آیت اللہ سید محمد رضا سیستانی دام ظلہ کا تعلیمی سال 1446ھ کے اختتام پر طلاب کرام سے خطاب

2025-06-03 07:01

شیخ انصاری قدس سرہ کے یومِ ولادت کی مناسبت سے اظہارِ خیال

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آئیے ہم اس تعلیمی سال کا اختتام شیخ اعظم انصاری قدس سرہ کی سیرت کے ایک گوشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کریں، کیونکہ آپ کی بابرکت ولادت قریب ہے۔ آپ کی ولادت عید غدیر کے مبارک دن، سنہ 1214ھ میں ہوئی۔ ہم اس امید کے ساتھ ان کی سیرت سے کچھ عظیم معانی اخذ کریں گے کہ ہمیں ان کے کردار و سیرت کی کچھ نہ کچھ پیروی کرنے کی توفیق حاصل ہو۔

ان کے جلیل القدر شاگرد، محقق رشتیؒ سے منقول ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے شیخ انصاری قدس سرہ دنیا سے رخصت ہوئے اور اپنا علم میرے لیے چھوڑ گئے، اپنی عقل و دانائی میرزا محمد حسن شیرازی کے لیے، اور اپنا تقویٰ و زہد اپنے ساتھ قبر میں لے گئے۔

حقیقت یہ ہے کہ شیخ انصاری قدس سرہ اس صدی کے ایک نایاب اور انمول تحفہ تھے، جنہوں نے علم، عقل اور زہد تینوں جہات میں بلند مقام حاصل کیا۔

1۔ علم

فقہ و اصول کے میدان میں ان کے علمی مقام کی سب سے بڑی دلیل ان کی تصنیفات ہیں، خصوصاً کتاب "الرسائل" اور "المکاسب"، جو گزشتہ ڈیڑھ صدی سے حوزۂ علمیہ کے اعلیٰ سطح کے نصاب میں شامل ہیں۔

اگرچہ ان کی جگہ دیگر کتابوں کو شامل کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اصول فقہ اور فقہ میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے ان دونوں کتابوں کا گہرائی سے مطالعہ، تدریس اور تحقیق ناگزیر ہے۔

شیخ انصاری قدس سرہ نے یہ بلند علمی مقام مسلسل جدوجہد اور خلوص کے ذریعے حاصل کیا۔ وہ اپنا وقت صرف علم اور عبادت میں صرف کرتے، اور زندگی کی ضروریات کے علاوہ کسی اور مشغلے میں وقت ضائع نہ کرتے۔ یہاں تک کہ اگر زیارت امام حسین علیہ السلام کے لیے کربلا بھی جاتے تو علماء و فضلاء کو ساتھ لے جاتے تاکہ سفر میں بھی علمی مذاکرہ جاری رہے۔

2۔ عقل، دانائی و حکمت

یہ ان کی شخصیت کا ایسا پہلو ہے جو حد درجہ تعجب خیز اور متاثر کن ہے۔ جب صاحب جواہر قدس سرہ نے انہیں مرجع تقلید کے لیے نامزد کیا — جو مرجعیت کی تاریخ میں ایک عظیم اور کم نظیر واقعہ ہے — تو انہوں نے علمی حوزہ کو اس وقت کے خاندانی اختلافات سے نکال کر وحدت عطا کی۔

آپ کی مرجعیت کے زمانے میں متعدد فتنہ انگیز تحریکیں، جیسے بابیت، سامنے آئیں، جن کا آپ نے اعلیٰ حکمتِ عملی سے سامنا کیا۔

ایرانی دربار اور عثمانی حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات میں بے نیازی اور عزتِ نفس نمایاں تھی۔ وہ کسی حکومتی شخصیت سے تحائف یا رقوم قبول نہیں کرتے تھے، چاہے مالی مشکلات کتنی ہی شدید کیوں نہ ہوں۔ حکومتی اہلکاروں کو ملاقات کا وقت بھی بہت محدود دیا جاتا تھا۔

مثال کے طور پر "خیرية أودة" جو انگریزوں کے زیر انتظام تھی، اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا، جب کہ دیگر حضرات نے اسے قبول کیا۔

ایسی بے شمار مثالیں ان کی دوراندیشی اور عوامی مصلحتوں پر ان کی گہری نظر کا ثبوت ہیں۔

