امارات میں عراق کی طبی کانفرنس میں حرم امام حسین علیہ السلام کے مرکز ہادی کی اہم شرکت، عالمی سطح پر تعاون کی نئی راہیں بابل: مقام امام جعفر صادق علیہ السلام پر جدید سیکیورٹی کیمروں کی تنصیب مکمل شہادتِ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی مناسبت سے حرمِ امام حسین علیہ السلام کے زیر اہتمام کاظمین میں فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد بنی ہاشم کے راہب کو سلام شہادت امام موسی کاظم علیہ السلام کی مناسبت سے کاظمین میں تابوت برآمد 5 ہزار عراقی طلباء کے لیے وزیراعظم کا تاریخی اسکالرشپ پروگرام امام مہدی (عج) فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام امام موسیٰ کاظم (ع) کی شہادت کے موقع پر چوتھے ثقافتی موکب کا کامیاب انعقاد کربلا میں نہج البلاغہ کے علوم کا نیا باب: الزہراء یونیورسٹی برائے خواتین میں شعبہ نہج البلاغہ کا افتتاح وزارت داخلہ: امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی یوم شہادت پر سخت سیکیورٹی انتظامات کا اعلان اقلیم کردستان کے زائرین کا کربلا مقدسہ میں پرتپاک استقبال

سيدہ زينب عليہا السلام شریکة الحسين ع

2022-02-17 09:33

اہل بيت اطهار عليهم السلام وہ مقدس ہستياں ہيں جنہوں نے خاتم النبيين محمد مصطفيٰ ﷺ سے براہ راست فيض حاصل کيا اور تعليمات محمدي اور راہ حق کو صحيح معنوں ميں انسانيت تک پہنچايا اور يہ  ايسا بےمثال اور باکمال خاندان ہے کہ جس کي نظير اس کائنات ميں ملنا محال ہے اور اس  بابرکت خاندان عصمت و طهارت نے ہميشہ حق کو سربلند رکھا اور باطل کو سرنگوں کرديا يہاں تک کہ رہتي دنيا تک دين اسلام کے ليے جو بے نظير قرباني اهل بيت اطهار عليهم السلام نے دي اسے ہميشہ ياد رکھا جائے گا ۔

انهي قربانيوں ميں سے ايک لا ثاني قرباني کربلا کي قرباني ہے اور کربلا کو تا قيام قيامت زندہ و جاويد رکھنے والي ہستي حيدر کرار اور سيدہ نساء العالمين کي بيٹي اور حسنين شريفين عليهم السلام کي بہن ہيں  کہ جن کا نام زينب بنت علي عليهما السلام ہے۔ جس کے معنيٰ : باپ کي زينت کے ہيں اور يہ اسم مبارک سرور کائنات صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم نے رکھا ۔

سيدہ زينب سلام اللہ عليها کو مختلف القاب سے ياد کيا جاتا ہے ان ميں سے چند ايک يہ ہيں:

 عالمہ غير معلمہ ، عقيلہ بنى ہاشم، شريکة الحسين اور ثاني زهرا وغيرہ۔

 يہ القاب کوئي عام القاب نہيں ہيں بلکہ ان ميں سے ہر ايک لقب اپنے معني کے ساتھ سيدہ سلام اللہ عليها کي عزت و عظمت کو سلام پيش کر رہا ہے ۔

سيدہ زينب سلام اللہ عليها کا ايک لقب شريکة الحسين ہے يعني بہن اپنے بھائي کي حصہ دار اور شريک ۔

 جب امام حسين عليہ السلام نے اپنے نانا کے دين اسلام کي حفاظت کے ليے مدينہ کو الوداع کيا تو بهن بھائي کے ساتھ ساتھ رہي يہاں تک کہ کربلا کا معرکہ پيش آيا اور بهن نے اپنے بھائي کے مقاصد اور تعليمات کو اپنے خطبوں کے ذريعے ہر جگہ پہنچانے کي کوشش فرمائي جس کا نتيجہ يہ نکلا کہ دشمن کي تمام تدبيريں خاک ميں مل گئيں اور اسلام ہميشہ کے ليے زندہ و جاويد ہوگيا۔

سيدہ زينب سلام اللہ عليها بظاہر تلوار ليکر ميدان کارزار ميں نہيں گئيں ليکن جب تاريخ پڑھنے والا تاريخ کربلا کي ورق گرداني کرے گا تو اسے کربلا کا ہر ورق با آواز بلند کہے گا کہ مجھے زندہ و جاويد رکھنے والے خاتون کوئي عام خاتون نہيں ہيں بلکہ شريکة الحسين عليها السلام ہيں ۔

سيدہ زينب بنت علي عليہما السلام کس طرح شريکة الحسين ہيں  يہاں پر ايک دو  پہلو کي طرف اجمالي نظر ڈالتے ہيں:

باطل کے سامنے کلمہ حق :

