محرم الحرام اور ہماری ذمہ داریاں
محرم آتا ہے اور ہر سال ہمارے شعور کو جھنجھوڑ دیتا ہے،ایک صدا دل کی دیواروں سے ٹکراتی ہے، اور زبان پر بے اختیار یہ جملہ آتا ہے یا حسینؑ!یہ فقط ایک پکار نہیں، یہ ایک تعلق ہے، یہ ایک نسبت ہے، یہ ایک ذمہ داری ہے۔ ہم اگر امام حسینؑ کے عزادار ہیں تو یہ صرف آنسو بہانے کا رشتہ نہیں، بلکہ سچ کو اپنانے اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی بیعت ہے
رسول خدا ﷺ نے فرمایا: حسین منی وانا من الحسین احب اللہ من احب حسینا
ترجمہ : حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ اس سے محبت کرتا ہے جو حسینؑ سے محبت کرے یہ حدیث فقط ایک نسبی تعلق کی وضاحت نہیں، بلکہ ایک روحانی اور الہی ہدف کا اعلان ہے۔ حسینؑ نبیؐ کے دین کی روح ہیں اور ان کا قیام، دین محمدؐ کی بقا کی تحریک ہے، اسی وحدت کو امام حسینؑ نے مدینہ سے خروج کے وقت یوں بیان فرمایا: میں کسی شر، فساد، یا ظلم و زیادتی کی خاطر خروج نہیں کر رہا بلکہ میں اپنے نانا اور والد علیؑ کی سیرت پر چلتے ہوئے امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں۔ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ارادہ رکھتا ہوں
یہ جملہ امام حسینؑ کے قیام کی پوری روح کو عیاں کرتا ہے: یعنی یہ تحریک ذاتی انتقام یا اقتدار کے لیے نہیں، بلکہ دین کو بگاڑ سے بچانے، اور امت کو غفلت سے بیدار کرنے کی تحریک ہے۔
امام حسینؑ نے خود اپنے بارے میں فرمایا: انا قتیل العبرہ لا یذکرنی مومن الا بکی
ترجمہ : میں وہ شہید ہوں جس پر آنسو بہائے جاتے ہیں، مجھے کوئی مؤمن یاد نہیں کرتا مگر کہ وہ رو پڑتا ہے
یہ گریہ فقط جذباتی عمل نہیں بلکہ ایمانی علامت ہے۔ آنسو وہ زبان ہے جو دل کی معرفت کو ظاہر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: مامن احد قال فی الحسین شعرا فبکی و ابکی بہ الا اوجب اللہ لہ الجنہ و غفرلہ
ترجمہ :جو کوئی حسینؑ کے بارے میں شعر کہے اور خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رلائے، اللہ اس کے لیے جنت واجب کر دیتا ہے اور اس کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے
اور صرف یہی نہیں، امام صادقؑ نے اپنے ماننے والوں کی پہچان ہی یہی بتائی: انما شیعتنا من فرح لفرحنا وحزن لحزننا
ترجمہ :ہمارے شیعہ وہ ہیں جو ہماری خوشی میں خوش اور ہمارے غم میں غمگین ہوتے ہیں
یہ تمام احادیث اس بات کا اعلان ہیں کہ امام حسینؑ کا غم منانا، ان پر رونا، اور ان کے ذکر کو زندہ رکھنا محض روایتی عمل نہیں بلکہ ایمانی شعور کی ایک زندہ علامت ہے۔ لیکن یہ سب اس وقت تک معنی رکھتا ہے جب یہ اعمال ہمیں حسینؑ کے مشن کی طرف لے جائیں، ہمیں اصلاحِ نفس، باطل کے خلاف بغاوت، اور قیامِ حق کی راہ پر کھڑا کریں۔
