نہیں کرے گا، میرے سامنے لوگ چپ رہتے ہیں لیکن کسی اور کے سامنے ممکن ہے وہ لڑ پڑیں ، لہذا  ممکن ہے اسی خاطر امام علیہ السلام نے مختلف لوگوں کو اسی صلح کے مقصد کی خاطر پیسے دے رکھے ہوں چونکہ ممکن ہے کسی بھی وقت کسی کے سامنے کسی کی لڑائی ہو جائے اور مشکل پیسوں کی ہو ۔

اس حدیث سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ امام علیہ السلام اپنے نام کےلئے خرچ نہیں کر رہے وگرنہ خود اس مقصد کی خاطر خرچ کرتے ، یہ تو اس صحابی نے آگاہ کر دیا کہ یہ پیسے امام علیہ السلام کے تھے اور یوں یہ سیرت بھی ہم تک پہنچ گئی ۔

دوسروں کے مالی حقوق میں ان کی مدد کرنا

اصول کافی میں حدیث ہے  كَانَ أَبِی ع یبْعَثُ أُمِّی وَ أُمَّ فَرْوَةَ تَقْضِیانِ حُقُوقَ‏ أَهْلِ‏ الْمَدِینَةِ.

الكافی (ط - الإسلامیة) ؛ ج‏3 ؛ ص217

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہمارے والد(امام جعفر صادق ؑ) میری والدہ اور ام فروہ کو بھیجتے تھے تاکہ وہ شہر والوں کے مالی حقوق کو اد ا کر کے آجائیں۔ حقوق کا مطلب قرضہ وغیرہ ہے کہ جو کسی کے ذمہ ہو اور وہ بندہ نہ دے سک رہا ہو۔

تو امام علیہ السلام کی یہ سیرت رہی ہے کہ لوگوں کے ادھار کو ادا کرنے کےلئے اپنا پیسہ خرچ کرتے تھے  ۔

 اصول کافی میں اس سلسلہ میں پورا باب باندھا گیا ہے کہ مومنین کے ضروریات اور معاشی مشکلات کو حل کرنے کا کتنا بڑا  اجر ہے  اور امام علیہ السلام اپنے اصحاب کو فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو خلق کیا ہے کہ جو ہمارے شیعہ فقراء کی  حاجتوں کو پورا کرتےہیں، حدیث ہے

عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَ خَلْقاً مِنْ خَلْقِهِ انْتَجَبَهُمْ لِقَضَاءِ حَوَائِجِ فُقَرَاءِ شِیعَتِنَا لِیثِیبَهُمْ عَلَى ذَلِكَ الْجَنَّةَ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ فَكُن

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی قوم کو پیدا فرمایا ہے جو ہمارے شیعہ فقراء کی حاجات کو پورا کرتے ہیں تاکہ اللہ انہیں ثواب کے طور پر جنت عطا فرمائے  ، پس اگر ہو سکے تو تم بھی ایسی قوم میں شامل ہو جاؤ

العودة إلى الأعلى