باطل کا مقابلہ وہي کرسکتا ہے جس کے اندر حق گوئي اور صداقت مجسم ہو اور ظالم کي آنکھوں ميں آنکھيں ڈال کے کلمہ حق کو بلند کرے جس وقت امام حسين عليہ السلام سے بيعت کا مطالبہ کيا گيا تو اس وقت امام حسين عليہ السلام نے دو ٹوک الفاظ ميں کہہ ديا تھا کہ مجھ جيسا يزيد جيسي کي بيعت نہيں کرے گا اور اسي طرح امام حسين عليہ السلام نے ہر جگہ پر اپنے خطبوں کے ذريعے کلمہ حق کو بلند فرمايا اور يہاں تک کہ اسي راہ ميں آپ ؑ کو اپنے اعوان و انصار کے ساتھ کربلا کي تپتي ريت پر بھوکا اور پياسا شہيد کر ديا گيا ۔

اور يہي جذبہ اور جرات سيدہ زينب شريکة الحسين سلام اللہ عليها کو اللہ تعاليٰ نے عطا فرمائي ۔اپنے نانا رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  ، اپنے بابا علي المرتضي عليہ السلام ، اپني ماں سيدہ فاطمہ زهرا سلام الله عليهم اور اپنے بھائيوں حسنين شريفين عليهما السلام  کے محاسن  اور اخلاق کے پيکر نے قيام امام حسين عليہ السلام کے مقصد کو آگے بڑھانے کے ليے فصيح و بليغ خطبوں کے ذريعے دشمن کے تمام منصبوں کو خاک ميں ملا ديا ۔ 

انهي خطبوں ميں سے ايک خطبہ جس کو شيخ صدوق نے بزرگان بني هاشم سے اور دوسرے لوگوں سے روايت کيا ہے کہ جب امام زين العابدين عليہ السلام اهل بيت اطهار عليهم السلام کے ساتھ دربار يزيد ميں داخل ہوئے تو امام حسين عليہ السلام کے سر مبارک کو ايک طشت ميں لايا گيا تو يزيد نے سر مبارک کي بےحرمتي کي اور کچھ اشعار پڑھے ۔

جب سيدہ سلام الله عليها نے يہ منظر ديکھا تو غمگين آواز ميں دکھي دل کے ساتھ صدا بلند فرمائي:

یا حسیناہ ! یا حبیب رسول اللہ ، يابن مكة و منى يابن فاطمة الزهراء سيدة النساء ، يابن محمد المصطفى ،

اے حسينؑ ، اے محبوب رسولؐ خدا ،اے مکہ و مني کے فرزند ، اے فاطمہؑ سيدہ نساء العالمين کے بيٹے اے فرزندِ محمد مصطفيٰ ﷺ ۔

اس کے بعد سيدہ سلام اللہ عليها نے گريہ کيا اور کھڑے ہو کر ايک خطبہ ارشاد فرمايا جس کي ابتدا اللہ تعاليٰ کي حمد و ثناء اور بارگاہ رسالت ميں درود و سلام سے کرنے کے بعد ارشاد فرمايا :

 اللہ تعاليٰ نے سچ فرمايا ہے کہ: ثُمَّ كَانَ عَاقِبَۃَ الَّذِيْنَ اَسَاۗءُوا السُّوْۗآٰى اَنْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ وَكَانُوْا بِہَا يَسْتَہْزِءُوْن

ترجمہ : پھر جنہوں نے برا کيا ان کا انجام بھي برا ہوا کيونکہ انہوں نے اللہ کي نشانيوں کي تکذيب کي تھي اور وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے   

پھر سيده سلام الله عليها نے ارشاد فرمايا :

 اَظَنَنْتَ يا يَزِيدُ حَيْثُ اَخَذْتَ عَلَيْنا اَقْطارَ الاَْرْضِ و ضيقت علينا َآفاقَ السَّماءِ، فَاَصْبَحْنا لك فى اسار نُساقُ إليك سوقا فى قطار و انت علينا ذو اقتدار  اَنَّ بِنا عَلَى اللهِ هَواناً، وَعليك منه کَرامَهً و امتناناً وَاَنَّ ذلِکَ لِعِظَمِ خَطَرِکَ و جلالة قدرك فَشَمَخْتَ بِاَنْفِکَ، وَنَظَرْتَ فِي عِطْفِکَ تضرب اصدريك فرحا و تنفض مذرويك مرحا حِينَ رَاَيْتَ الدُّنْيا لَکَ مُسْتَوْسةٌ وَالاُْمُورَ لك مُتَّسِقَهٌ وَحِينَ صَفى لَکَ مُلْکُنا و خلص لك َسُلْطانُنا، فَمَهْلاً مَهْلاً، و لا تطش جهلا اَنَسِيتَ قَوْلَ اللهِ عَزَّوَجَلَّ: (وَ لاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ کَفَرُوا اَنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ خَيْرٌ لاِّنْفُسِهِمْ اِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا اِثْماً وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ(

