برطانیہ میں مظاہرے ،مساجد اور اسلامی مراکز پرمزید حملوں کا خدشہ
برطانیہ میں پرتشدد مظاہروں اور متعدد مساجد پر حملوں کے بعد برطانوی مسلمان خوف کا شکار ہیں۔ دوسری جانب مساجد اور اسلامی مراکز کی حفاظت کے لیے مقامی غیر مسلم افراد بھی مسلمانوں کا ساتھ دے رہے ہیں
چند روز قبل برطانیہ میں مشتعل افراد نے مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو اس وقت سے نشانہ بنانا شروع کیا تھا، جب آن لائن ایسی غیر مصدقہ افواہیں پھیل گئیں تھیں کہ گزشتہ پیر کو شمال مغربی انگلینڈ میں تین چھوٹی لڑکیوں کو چاقو سے ہلاک کرنے والا ایک نوعمر مسلمان تھا۔
مظاہرین نے منگل کی رات بھی ساؤتھ پورٹ میں واقع ایک مسجد پر پتھراؤ کیا۔ پولیس نے ان فسادات کا الزام انتہائی دائیں بازو کی 'انگلش ڈیفنس لیگ‘ پر عائد کیا ہے۔ ساؤتھ پورٹ وہی شہر ہے، جہاں 17 سالہ ملزم 'ایکسل آر‘ نے چاقو کے وار کرتے ہوئے تین بچیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس ملزم کی مکمل شناخت مخفی رکھی گئی ہے لیکن برطانوی مسلمانوں کے خلاف شروع ہونے والے مظاہرے اب تک جاری ہیں۔
جمعے کی شام بھی دائیں بازو کے مظاہرین نے اسلامو فوبک نعرے لگائے گئے اور شمال مشرقی شہر سنڈر لینڈ میں ایک مسجد کے باہر کھڑی پولیس پر بیئر کے کین اور اینٹیں پھینکیں۔
مسلم کونسل آف برطانیہ (ایم سی بی) کی خاتون سیکرٹری جنرل نے نیوز ایجنسی کو بتایا، ''مسلم کمیونٹی اس وقت گہری تشویش میں مبتلا ہے، جو کچھ انہوں نے حالیہ دنوں میں دیکھا ہے، اس سے واقعی پریشان ہے
ایک سروے کے مطابق 2021 کی مردم شماری میں انگلینڈ اور ویلز میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 6.5 فیصد تھی۔ اسکاٹ لینڈ میں مسلمانوں کی آبادی ایک لاکھ 19 ہزہار 872 ہے، جو مجموعی آبادی کا 2.2 فیصد بنتی ہے۔ برمنگھم، مانچسٹر اور بریڈ فورڈ جیسے شہروں کا شمار برطانیہ کے ان علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے