خطبہِ فدک کی اسناد کا تحقیقی جائزہ(حصہ دوم)

خطبہ فدک کے جعلی ہونے پر دوسری دلیل یہ دعویٰ محض ایک ذاتی یا خیالی تصور نہیں ہے، کیونکہ بعض مؤرخین نے قواعد و ضوابط کے تحت اسے تیسری صدی ہجری سے ہی جعلی قرار دینا شروع کر دیا تھا

یہ دعویٰ کئی اعتبار سے قابل مناقشہ ہے

اوّلا: اس روایت کی سند ناقص ہے، کیونکہ ’’عبدالعزیز بن عبدالملک‘‘ کے بارے میں کوئی معتبر توثیق موجود نہیں ،علمِ رجال اور کتبِ تراجم میں اس کا کوئی قابلِ اعتماد ذکر نہیں ملتا۔ لہٰذا وہ مجہول الحال ہے، جس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا

ثانیا: اگر بالفرض اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی کوئی واضح ثبوت نہیں کہ ابوالعیناء کے الفاظ ’’حدیثِ فدک‘‘ سے مراد خطبہ فدکیہ ہی ہو۔ ان کا بیان مبہم ہے، اور اس کو معروف خطبہ پر منطبق کرنے کے لیے علیحدہ دلیل درکار ہے

 اس لیے کہ خود ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب لسان الميزان میں یہ بات لکھی ہے کہ انہیں معلوم نہیں کہ ’’حدیث فدک‘‘ سے کیا مراد تھی۔ وہ لکھتے ہیں( ما علمت ما أراد بحديث فدك) لسان الميزان ٣٥٦/٤

ترجمہ:میں نے نہیں جانا کہ ان کے ’حدیث فدک‘ سے کیا مطلب تھا۔

ثالثا:عام طور پر جو شخص کوئی جھوٹی بات یا روایت گھڑتا ہے، اس کا کوئی محرک ضرور ہوتا ہے: یا تو وہ اپنے مذہب کی تائید چاہتا ہے، یا حکومتی دباؤ میں ہوتا ہے، یا دین و اہلِ دین کے خلاف سازش کرنا چاہتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ابوالعیناء کے لیے ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ نہ شیعہ تھے، نہ ان میں اہلِ بیتؑ سے کوئی خاص عقیدت پائی جاتی تھی۔ پھر ان کے شریک جاحظ کا حال اس سے بھی بڑھ کر معروف ہے ، وہ تو ناصبی تھا اور ’’الرسالۃ العثمانیۃ‘‘ میں اس نے امیرالمؤمنینؑ کے فضائل کا انکار کیا۔

تو کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے دو افراد مل کر ایک ایسا خطبہ تیار کریں جو فصاحت و بلاغت میں بے مثال ہو اور اہلِ بیتؑ کے حق میں سب سے مضبوط دلیل بن جائے؟ ظاہر ہے، اس کے کوئی قرائن نہیں۔

رابعا: روایت کے مطابق بغداد کے تمام محدثین نے یہ کلام قبول کر لیا، سوائے ایک کے۔ سوال یہ ہے کہ وہ محدثین کیسے ایسے شخص کی بات پر ایمان لے آئے جس کی کوئی علمی ساکھ نہ تھی؟ اگر ایسا ہوا تو یہ ان سب کی علمی ساکھ پر بھی سوال اٹھاتا ہے، اور پھر ان کی باقی روایات پر بھی اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔

خامسا:روایت میں جس ’’ابن شبیبہ علوی‘‘ کا ذکر ہے، اس کے متعلق تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابو العیناء کا ہم عصر ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

 کیونکہ خطيب بغدادی کے مطابق وہ محمد بن الحسین بن علی بن الحسین بن زید بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب تھے، جنہیں ’’ابن الشبیہ العلوی‘‘ کہا جاتا تھا(تاريخ بغداد ٢٤٦/٢) ان سے روایت کرنے والے قاضی تنوخی کی پیدائش ۳۲۷ھ میں ہوئی، جبکہ ابو العیناء ۲۸۳ھ میں وفات پا گئے۔.

لہٰذا دونوں کا ایک زمانے میں ہونا ہی ممکن نہیں، اور اس طرح یہ ساری کہانی منہدم ہو جاتی ہے۔

سادسا: اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ یہ خطبہ ان کے سامنے پیش ہوا اور انہوں نے کہا کہ ’’آغاز و انجام میں فرق ہے‘‘، تو یہ بات حقیقت کے خلاف ہے۔

کیونکہ خطبہ فدکیہ ایک ہی فکری تسلسل میں مرتب ہے، اس میں نہ الفاظ کی کمزوری پائی جاتی ہے نہ معنوی تفاوت۔ بلکہ اس کی فصاحت و بلاغت نہج البلاغہ کے خطبات اور امیرالمؤمنینؑ کی دعاؤں کی ہم سطح ہے۔

سابعا:سب سے قوی دلیل اس دعوے کے باطل ہونے پر یہ ہے کہ خلیل بن احمد فراهیدی (متوفی۱۷۰ھ) نے اپنی معروف لغت (کتاب العین )میں اس خطبے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

قال: (وفي الحديث: جاءت فاطمة إلى أبي بكر في لُمَيمْةٍ من حَفَدها ونساء قَوْمها) (العين ج٨ ص٣٢٣)

اور خلیل کوئی عام شخصیت نہیں تھا اہل سنت علماء اس کے بارے مندرجہ ذیل آراء رکھتے تھے

1-(تهذيب الكمال برقم 1667)

وقال أبو عبيد القاسم بن سلام: ما رأيت أفصح من الخليل بن أحمد.وقال يونس بن حبيب: ما رأيت أحداً أعلم من الخليل بن أحمد.

