امام حسین علیہ السلام
حسین بن علی بن ابی طالب (4۔61ھ)، امام حسینؑ، اباعبد اللہ و سید الشہداء کے نام سے مشہور شیعوں کے تیسرے امام ہیں جو واقعہ عاشورا میں شہید ہوئے۔ آپ امام علیؑ و فاطمہ زہراؑ کے دوسرے بیٹے اور پیغمبر اکرم ؐ کے نواسے ہیں۔ آپ اپنے بھائی امام حسن مجتبی کے بعد دس سال منصب امامت پر فائز رہے۔
شیعہ و اہل سنت تاریخی مصادر کے مطابق پیغمبر خداؐ نے آپؑ کی ولادت کے وقت آپ کی شہادت کی خبر دی اور آپ کا نام حسین رکھا۔ رسول اللہؐ حسنینؑ کو بہت چاہتے تھے اور ان سے محبت رکھنے کی سفارش کرتے تھے۔ امام حسینؑ اصحاب کسا میں سے ہیں، مباہلہ میں بھی حاضر تھے اور اہل بیتِ پیغمبر میں سے ہیں جن کی شان میں آیۂ تطہیر نازل ہوئی ہے۔ امام حسینؑ کی فضیلت میں آنحضرتؐ سے بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں جیسے؛ حسن و حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور حسین چراغ ہدایت و کشتی نجات ہیں۔
ختمی المرتبتؐ کی وفات کے بعد کے تیس سالوں میں آپ کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ آپ امیرالمؤمنینؑ کی خلافت کے دور میں ان کے ساتھ تھے اور اس دور کی جنگوں میں شریک رہے۔ امام حسنؑ کی امامت کے دوران آپ ان کے دست و بازو بنے اور امام حسنؑ کی معاویہ سے صلح کی تائید کی۔ امام حسن کی شہادت سے معاویہ کے مرنے تک اس عہد پر باقی رہے اور کوفہ کے بعض شیعوں نے جب آپ کو بنی امیہ کے خلاف قیام اور شیعوں کی رہبری سنبھالنے کی درخواست کی تو آپ نے انہیں معاویہ کے مرنے تک صبر کرنے کی تلقین کی۔
حسین بن علیؑ کی امامت معاویہ کی حکومت کے معاصر تھی۔ بعض تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ نے معاویہ کے بعض اقدامات پر سخت اعتراض کیا ہے، بالخصوص حجر بن عدی کے قتل پر معاویہ کو سرزنش آمیز خط لکھا اور جب یزید کو ولی عہد بنایا تو آپ نے اس کی بیعت سے انکار کیا۔ معاویہ اور بعض دوسروں کے سامنے آپ نے اس کے اس کام کی مذمت کی اور یزید کو ایک نالایق شخص قرار دیتے ہوئے خلافت کو اپنے لئے شایستہ قرار دیا۔ امام حسین کا منا میں خطبہ بھی بنی امیہ کے خلاف آپ کا سیاسی موقف سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود معاویہ تینوں خلفاء کی طرح ظاہری طور پر امام حسینؑ کا احترام کرتا تھا۔
معاویہ کی وفات کے بعد امام حسینؑ نے یزید کی بیعت کو شریعت کے خلاف قرار دیا اور بیعت نہ کرنے پر یزید کی طرف سے قتل کی دھمکی ملنے پر 28 رجب 60ھ کو مدینہ سے مکہ گئے۔ مکہ میں چار مہینے رہے اور اس دوران کوفہ والوں کی طرف سے حکومت سنبھالنے کے لیے لکھے گئے متعدد خطوط کی وجہ سے مسلم بن عقیل کو ان کی طرف بھیجا۔ مسلم بن عقیل کی طرف سے کوفہ والوں کی تائید کے بعد 8 ذی الحجہ کو کوفہ والوں کی بے وفائی اور مسلم کی شہادت کی خبر سننے سے پہلے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔
جب کوفہ کے گورنر ابن زیاد کو امام حسینؑ کے سفر کی خبر ملی تو ایک فوج ان کی جانب بھیجی اور حر بن یزید کے سپاہیوں نے جب آپ کے راستے کو روکا تو مجبور ہو کر کربلا کی جانب نکلے۔ عاشورا کے دن امام حسین اور عمر بن سعد کی فوج کے درمیان جنگ ہوئی جس میں امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب و انصار میں سے 72 آدمی شہید ہوئے اور شہادت کے بعد امام سجادؑ جو اس وقت بیمار تھے، سمیت خواتین اور بچوں کو اسیر کرکے کوفہ اور شام لے گئے۔ امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کے جنازے 11 یا 13 محرم کو بنی اسد نے کربلا میں دفن کئے۔
امام حسین کے مدینہ سے کربلا کے سفر کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں، ایک نظرئے کے مطابق آپ حکومت قائم کرنا چاہتے تھے جبکہ بعض قائل ہیں کہ یہ سفر صرف اپنی جان بچانے کی خاطر تھا۔ حسین بن علیؑ کی شہادت نے مسلمانوں خاص کر شیعوں پر بڑا اثر کیا اور بہت ساری تحریکوں کے لئے سرمشق بن گئی۔ شیعہ اپنے اماموں کی پیروی کرتے ہوئے امام حسین کی عزاداری اور ان پر گریہ کا خاص طور پر محرم و صفر کے مہینوں میں بہت اہتمام کرتے ہیں۔ معصومین کی روایات میں زیارت امام حسین کی بھی بہت تاکید ہوئی ہے اور ان کا حرم شیعوں کی زیارت گاہ ہے۔
جس طرح حسین بن علیؑ کو شیعوں کے یہاں تیسرے امام اور سید الشہدا ہونے کے ناطے بڑا مقام حاصل ہے۔ اسی طرح اہل سنت بھی پیغمبر اکرمؐ کی احادیث میں بیان کی ہوئی فضیلتوں اور یزید کے مقابلے میں استقامت اور قیام کی وجہ سے آپ کا احترام کرتے ہیں۔
آپ کے کلمات حدیث، دعا، خط، شعر اور خطبہ کی شکل میں موسوعۃ کلمات الامام الحسین اور مسند الامام الشہید نامی کتابوں میں جمع کئے گئے ہیں۔ آپ کی شخصیت اور زندگی پر بھی بہت ساری کتابیں، انسائکلوپیڈیا، مقتل اور تحلیلی تاریخ کی شکل میں لکھی گئیں ہیں۔