 ۔ اے يزيد! کيا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمين کے گوشے اور آسمان کے کنارے تنگ کر دئيے ہيں اور آلِ رسولؑ کو رسيوں اور زنجيروں ميں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کي بارگاہ ميں سرفراز هوا اور ہم رسوا ہوئے ہيں؟۔ کيا تيرے خيال ميں ہم مظلوم ہو کر ذليل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟۔ کيا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کي بارگاہ ميں تجھے شان و مقام حاصل ہو گيا ہے؟۔ آج تو اپني ظاہري فتح کي خوشي ميں سرمست ہے ، مسرت و شادماني سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے ۔ اور زمامداري[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشي و سرور کا جشن منانے ميں مشغول ہے ۔ اپني غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کي سانس لے ۔ کيا تو نے خدا کا يہ فرمان بھلا ديا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے يہ خيال نہ کريں کہ ہم نے انہيں جو مہلت دي ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے بلکہ ہم نے انہيں اس لئے ڈھيل دے رکھي ہے کہ جي بھر کر اپنے گناہوں ميں اضافہ کر ليں  اور ان کے لئے خوفناک عذاب معين کيا جا چکا ہے ۔ حوالہ ( زينب الکبري عليها السلام من المهد الي اللحد 395 )(يہ خطبہ طويل ہے يہ حصہ اس خطبہ کي ابتدا ہے )

يہ سيدہ سلام اللہ عليها کے جرأت مندانہ خطبات تھے جنہوں نے عالم اسلام اور انسانيت کے ليے يزيد کے مکروہ چہرے سے نقاب ہٹا ديا اور يزيد اور يزيديت ہميشہ کےلئے لعنت کے حقدار ٹھہرے اور باطل کا دوسرا نام يزيد اور يزيديت پڑ گيا ۔

پيکر تسليم و رضا اور خوشنودي خدا

اهل بيت اطهارؑ کا ہر عمل خدا کي رضا کے ليے ہوتا ہے چاہے بستر رسول اللہ ﷺ پہ سونا ہو يا يتيم و مسکين و اسير کو کھانا کھلانا ہو اور گواہي ميں سورہ دهر کي ابتدائي آيات نازل ہوتي ہيں ۔

رضا اور خوشنودي خدا ہي تھي کہ امام حسين عليہ السلام کا آخري وقت تھا تو اس وقت بھي يہي الفاظ زبان پر تھے کہ رضا بقضائہ و تسليما لامرہ ۔ (ميں تيري رضا پہ راضي ہوں اور تيرے امر کے سامنے تسليم خم ہوں ۔

اور يہي تسليم و رضا اور خوشنودي خدا شريکةالحسين عليها السلام  ميں اس طرح تھي کہ جس وقت اپنے بھائي کي لاش پہ آئي تو کہا:

 اللهم تقبل منا هذا القربان اے ميرے اللہ يہ ہماري  قرباني قبول فرما ۔

 اور اسي طرح اپنے عزيز و اقارب کي شهادت پر صبر و رضا کا پيکر بن کر بارگاہ حق ميں شکر کرتے ہوئے نظر آتي ہيں ۔

ضمير کي بيداري :

کربلا کے واقعے کے بعد سيدہ زينب سلام اللہ عليها مردہ ضميروں ميں روح پھونکنے کے ليے اور تا قيام قيامت سوئے ہوئے ضميروں کو بيدار کرنے کے ليے اور يزيد اور يزيديت کو آشکار کرنے کے ليے جہاں بھي موقعہ ملتا اپنے فصيح اور بليغ خطبوں کے ذريعے ضميروں کو جھنجھوڑتيں ۔

 يہي سبب ہے کہ اس کے بعد کسي يزيد صفت ميں يہ جرأت پيدا نہيں ہوئي کہ اهل بيت اطهار عليهم السلام سے بيعت کا مطالبہ کر سکے ۔

آج کي خواتين کے ليے جس طرح سيدہ فاطمہ زهراء سلام اللہ عليها نمونہ عمل ہيں اسي طرح خاتون جنت کي بيٹي سيدہ زينب سلام اللہ عليها ہر حوالے سے ايک مکمل  ضابطہ حيات اور اسوہ حسنہ ہيں کہ کس طرح اپنے پردے کي حفاظت کرني ہے ، کس طرح ظالم کا مقابلہ کرنا ہے ، کس طرح خوشنودي خدا کو حاصل کيا جا سکتا ہے اور کس طرح خدائي نظام حيات کو لوگوں تک پہنچايا جاسکتا ہے اور کس طرح اپني حيا کي چادر کي حفاظت کي جائے۔اور کس طرح اپنے بچوں کي تربيت کي جائے ، اور زمانے ميں درپيش مسائل سے کيسے نمٹا جائے  اور اسي طرح معاشرے کو ظالم حکمرانوں سے کيسے نجات دلائي جائے ۔

 ان تمام مسائل کا حل صرف اور صرف ايک ہي بات ميں پوشيدہ ہے کہ سيدة نساء العالمين کي بيٹي شريکة الحسين بنت على عليهما السلام کي حيات طيبہ پر عمل کيا جائے اور يہ عمل ہميں دنيا اور آخرت ميں کامياب کرے گا۔

العودة إلى الأعلى