تشیع کے علماء نے برطانوی اقتدار میں فلسطین کا دفاع اسوقت کیا جب اسرائیل کا ناپاک وجود بھی نہیں تھا
شیعہ علمائے کرام فلسطین کے مسئلے پر اس وقت بھی ثابت قدمی سے کھڑے تھے جب انگریزوں نے فلسطینی زمینوں اور مسجدِ اقصیٰ پر قابض ہونا چاہا
تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ صیہونیوں کے خلاف مسلمانوں کومتحرک کرنے اور فلسطین کے اصولی مؤقف کا شیعہ علماء نے ہمیشہ ساتھ دیا ہے۔
عراقی اخبار "الرأي العام" نے ۱۹۳۸ء میں اس بات کا انکشاف کیا کہ آیت اللہ العظمی شیخ محمد حسین کاشف الغطاء قدس سرہ نے نجف اشرف میں فلسطین کی حمایت میں نکالی گئی ریلی سے ایک جامع خطاب کیا۔ انہوں نے فرمایا: اے میرے نوجوانو، میرے اساتذہ اور بزرگان دین آپ جانتے ہیں کہ میں پہلا عراقی ہوں جو فلسطین کی حمایت میں اٹھا ہوں۔
اپنے بڑھاپے اور شدید کمزوری کے باوجود چند سال پہلے، میں خود اس مقدس سرزمین پہ حاضر ہوا اور بڑی تعداد میں مسلم رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔
میں نے اس بات کو جان لیا کہ یہ صیہونی مسئلہ صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ عربوں اور مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ میں نے یہ حقیقت اس وقت جانی جب یہ مسئلہ ابھی آشکار نہیں ہوا تھا اور زبان زدِ عام نہیں ہوا تھا۔
آپ جانتے ہیں کہ فلسطین کا عرب ممالک میں وہی مقام ہے جو انسان کے جسم میں دل کا ہوتا ہے۔ فلسطین اردن کے مشرق، عدن اور یمن کے قریب، مصر اور حجاز کے درمیان واقع ہے۔ اس کا دفاع کرنا ہمارا فرض ہے۔
آیت اللہ العظمی شیخ محمد حسین کاشف الغطاء، (۱۲۹۴ - ۱۳۷۳ ھ) ایک بڑے شیعہ عالم تھے جو امتِ مسلمہ کے اتحاد کے داعی تھے۔ انہوں نے نجف اشرف کے حوزہ علمیہ میں اصولی اور فقہی مباحث پر تحقیق کی اور مختلف موضوعات پر تقریباً اسی سے زائد تصانیف تالیف کیں۔
انہوں نے سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا اور پہلی جنگ عظیم میں انگریزوں کا مقابلہ کیا۔
ابو علی