مباہلہ حق و باطل کا تاریخی معرکہ
تاریخ اسلام میں واقعہ مباہلہ اسلام کی حقانیت کی ایک واضح اور ناقابل تردید دلیل ہے
فمن حاجک فیہ من بعد ما جاءک من العلم فقل تعالوا ندع ابناءنا و ابناءکم و نسانا و نساکم و انفسنا و انفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنت اللہ علی الکاذبین
آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
یہ آیت تاریخ اسلام کے ایک نہایت اہم واقعے کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو واقعہ مباہلہ کے نام سے مشہور ہے اور داعی اسلام کی حقانیت کی ایک واضح اور ناقابل تردید دلیل ہے۔
مباہلہ:(ب ھ ل) کسی چیز کو دیکھ بھال کے بغیر اپنی حالت پر چھوڑ دینا۔ نفرت کرنا۔ اللہ کی رحمت سے دور اپنے حال پر چھوڑدینے کے لیے بد دعا کرنا۔ الابتہال عاجزی سے دعا کرنا۔
پس "مباہلہ" ایک قرآنی عمل ہے جس میں دو مخالف فریق اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت نازل ہو۔ یہ عمل اس وقت کیا جاتا ہے جب دلیل و منطق کے بعد بھی دوسرا فریق ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔
اسلامی تاریخ کا ایک اہم، فیصلہ کن اور عظمتِ اہلِ بیتؑ کا مظہر دن 24 ذی الحجہ ہے، جو عید مباہلہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ دن صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ اسلام کی سچائی، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقانیت اور اہلِ بیتؑ کی عظمت کا زندہ ثبوت ہے۔
مباہلہ کا پس منظر
فتح مکہ کے بعد جب اسلام تیزی سے پھیلنے لگا، نجران (موجودہ یمن) کے عیسائی علماء اور قبائل میں بے چینی پھیل گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اسلام کی دعوت دی۔ نجران کے سرداروں اور پادریوں نے ایک چودہ رکنی وفد جن میں السید اور العاقب اپنے روحانی پیشواہ ابو حاتم کی معیت میں مدینہ کا سفر کیا تاکہ حقیقت جان سکیں۔
مدینہ پہنچ کر انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مختلف سوالات کیے، جن کا آپ نے نہایت حکمت و بصیرت سے جواب دیا۔ مگر جب انہوں نے حضرت عیسیٰؑ کو بندۂ خدا ماننے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم نازل ہوا
فقل تعالو ندع ابنائنا و ابناکم و نسانا و نساکم و انفسنا و انفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنت اللہ علی الكاذبين آل عمران: 61)
ترجمہ: کہہ دیجیے آؤ! ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں، تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ؛ ہم اپنی عورتوں کو بلائیں، تم اپنی عورتوں کو بلاؤ؛ ہم اپنی جانوں کو بلائیں، تم اپنی جانوں کو بلاؤ؛ پھر اللہ سے دعا کریں کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو۔"
مباہلہ کا دن
24 ذی الحجہ کی صبح، نجران کا وفد نہایت جاہ و جلال کے ساتھ آیا تاکہ مباہلہ ہو۔ وہ تجسس میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کن افراد کو ساتھ لاتے ہیں۔ اگر آپ لشکر کے ساتھ آئیں تو ہمیں مباہلے میں فتح کی امید ہے، لیکن اگر چند مخصوص ہستیاں ساتھ ہوں تو وہ حق پر ہوں گے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نواسوں حسن و حسینؑ کا ہاتھ تھامے تشریف لائے، پیچھے اپنی بیٹی خاتون جنت فاطمہؑ، زھراء سلام اللہ علیہا اور ان کے پیچھے امیر المومنین علیؑ۔ ان پانچ ہستیوں کو چادر کے نیچے جمع فرمایا اور فرمایا: "میں دعا کروں گا، تم آمین کہنا۔
