افغانستان طالبان حکومت میں خواتین مختلف پابندیوں کا سامنا
افغانستان میں 'یو این ویمن' کی نمائندہ ایلیسن ڈیویڈین نے کہا ہے کہ ملک پر طالبان کی حکومت میں خواتین کو عوامی زندگی سے خارج کرنے کے گھریلو اور معاشی سطح پر بدترین اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور ملک میں نفسیاتی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں
انہوں نے یہ بات طالبان کی موجودہ حکومت میں افغان خواتین اور لڑکیوں کی حالت زار پر اپنی تازہ ترین رپوٹ کے بارے میں کابل سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے نیویارک میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی
ان کا کہنا ہےکہ تین سال کے دوران طالبان کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف بے شمار احکامات، ہدایات اور بیانات جاری کیے گئے ہیں جن کا مقصد ان کے بنیادی حقوق اور ان کی خودمختاری کو سلب کرنا ہے
ایلیسن ڈیویڈین نے بتایا کہ طالبان کے احکامات نے لڑکیوں کو چھٹے درجے سے آگے تعلیم حاصل کرنے اور خواتین کو غیرسرکاری اداروں (این جی اوز) کے لیے کام کرنے سے روک دیا ہے۔
تین سال قبل دنیا نے طالبان کے برسراقتدار آنے کے وقت ایک کے بعد دوسری ہولناک صورتحال کا مشاہدہ کیا تھا۔ تین سال کے بعد اب دنیا کی توجہ غالباً کہیں اور منتقل ہو چکی ہے جبکہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے لیے ہولناک حالات ختم نہیں ہوئے اور اس کے ساتھ جبر کے خلاف ان کا عزم بھی ختم نہیں ہو سک
سیاست سے خواتین کی بے دخلی کے اثرات سماجی سطح پر بھی واضح دکھائی دیتے ہیں۔ اس رپورٹ کی تیاری میں جن خواتین سے بات کی گئی ان میں 98 فیصد نے بتایا کہ اپنے علاقوں میں ہونے والی فیصلہ سازی میں ان کا کوئی اثرورسوخ نہیں ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے۔
جو خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ اپنے گھروں میں فیصلہ سازی میں ان کا کوئی کردار ہے، ان کی تعداد میں ایک سال کے دوران تقریباً 60 فیصد تک کمی آئی ہے
ایلیسن ڈیویڈین کا کہنا تھا کہ خواتین اور لڑکیوں پر طالبان کی پابندیوں کے اثرات آنے والی نسلوں پر بھی مرتب ہوں گے۔
ادارے کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2026 تک 11 لاکھ لڑکیوں کے سکول اور ایک لاکھ کے یونیورسٹی کی تعلیم سے محروم ہونے کے نتیجے میں نوعمری میں مائیں بننے والی لڑکیوں کی تعداد میں 45 فیصد اور زچہ کی اموات میں 50 فیصد تک اضافہ ہو جائے گا