انسانی وقار کی پامالی کے اسباب: امام علیؑ کے اقوال کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہایت عزت و شرافت کے ساتھ پیدا فرمایا ، انسان کو محض ایک مٹی کا پتلا بنا کر چھوڑ نہیں دیا بلکہ اسے اپنی روح سے سرفراز کیا، اسے عقل، فہم، اختیار اور ذمہ داری عطا کی
قرآن مجید کی آیت ولقد کرمنا بنی آدم اس بات کی گواہ ہے کہ انسان کو دوسرے مخلوقات پر شرف و فضیلت حاصل ہے۔یہ عزت، صرف جسمانی ساخت یا مادی قوت کی بنا پر نہیں بلکہ اخلاقی، روحانی اور عقلی برتری کی بنیاد پر دی گئی ہے۔ انسان کو شعور اور وجدان دیا گیا تاکہ وہ خیر و شر میں تمیز کر سکے، اپنی عزتِ نفس کی حفاظت کر سکے اور ان راہوں سے بچے جو اسے ذلت، رسوائی اور توہین کی طرف لے جائیں
مگر انسان جب اپنی فطری عظمت کو فراموش کر دیتا ہے، جب وہ دنیاوی مفادات کے پیچھے اپنی حقیقت کو قربان کر دیتا ہے، تو وہ خود اپنی توہین کا سبب بن جاتا ہے۔ وہ اعمال و صفات جو اس کی شان کے خلاف ہیں، اسے ذلیل کر دیتے ہیں۔ نہج البلاغہ میں اس مضمون کو کچھ یوں بیان کیا امام علیؑ فرماتے ہیں:ازری بنفسہ من استشعر الطمع ورضی بالذل من کشف عن ضرہ وھانت علیہ نفسہ من امر علیھا لسانہ
یہ مختصر جملے انسان کی اخلاقی پستی کے تین بڑے اسباب کو بیان کرتے ہیں: طمع، فریاد، اور زبان
سب سے پہلا سبب جسے امام نے بیان فرمایا وہ طمع ہے۔ طمع ایک ایسی باطنی بیماری ہے جو انسان کی عزت نفس کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ لالچی انسان دوسروں کی چیزوں پر نظر رکھتا ہے، اپنی ضرورتوں کو فطری حدود سے بڑھا کر لا محدود خواہشات کی فہرست بنا لیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اسے بغیر محنت کے سب کچھ مل جائے۔ جب اس کا دل دنیا کی چیزوں میں الجھ جاتا ہے، تو اس کی روحانی آزادی سلب ہو جاتی ہے۔ طمع انسان کو جھکنے پر مجبور کرتی ہے، کبھی مال و دولت کے سامنے، کبھی منصب و اقتدار کے، اور کبھی خود انسانوں کے سامنے۔ اور جب انسان جھکتا ہے، تو عزت کھو دیتا ہے
اسی حقیقت کو امام علیؑ نے ایک اور کلام میں ان الفاظ میں بیان فرمایا: الطمع رق موبد طمع دائمی غلامی ہے
ایسا شخص بظاہر آزاد ہوتا ہے، مگر درحقیقت اپنے مفاد، حرص، اور خواہشات کا اسیر ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کے فیصلوں، نظروں، اور عطاؤں کا محتاج ہوتا ہے
آپ ؑ نے فرمایا: جمال الشر الطمع ترجمہ : ساری برائیوں کی خوبصورتی طمع ہے
جب انسان طمع میں مبتلا ہو جاتا ہے، تو وہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے اپنی خواہشات پوری کرنا چاہتا ہے۔ پھر وہ جھوٹ بولتا ہے، دھوکہ دیتا ہے، دوسروں کا حق مارتا ہے، چاپلوسی کرتا ہے، اور دین و ایمان کو قربان کر دیتا ہے۔ اسی لیے امامؑ نے فرمایا:
اصل الشر الظمع ترجمہ :برائی کی جڑ ہی طمع ہے
طمع صرف برائی کا آغاز نہیں بلکہ انجام بھی خطرناک ہوتا ہے۔ امام علیؑ نے اس کا نتیجہ بھی بیان فرمایا: ثمرہ الطمع الشقاء
یعنی طمع کا پھل بدبختی ہے
جو شخص طمع کے پیچھے بھاگتا ہے، اُسے کبھی سکون، قناعت، یا وقار نصیب نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ حسرت، ندامت، اور شرمندگی کی حالت میں رہتا ہے
اسی طمع کے اثر کو امام نے ایک اور مقام پر یوں بیان فرمایا: ٖغش نفسہ من شر بہا الطمع
یعنی جس نے طمع کو پیا، اُس نے اپنی ذات سے خیانت کی
گویا طمع نہ صرف دوسروں کے ساتھ ظلم ہے بلکہ انسان کی اپنی روح کے ساتھ دھوکہ ہے۔ ایسا شخص خود اپنی عزت، خودداری اور فطری کرامت کو مٹا دیتا ہے
اس لئے امام علیؑ نے طمع کو شعار بنانے والوں کو اپنے آپ کو رسوا کرنے والا قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ طمع کے زیرِ اثر انسان خود اپنی عزت کا سودا کرتا ہے۔ وہ اپنے اصول بیچتا ہے، اپنی خودداری ختم کرتا ہے، اور دوسروں کے در پر جھکنے کو اپنی ضرورت سمجھنے لگتا ہے۔ ایسےشخص کی نہ معاشرہ عزت کرتا ہے اور نہ خود اس کا ضمیر اسے سکھ کا سانس لینے دیتا ہے
دوسرا سبب جو امامؑ نے توہین نفس کے طور پر بیان فرمایا وہ ہے انسان کا اپنے فقر، حاجت یا تکلیف کو دوسروں پر ظاہر کرنا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر واقعی کوئی ضرورت پیش آئے تو مدد مانگنا حرام ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ انسان اپنی ہر چھوٹی بڑی پریشانی، محرومی اور تنگی کو لوگوں کے سامنے پیش نہ کرے۔ اس کی شکایتیں، فریادیں، اور مظلومیت کی کہانیاں اگر مسلسل دوسروں کے سامنے رکھیں گے تو رفتہ رفتہ انسان اپنی عزت نفس کو کھو دیتا ہے
اسی وجہ سے اسلام انسان کو صبر، توکل اور قناعت کی تعلیم دیتا ہے۔ مومن کا شیوہ یہ نہیں کہ وہ ہر وقت دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے یا دل کی بات لبوں پر لائے۔ وہ اپنی تکلیفوں کو چھپا کر جیتا ہے، رب سے کہتا ہے، اس کے مخلوق سے نہیں مانگتا۔ اگر مدد مانگنی ہو تو وقار کے ساتھ، عزت نفس کو مجروح کیے بغیر، اور صرف اس حد تک کہ جس سے اصل حاجت پوری ہو جائے۔
تیسری چیز جو انسان کو ذلیل کرتی ہے وہ زبان کا بے قابو ہونا ہے۔ امام علیؑ فرماتے ہیں: "وَهَانَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهُ مَنْ أَمَّرَ عَلَيْهَا لِسَانَهُ" یعنی جس نے اپنی زبان کو اپنے اوپر حاکم بنا لیا، اس کی ذات ہلکی ہو گئی۔ زبان اگر قابو میں نہ ہو، تو بدزبانی، جھوٹ، غیبت، طعن، فحاشی اور بہت سی اخلاقی خرابیوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ ایسا انسان چاہے علم والا ہو یا عبادت گزار، اگر اس کی زبان بے قابو ہو، تو وہ اپنی عزت کھو دیتا ہے۔ وہ دوسروں کے دل توڑتا ہے، رشتے بگاڑتا ہے، اور خود کو کمزور ظاہر کرتا ہے۔
اسلام میں زبان کی حفاظت کو عبادت شمار کیا گیا ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: "جو شخص اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ضمانت دے، میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ اس فرمان میں زبان کی طاقت اور اس کے اثرات کو واضح کیا گیا ہے۔
امام علیؑ کا یہ پورا فرمان ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہر انسان کو اپنا چہرہ دیکھنا چاہیے۔ کیا ہم طمع میں مبتلا ہیں؟ کیا ہم بار بار اپنی تکلیفوں کا رونا روتے ہیں؟ کیا ہماری زبان بے قابو ہو چکی ہے؟ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی صفت ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہو، تو ہمیں فوراً بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ تینوں صفات انسان کی توقیر کو کھو دیتی ہیں اور اُسے خود اس کے ہاتھوں ذلیل کر دیتی ہیں
اسلامی معاشرے کی بنیاد عزت، وقار، صبر، قناعت اور خاموشی جیسے اعلیٰ اخلاق پر رکھی گئی ہے۔ جو افراد ان اصولوں کو اپناتے ہیں وہ صرف اپنی ہی نہیں بلکہ پوری امت کی عزت کے محافظ ہوتے ہیں۔ امام علیؑ کی تعلیمات ہمارے لیے ایک نجات کا راستہ ہیں، اگر ہم سنجیدگی سے ان پر عمل کریں تو نہ صرف اپنی شخصیت کو سنوار سکتے ہیں بلکہ معاشرے میں حقیقی اسلامی اخلاق کو بھی زندہ کر سکتے ہیں



