حضرت حمزہ بن قاسم عليه السلام
ترجمہ۔سجادحسین ابو جون
آپ کا سلسلہء نسب یہ تھا ۔حمزہ بن قاسم بن علی بن حمزہ بن حسین بن عبداللہ بن عباس بن امیر المومنین علیھم السلام ۔
حمزہ عربی زبان میں شیر کے معنیٰ میں ہوتا ہے ۔اور گرامر کے اعتبار سے یا تو یہ لفظ الحموز سے ہے یعنی جو اس کو سونپا جائے اس کو صحیح کنٹرول کرنا ۔یا یوں کہہ دیا جائے کہ ذمہ داری کو اچھے انداز میں سنبھالنا ۔یا پھر یہ لفظ الحمازة سے ہے کہ جو شدت وسختی کے معنیٰ میں ہوتا ہے ۔یعنی کسی مسؤلیت کو شدت سے سنبھالنا۔
جناب حمزہ علیہ السلام کے سلسلہ نسب کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ اور جناب عباس علیہ السلام کے درمیان پانچ آباء کا فاصلہ ہے یعنی اس اعتبار سے آپ کا دور حیات امام تقی علیہ السلام کے دور کیساتھ منسلک ہے ۔یا امام ہادی کے دور زندگی سے ملتا ہے ۔تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے تیسری ہجری میں زندگی گزاری ہے لیکن بعض علماء (جن میں سے الشیخ علی الاوردباری سر فہرست ہیں ) کا کہنا ہے کہ آپ چوتھی ہجری صدی بھی موجود تھے ۔
آپ کی ولادت اول محرم میں ہوئی اور وفات ذوالحجہ میںہوئی۔ پھر آپ کو اس مقام پہ نقل کیا گیا جہاں آج آپ کا عالیشان روضہ ہے ۔
آپ کا روضہ مبارک مدحتیہ کے علاقے میں واقع ہے اور مدحتیہ کو مدحتیہ اس کے والی عثمانی بادشاہ مدحت پاشا کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے ۔یہ علاقہ ایک جنگ کا شکار ہونے کے بعد ١٨٦٩میں حلہ شہر کے ضمن میں شمار ہونے لگا ۔مدحت پاشا بادشاہ نے اسی علاقہ کی مغربی جانب کو ایک ناحیہء اداریہ بنایا تھا کہ تجارتی مرکز بن گئی تھی ۔اور پھر وہی علاقہ بعض مغربی ومشرقی علاقوں کا ربط بھی بن گیا وہیں سے ایک راستہ نجف اشرف اورکربلا مقدسہ کی طرف بھی جاتا ہے ۔اسی علاقے کے قریب ایک بستی بھی ہے ۔جس کو الھاشمیہ کہا جاتا ہے ۔مدحتیہ اور ہاشمیہ کے درمیان ٦ کلو میٹر کا فاصلہ ہے ۔
آپ کے مرقد مبارک کا سلسلہء تعمیر۔آپ کے مرقد مبارک پر قدیم سے ایک کچی اینٹوں کا کمرہ بنا ہوا تھا جسکی چھت کھجور کے پتوں وغیرہ سے بنی ہوئی تھی اور اس وقت مرقد کی دیکھ بھال اسی علاقہ میں رہنے والے ایک قبیلہ آل نجم کے ہاتھ میں تھی اس علاقے کی آبادی پچاس گھر پر مشتمل تھی ۔اور اس آل نجم سے پہلے جس نے وہ کمرہ تعمیر کیا تھا اس کا نام علی بن نجم الھلال تھا کہ جس نے اپنے بھائیوں کی مدد سے بابل کے علاقہ سے اینٹوں کو اونٹوں کے ذریعے منگوایا تھا ۔پھر یہ کمرہ ١٩٢١ء تک باقی رہا ۔
آپ کے مرقد مبارک کی دوسری تعمیر کا سلسلہ جناب الشیخ عدای الجریان کے ہاتھوں ہوا جو کہ قبیلہ آل ابو سلطان کا رئیس تھا اور اس وقت کی حکومت میں ایک خاص عہدہ پر فائض تھے اس تعمیر ثانی میں شیخ عدای جریان کے ساتھ اس وقت کے مشہور تاجروں اور وکھاء مدینہ نے بھی کافی تعاون کیا ۔ان اہل علاقہ میں سے جابر الکریمی نمایاں شخصیت تھی جس نے اس تعمیر نو میں بے حدتعاون کیا یہ تعمیر نو ١٩٢١ ء مطابق ١٣٣٩ھ میں مکمل ہوئی ۔جس میں قبہ مبارک اور صحن شریف کی وسعت کا کام انجام پایا۔
آپ کے مرقد کی تیسری تعمیر کا کام ١٩٦٦ء میں شیخ تایف الجریان کے حکم سے ہوا کہ اس نے اہل علاقہ کے مشاہیر کو جمع کیا اور ہر عشیرہ پر ایک معین مبلغ و مال کی تعین کی اور کام شروع ہوا ۔جس میں جو کام شیخ عدای الجریان سے رہ چکا تھا وہ بھی کامل ہوا اور آٹھ قبوں کی تعمیر بھی مکمل ہوئی جو آٹھ قبے آج مسجد کی شکل اختیار کر چکے ہیں ۔پھر ١٩٧٦ء میں احمد حسن البکر رئیس العراق زیارة کیلئے مرقد مبارک میں پہنچا کیونکہ احمد حسن البکر کسی مرض میں مبتلا تھا کسی وزیر نے اس کو مشورہ دیا کہ آپ جناب حمزہ کی زیارت کریں تو آپ کو شفا ملے گی ۔چونکہ وہ ڈاکٹروں سے لا علاج ہو چکا تھا تو وہ یہی امید شفا لیکر زیارت پہ آیا اور اس کا زیارت پہ آنا مخفی انداز میں تھا ۔وہ زیارت سے فارغ ہونے کے بعد واپس بغداد پہنچا تو اس نے مرض سے چھٹکارہ محسو س کیا ۔پھر اس نے حکم دیا تھا کہ مرقد مبارک کو توسیع دی جائے اور قبر مبارک کو کاشئی کربلائی سے تعمیر کیا جائے اور مرقد مبارک کا منارہ عالیشان بنایا جائے ۔اور صحن مرقد کو شمالی مشرقی جانب سے وسیع کیا جائے ۔پرانے مفرد شات کے بجائے نئے کالین ڈالے جائیں ۔فرش صحن کو اچھے پتھر سے باندھا جائے چنانچہ یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا اور مرقد کی رونق دوبالا ہوئی ۔اس کے علاوہ مرقد مبارک کے دو صحن اور ایک مینار بنوائے گئے ۔ایک صحن خارجی حصہ کا ہے جس کی ساحت ٢٥٣٠٠میٹر ہے جس کے ارد گرد لوہے کے گرل لگے ہوئے ہیں دوسرا صحن داخلی حصہ کا ہے جسے بڑے صحن نے گھیر اہوا ہے ۔اور مینار کی اونچائی ٢٨ میٹر ہے اور عربی نوعیت کی زینت سے مزین ہے ۔روضہ مبارک کی جالی کی مساحت ٢٨٠م ہے اور اس جالی مبارک کی تنصیب الحاج جلیل عبد عون کے تعاون اور ریاض عبد الحسین السبع کی کار یگری اور فنی صلاحیات سے ہوئی ۔مرقد مبارک کی آخری تعمیر کا کام ٢٠٠٨ء میں ہوا کہ جس میں پرانی جالی کو اٹھا دیا گیا اور اس کی جگہ نئی جالی نصب کی گئی ۔اس تعمیر نو میں جالی مبارکہ کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ حرم کے خارجی و داخلی حصوں کو سنگ مرمر سے پختہ اور مزین بھی کیاگیاتھا ۔ اس بار تعمیر نو کا کام حکومت کی طرف سے (امانات عامہ للمزارات الشیعیہ ) شعبہ کے ماتحت ہوا جس کا تعاون (امانات خاصہ للمرقد الشریف ) شعبہ نے بھی کیا ۔اس تعمیر نو کا مالی خرچ تقریباً ١٣١ملیون دینار عراقی ہوا جس میں سے ٩٦ ملیون تبرکات کے طور پر جمع ہوا اور باقی مال مزار شریف کے خزانیہ سے لیا گیا ۔
روضہ مبارک کا قبہ بہت ہی بارونق وباوقار ہے جس کی بلندی ١٦ م ہے ۔اور گولائی یا دائرہ کی مقدار ومساحت ٣٠م ہے ۔قبہ کے اندورونی حصہ کو زینت مغربی سے مزین کیا گیا ہے اور قبہ کی دیوار وں پہ آیات مجیدہ (اللہ نور السموات و الارض ) جیسی آیات کو نقش کیا گیا ہے۔
اور حرم کی دیوار وں میں اٹلی سے لئے گئے سنگ مرمر سے کام کیا گیا ۔روضہ مبار ک میں رواق بھی بنائے گئے ہیں کہ جو حرم کے اندورونی حصے میں ہیں ۔اور ہر جانب میں روشندان کا کام خوبصورتی سے کیا گیا ہے پھر ایک بڑا ہال بنایا گیا ہے کہ جس کی شکل انگریزی حرف کی شکل ہے ۔خداوند کریم سے دعا ہے کہ تمام مومنین کو ا س روضہ مبارک سے بشرف زیارت فرمائے ۔