محرم آتا ہے تو ہم مجلسوں میں شریک ہوتے ہیں، سینہ زنی کرتے ہیں، ماتم کرتے ہیں، نوحے سنتے ہیں، اور گریہ کرتے ہیں۔ یہ سب درست ہے اور سنتِ معصومینؑ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ آنسو ہمیں حسینی بناتے ہیں یا صرف مجلسوں کے سامع بنا؟ کیا ہمارا ماتم، ہمارا گریہ، ہمارے عمل میں بھی حسینؑ کے کردار کو جنم دیتا ہے؟ اگر ہم حسینؑ کو چاہتے ہیں تو ہمیں ان جیسا بننے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ ہمیں وہ سچائی، جرات، قربانی، دیانت، اور غیرت اپنانی ہوگی جو حسینؑ کا طرۂ امتیاز تھی۔
محرم الحرام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ امام حسینؑ نے ہمیں ایک سبق دیا تھا: ظلم کے خلاف قیام کرو، چاہے تم تنہا ہی کیوں نہ ہو۔ حق پر ڈٹے رہو، چاہے تمہارا سر نیزے پر ہو۔ اور دین کے لیے سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ پیدا کرو، کیونکہ دین فقط الفاظ یا شعار کا نام نہیں، بلکہ عمل اور اخلاص کا تقاضا کرتا ہے۔
آج کے دور میں ہماری ذمہ داری صرف یہ نہیں کہ ہم مجالس میں شریک ہوں یا جلوسوں کا حصہ بنیں، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ ہم امام حسینؑ کے مقصد کو سمجھیں، اور اپنے معاشرے میں اصلاح کی تحریک بنیں۔ اگر ہمارے ادارے، ہماری معیشت، ہماری سیاست، ہمارا میڈیا اور ہماری تربیت حسینی اصولوں سے خالی ہے تو یہ صرف ماتم کرنے سے ٹھیک نہیں ہو گا، بلکہ سیرتِ حسینی کو اپنانا ہو گا۔
ہمیں اپنے بچوں کو صرف عزاداری کے رسومات نہیں، اس کے مقاصد بھی سکھانے ہوں گے۔ نوجوانوں کو صرف گریہ کرنا نہیں، حق کے لیے جینا اور باطل سے ٹکرانا سکھانا ہو گا۔ محرم کا مہینہ ہمیں فقط پرسہ دینے کے لیے نہیں آیا، یہ ہمیں جھنجھوڑنے، جگانے، اور ہمارے ایمان کا امتحان لینے کے لیے آیا ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم خود سے سوال کریں: ہم امام حسینؑ کے عزادار ہیں، لیکن کیا ہم ان کے مشن کے وفادار بھی ہیں؟ ہم ان پر روتے ہیں، لیکن کیا ہم ان کے راستے پر بھی چلتے ہیں؟ ہم ان کا غم مناتے ہیں، لیکن کیا ہم ان کی سیرت کو اپناتے ہیں؟ اگر ان سوالات کے جوابات "ہاں" میں نہیں، تو پھر محرم فقط ایک سالانہ رسم بن کر رہ جائے گا، اور ہم وہ حسینی نہ بن سکیں گے جن پر امام فخر کریں۔
پس، آئیے! ہم عہد کریں کہ محرم ہمارے لیے فقط آنکھوں کا آنسو نہ ہو، بلکہ دل کی بیداری ہو، عقل کی روشنی ہو، عمل کی تبدیلی ہو، اور امت کی اصلاح کا عزم ہو۔ کیونکہ حسینؑ قیام کرنے والوں کے امام ہیں۔ وہ ہمیں صرف رلانے نہیں، جگانے آئے تھے۔
یہ کالم ہر اُس دل کے لیے ہے جو امام حسینؑ سے محبت رکھتا ہے، اور ہر اُس ذہن کے لیے جو یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ امام کا غم منانا کیا واقعی کافی ہے؟ یا اس غم کو شعور، کردار اور اقدام میں ڈھالنا بھی ضروری ہے