خانقاہ معلی منٹھوکھا : عراقی مبلغ سید علی ہمدانی (قدس سرہ) کی برکات
چودہویں صدی کے آواخر میں عراقی مبلغ سید علی ہمدانی (قدس سرہ) کی جدوجہد سے ہمالیہ میں اسلام کا نور پھیلنا شروع ہو ا
انکے بعد میر شمس الدین عراقی (علیہ رحمہ )نے اس شمع کو بلتستان کے کونے کونے تک پھلایا آپ نے تمام بت خانوں کو ویران کر کے ان کی جگہ مساجد تعمیر کراوایا اسی وجہ سے انہیں بت شکن کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا
آپ کے ساتھ اس مشن میں سادات علماء کی ایک گروہ نے عراق سے ایران پھر کشمیر اور کشمیر سے بلتستان کا رختہ سفر باندھ لی ۔یوں پورے گلگیت بلتستان پوا خطہ مشرف بہ اسلام ہوئے فارسی زبان کے لفظ خانہ گاہ کا معرب ہے گ کو ق میں بدل کر مزید تصرف کیا گیا ہے اوراردو میں عربی سے ماخوذ ہے جمع خانقاہیں
سکردو سے 60 کلو میٹر کے فاصلہ پر ضلع کھرمنگ واقع وادی منٹھوکھا ، یوں تو ایک سیاحتی مقام کی حیثیت سے جانا جاتا ہے تا ہم منٹھوکھا کو مذہبی اعتبار سے بھی ایک نمایاں مقام حاصل ہے
خانقاہ معلی منٹھوکھا تقریبا 400 سو سال پرانی ہے یہ خانقاہ لکڑی اور مٹی سے بنی ہیں اس میں ایرانی ،تبتی اورمغل ادوار کے طرز تعمیر کے نمونے شامل ہیں یہ خانقاہ ضلع کھرمنگ کی سب سے بڑی خانقاہ ہے جسمیں تقریبا 2000 کے لگ بھگ لوگ سما سکتے ہیں۔ آدمی اس کی طرز تعمیر کو دیکھ کر فن تعمیر کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ علاقے کے لوگ علماء کرام اور سادات عظام سے احکام دین حاصل کرنے کے لئے یہاں جمع ہوتے تھے اور ایک عرصہ تک نماز جمعہ بھی اس خانقاہ میں اداء ہوتی رہی ۔
واضح رہیے کہ خانقاہ معلی منٹھوکھا غاسنگ تا ھلال آباد کے بالکل درمیان میں واقع ہے سردیوں میں لوگ اس خانقاہ سے متصل مسجد کو عبادت کے لئے اور خانقاہ کو گرمیوں میں استعمال کرتے ہے اس لئے سارا سال یہاں نماز جماعت قائم رہتی ہے اور دعا و مناجات کا روح پرور سلسلہ جاری رہتا ہے۔
اس لئے مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ فرماتے ہے کہ یقینا اس مسجد و خانقاہ کی بنیاد کسی تہجد گزار شخصیت نے رکھی ہے کیونکہ یہاں اذان صبح سے پہلے تہجد گزاروں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوجاتی ہے۔ اور باقاعدہ طور پر اذان صبح سے پہلے نماز شب لے لئے کوئی دعا یا صلواۃ پڑھ کر لوگوں کو جگایا جاتا ہے (یہ شاید بلتستان کے کسی اور جگہ پر نہ ہو) اس آثار قدیمہ کو بچانے کے لئے مقامی لوگوں نے تقریبا آج سے 50 سال پہلے پہاڑ سے ایک خاص قسم کی مٹی کو لا کر خانقاہ کی دیواروں کو رنگا ہے، جو اب تک باقی ہے تاہم ابھی مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی خصوصی نگرانی کی وجہ سے یہ خانقاہ اب بھی اپنے حسن و جمال کو باقی رکھنے میں کامیاب رہی ہے آپ ہی کے حکم سے چھت سے وزن کو کم کرنے کے لئے مٹی کو نکال کر شیٹ لگائی ہے اور حال ہی میں دوبارہ مرمت کر کے قدیم حالت میں محظوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان تمام کاموں میں جوانان منٹھوکھا کا کردار قابل تعریف اور ان کا جذبہ قابل دید رہا ہے۔
خدا وند متعال سے دعا ہے کہ یہ خوبصورت اور تاریخی جگہ اسی طرح علم و معرفت پھیلانے کے مقام کی حیثیت سے تا دیر قائم رہے اور علاقے کو لوگوں کو اس سے کما حقہ استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے حاصل کرے