عیسائی وفد کے بزرگ پادری نے یہ مناظر دیکھ کر کہا میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ پہاڑ کو ہٹنے کا حکم دیں تو پہاڑ بھی ہٹ جائے۔ خبردار! ان سے مباہلہ نہ کرنا۔
چنانچہ انہوں نے مباہلہ سے انکار کر دیا اور جزیہ دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ اس طرح، حق و باطل کا یہ عظیم معرکہ بغیر جنگ کے جیت لیا گیا۔
یہ ان ہستیوں کے لیے بڑی فضیلت ہے جو اس مباہلے میں رسالت مآب (ص) کے ساتھ شریک تھیں۔
اگرچہ ابناءنا ، نسانا اور انفسنا میں جمع ہونے کی وجہ سے مفہوم کے اعتبار سے بہت وسعت اور بڑی گنجائش تھی کہ حضور (ص) اصحاب و انصار بلکہ خود بنی ہاشم کے بہت سے بچوں کو ابنائنا کے تحت اور جلیل القدر خواتین کو نسانا کے تحت اور بہت سی قدآور شخصیات کو انفسنا کے تحت اس تاریخ ساز مباہلے میں شریک فرما تے، لیکن ابنانا میں صرف حسنین علیہما السلام، نِسَآءَنَا میں صرف حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور انفسنا میں صرف حضرت علی علیہ السلام کو شامل فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت اسلام کا ان ہستیوں کے ساتھ ایک خاص ربط ہے اور یہی ہستیاں ارکان دین میں شامل ہیں۔
چنانچہ نجران کا وفد مباہلے سے پیچھے ہٹ گیا اور جزیہ دے کر صلح کرلی۔
اس پورے واقعہ سے درج ذیل اھم نکات سمجھ میں آتے ہیں
1. اہلِ بیتؑ کی عظمت و مقام:
صرف یہ پانچ افراد مباہلے میں شریک کیے گئے، جبکہ رسولؐ چاہیں تو اوروں کو بھی لا سکتے تھے۔ یہ ان کی دینی اور روحانی عظمت کا اظہار ہے۔
2. علیؑ کا مقام
حضرت علیؑ کو "نفسِ رسول" قرار دینا ان کے اعلیٰ ترین مرتبے کی علامت ہے
3. فاطمہؑ کو نساء میں واحد ہستی کے طور پر پیش کرنا
یہ ان کی بے نظیر روحانی بلندی کا ثبوت ہے۔
4. حسنؑ و حسینؑ کی رسالت سے نسبت انہیں "ابنائنا" کہا جانا ظاہر کرتا ہے کہ وہ صرف نواسے نہیں، رسولؐ کے روحانی بیٹے بھی ہیں۔
5. یہی صادقین ہیں، باقی جھوٹے:
قرآن نے کہا: "جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو"۔ مباہلے سے انکار، نجرانیوں کی شکست اور اسلام کی حقانیت کی دلیل بن گیا۔
حق و باطل میں تمیز صرف عقلی دلیل سے نہیں بلکہ ایمان، ایثار اور تقویٰ کے ساتھ کی جاتی ہے۔
اگر ہم سچائی کی تلاش میں ہیں تو ہمیں انہی ہستیوں کے دامن سے وابستہ ہونا ہو گا جنہیں نبیؐ نے اپنی جانوں، اولاد اور خواتین کی نمائندگی کے لیے منتخب فرمایا۔
عید مباہلہ دراصل عیدِ ولایت و اطاعتِ اہل بیتؑ ہے۔
عید مباہلہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ دین اسلام کی کامیابی اہلِ بیتؑ کے سائے میں ممکن ہے، اور جو ان کا انکار کرے وہ راہِ حق سے دور ہے۔
عید مباہلہ کیوں؟
چونکہ اس دن اسلام کی سچائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت، اور اہلِ بیتؑ کی فضیلت پر مہر ثبت ہوئی، اس لیے یہ دن اہل ایمان کے لیے عید کا دن ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ کی نصرت ہمیشہ ان کے ساتھ ہے جو سچ پر ہوتے ہیں
خلاصہ
عید مباہلہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ باطل کتنے ہی جاہ و جلال سے آ جائے، اگر سچ اہل بیتؑ کے سائے میں ہو تو وہی غالب ہوتا ہے۔ آج بھی اگر ہم دین کی اصل روح چاہتے ہیں تو ہمیں انہی ہستیوں کے دامن سے وابستہ رہنا ہو گا جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھ لے کر میدانِ مباہلہ میں آئے۔