ترجمہ :ابو عبید القاسم بن سلام نے کہا: میں نے خلیل بن احمد سے زیادہ فصیح کوئی شخص نہیں دیکھا۔

اور یونس بن حبیب کہتے ہیں: میں نے خلیل بن احمد سے بڑھ کر کسی کو علم میں کامل نہیں پایا۔

یہ دونوں اقوال خلیل بن احمد کی کھلی ہوئی مدح و تزکیہ ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ علم، فضل اور فصاحت میں وہ بے نظیر تھے۔

یہ صریح مدح و تزکیہ ہےعلم، فضل اور فصاحت میں بے نظیر قرار دیا گیا۔

2 -سير أعلام النبلاء (الذهبي، ت 748ھ)

الإمام، العلامة، عبقريّ العرب، شيخ العربية… كان من أذكياء العالم.وكان الخليل ثقة، دينًا، ورعًا، عابدًا. (سير أعلام النبلاءج 7، ص 431–440)

 ترجمہ:وہ امام، علامہ، عرب کا عبقری، اور عربیت کا شیخ تھا… دنیا کے نہایت ذہین لوگوں میں سے ایک تھا

پھر لکھتے ہیں:خلیل ثقہ، دین دار، پرہیزگار اور عبادت گزار تھا۔

ذہبی جیسے سخت ناقد نےخلیل کو ثقة، دین، ورع، عابدکہایہ اعلیٰ ترین توثیق ہے۔

3 -تاريخ الإسلام (الذهبي)( “تاريخ الإسلام” حوادث 160–170ھ)

الخليل بن أحمد البصري، إمام نحاة البصرة… كان واحد زمانه عقلاً وفضلاً۔

ترجمہ: خلیل بن احمد بصری، نحویوں کے امام… اپنے زمانے میں عقل و فضل میں یکتا تھا۔

یعنی وہ اپنے زمانے میں عقل و فضل میں یکتاتھا۔

4 -طبقات الشافعية الكبرى (السبكي، ت 771ھ)

هو إمام النحو بلا مدافعة، صاحب الورع والزهد، وعدّه الأئمة من الثقات. (طبقات الشافعية الكبرى ج 1، ص 200)

ترجمہ: وہ بغیر کسی تردید کے نحو کا امام تھا، ورع اور زہد کا حامل، اور ائمہ نے اسے ثقات میں شمار کیا ہے۔

سبکی نے واضح لکھاہے کہ: الأئمة نے اسے ثقات میں شمار کیا۔

5 - الأنساب (السمعاني، ت 562ھ)

كان من سادات أهل العلم بالبصرة، مشهور بالخير والصلاح. (الأنساب :مادة: الفراهيدي)

ترجمہ: وہ بصرہ کے اہلِ علم کے سرداروں میں سے تھا، نیکی اور صلاحیت کے باعث مشہور تھا۔ یہ عظیم محدث سمعانی کی صریح توثیق ہے۔

6 - معجم الأدباء (الياقوت الحموي، ت 626ھ) (معجم الأدباء ج 11، ص 204–220)

الخليل إمامٌ لا يجارى، ومثلُه لا يُتَّهَم، وكان ذا دين وخير.

ترجمہ: خلیل ایسا امام تھا جس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، اور اس جیسا شخص موردِ تہمت نہیں ہوتا۔ وہ دین داری اور خیر کا پیکر تھا۔“لا يُتَّهَم” — یعنی اس پر تہمت کا بھی نہیں۔

7 - وفيات الأعيان (ابن خلكان، ت 681ھ)

كان الخليل أحد الأئمة الأعلام، مشهوراً بالفضل والذكاء والزهد. (وفيات الأعيان ج ، ص 244)

ترجمہ: خلیل ائمۂ اعلام میں سے ایک تھا، فضل، ذہانت اور زہد سے مشہور۔

8 — تاريخ بغداد (الخطیب البغدادی، ت 463ھ)(تاريخ بغداد ج 8، ص 65)

الخليل من أئمة العلم، مقدّم في العربية، معروف بالديانة.

ترجمہ: خلیل علم کے ائمہ میں سے تھا، عربی زبان میں مقدم اور دیانت کے ساتھ معروف تھا۔ یہ اس بات کی روشن شہادت ہے کہ خطبہ فدکیہ اس زمانے میں مشہور و معروف تھا — یعنی ابو العیناء (وفات ۲۸۳ھ) کے زمانے سے ایک صدی سے بھی پہلے۔

خلاصہ:

ان تمام دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ خطبہ فدکیہ کے جعلی ہونے کا دعویٰ محض بے بنیاد اور علمی لحاظ سے باطل ہے۔ نہ اس کی سند میں کوئی معتبر ثبوت موجود ہے، نہ قرائن اس کہانی کی تائید کرتے ہیں۔

بلکہ تاریخی شواہد ثابت کرتے ہیں کہ یہ خطبہ ابتدائی صدیوں ہی میں معروف و مشہور تھا، اور اسے حضرت فاطمہ زہراؑ کے فصیح و بلیغ کلام کے طور پر پہچانا جاتا تھا

یوں یہ الزامات محض مغالطہ اور تعصب پر مبنی ہیں، جنہیں علمی تحقیق اور تاریخ دونوں نے رد کر دیا ہے

العودة إلى الأعلى