3۔ زہد و تقویٰ

ان کی زہد و پرہیزگاری بے مثال تھی۔ اگرچہ ان کے پاس بہت سی شرعی رقوم آتی تھیں، مگر وہ انتہائی سادہ اور فقیرانہ زندگی بسر کرتے۔

زندگی کے آخری ایام میں بغداد کے کچھ تاجروں نے ذاتی مال سے انہیں کچھ سہولیات فراہم کرنے کی پیشکش کی، مگر انہوں نے انکار کرتے ہوئے فرمایامیں نے اپنی پوری زندگی فقر و فاقہ میں گذاری ہے، اور یہ گوارا نہیں کہ اپنے آخری ایام میں مالداروں میں شمار کیا جاؤں۔

جب انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی اپنے بھتیجے سے کرنا چاہی، تو بغداد کے تاجر، حاج محمد صالح کُبّہ نے شادی کے اخراجات اٹھانے کی پیشکش کی، مگر انہوں نے انکار کیا اور بیٹی کو نہایت سادگی کے ساتھ رخصت کیا۔

ایک ایرانی دولت مند نے ذاتی مکان خریدنے کے لیے انہیں رقم دی، تو انہوں نے اس رقم سے "مسجد انصاری" تعمیر کروا دی۔ جب اس تاجر نے پوچھا کہ اس رقم سے گھر کیوں نہ خریدا، تو انہوں نے فرمایا:

یہی وہ گھر ہے جو میں نے خریدا ہے۔

وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو نہ ان کے پاس کوئی ذاتی مکان تھا، نہ کوئی قابلِ ذکر ترکہ۔ ان کی وراثت صرف سترہ تومان ایرانی سکے تھے ,جو وہ قرض لے چکے تھے , اور ان کے فاتحہ کی مجلس بھی بعض خیرخواہوں کے خرچ سے منعقد ہوئی۔

ان کے تقویٰ کی ایک عجیب حکایت یہ ہے کہ کسی نے خواب میں شیطان کو کئی رنگین رسیاں لیے دیکھا۔ پوچھا:یہ کس لیے ہیں؟

کہا لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے۔ بعض تو صرف اشارے پر میرے پیچھے آ جاتے ہیں، مگر ان رسّیوں کا استعمال ان پر کرتا ہوں جن کے پیچھے ہزاروں لوگ ہوتے ہیں۔ کل رات میں نے ان رسیوں سے شیخ مرتضیٰ انصاری قدس سرہ کو باندھنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا۔

جب یہ خواب شیخ انصاری قدس سرہ کو سنایا گیا تو انہوں نے فرمایا:

"اس خبیث نے سچ کہا۔ کل رات اہلِ خانہ نے کچھ ضروری اشیاء کی خریداری کا کہا، اور میرے پاس صرف سہمِ امام علیہ السلام کی رقم تھی۔ میں نے خود کو قائل کیا کہ اسی سے خریداری کر لوں، مگر راستے ہی میں ضمیر نے ملامت کی، چنانچہ واپس آیا اور وہ رقم واپس رکھ دی۔

ایک دن ان کی والدہ نے فرمایا:آپ کے پاس اتنی رقوم آتی ہیں، پھر بھی اپنے بھائی شیخ منصور کی ضروریات پوری کیوں نہیں کرتے؟"

شیخؒ نے نہایت ادب سے عرض کیا:

یہ مال کا صندوق ہے، جو چاہیں لے لیں، لیکن قیامت کے دن اس کا حساب آپ کو دینا ہوگا۔

یہ سن کر والدہ نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔

ایک دن ان کی بیٹی نے اپنی والدہ سے کہا دوسری بچیاں قرآن پڑھنے آتی ہیں تو رنگ برنگے کھانے لاتی ہیں، اور آپ ہمیں صرف روٹی اور تھوڑی سی سبزی دیتی ہیں

اس پر شیخ انصاری قدس سرہ نے فرمایا کل سے صرف روٹی دینا، تاکہ روٹی کے ساتھ سبزی کی قدر کرے اور اس سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرے۔

یہ ان کے زہد و تقویٰ کی چند جھلکیاں ہیں۔ تاریخ میں ان جیسے بزرگوں کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔

تو پھر ہم کہاں کھڑے ہیں؟

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان عظیم ہستیوں کی سیرت سے روشنی حاصل کرنے اور ان کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

العودة إلى الأعلى