حضرت امام رضا علیہ السّلام کی سیرت اور مسںٔلہ ولی عہدی(1) تحریر:ڈاکٹر سیدوقارحیدرنقوی

2024-05-25 12:32:17

کسی بھی انسان کے کسی بھی اقدام کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ کرنے کے لیے ضروری یہ ہوتا ہے کہ دیکھا جائے کہ یہ شخص اپنے اقدام کے نتیجے میں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں؟

بطور کلی مطلوبہ اہداف کے حصول کو کامرانی تصور کیا جاتا ہے۔اگر سرسری طور سے دیکھا جائے تو ایک تجعجب خیز سوال ابھرتا ہے کہ امام رضا علیہ السّلام جیسےوہ الہی نمائدےجو عصمتوں ،طہارتوں اور رفعتوں کا کعبہ تھےکیونکر مامون جیسے ایک ظالم و جابر بادشاہ کی ولی عہدی قبول کر سکتے ہیں۔بادی النظر میں یہ واقعہ حیرت انگیز معلوم ہوتا ہے۔لیکن اگر ذرا سی گہرائی میں جاکر تھوڑا سا تأمل کیا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ امام رضا علیہ السّلام کا یہ فیصلہ اپنے وقت کی نزاکت کے پیش نظر اور اس دور کے حالات واقعات کے تناظر میں انتہائی قابل ستائش اور حکمت و دانائی کا نتیجہ تھا اس لیے کہ امام رضا علیہ السّلام ولی عہدی کی اجباری پیشکش کو نا مساعد حالات میں قبول کر کے بھی اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول میں کامیاب رہے، اگرچہ کہ ظاہری طور سےآپ کو مامون کے دربار میں بطور ولی عہد بیٹھنا پڑتا تھا اور بظاہر یہ ایک بہت عجیب بات تھی لیکن ابتدائے اسلام سے ہی کچھ ایسے غیر معمولی واقعات رونما ہوتے رہے ہیں کہ جن کے نتائج حیران کن طور پر مطلوبہ اہداف کے حصول کا باعث بنے۔مثال کے طور سےصلح حدیبیہ ہی کو دیکھ لیجیے اور اسی طرح صلح امام حسن علیہ السلام کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے اور اس سے بڑھ کر واقعہ کربلا پر غور کیا جا سکتا ہے۔ظاہرا ایک قلیل سی مقدار میں احباب و اصحاب کو لے کر کے بیابانوں میں سرگرداں رہنا اور بیعت یزید نہ قبول کرنے کی وجہ سے ایک بڑے لشکر کا مقابلہ کرتےہوئے،اپنے احباب و اصحاب کے ساتھ جام شہادت نوش کرنا ایک غیر معقول اور ورطہ حیرت میں مبتلا کر دینے والی بات معلوم ہوتی ہے لیکن اس معرکے کے نتیجے میں امام حسین علیہ السلام کو حاصل ہونے والے مطلوبہ نتائج پر نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کربلا کے فاتح حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں اس لیے کہ آپ ع کا بنیادی مقصد اساسیات اسلام کا تحفظ تھا لیکن اس دور کے حالات واقعات کے پیش نظریہ مقصد جام شہادت نوش کیے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ لہٰذا اس تاریخی واقعے کی مانندامام رضا علیہ السّلام کے ولی عہدی کو قبول کرنے کے واقعہ کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے ۔بالفاظ دیگر امام رضا علیہ السّلام کے اس اقدام کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مطلوبہ اھداف اس مدبرانہ حکمت عملی کی کامیابی کو روشن طریقے سے بیان کرتے ہیں۔اس مختصر سی تحریر میں ان چند مطلوبہ اھداف کو پیش کیا جارہا کہ جو مامون کی طرف سے ولی عہدی قبول کرنے کے نتیجے میں امام رضا علیہ السّلام کو حاصل ہوئے تھے ان اہداف کو ملاحظہ کرنے سے امام رضا علیہ السّلام کی ولی عہدی قبول کرنےکے فیصلے کی حکمت عملی کی کامیابی روز روشن کی طرح مانند ہو جاتی ہے

 (1)ولی عہدی قبول کرنے کے باوجود مامون کو اپنی تائید سے محروم رکھنا ۔

   مامون الرشید کی خواہش یہ تھی کہ اگر امام رضا علیہ السلام کو ولی عہد بنا دیا جائے گا تو اس کے نتیجے میں اس کی حکومت کو شرعی جواز حاصل ہو جائے گا لیکن امام رضا علیہ السّلام نے ولی عہدی قبول کرنے سے قبل ہی مامون کی چال کو ناکام بنا کر اس وقت عجیب و غریب صورت حال کا شکار بنا دیا جب آپ علیہ السلام نے مامون سے مخاطب ہو کر یہ ارشاد فرمایا کہ(إن كانت هذه الخلافة لك والله جعلھا لك فلا يجوز أن تخلع لباسا البسك الله وتجعله لغيرك و إن كانت الخلافة ليست لك فلا يجوز لك أن تجعل لي ما ليس لك )

عیون اخبار الرضا،ج:2،ص:138

ترجمہ :اگر یہ خلافت تمہاری ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو آپ کے لیے قرار دیا ہے تو پھر تیرے لیے جائز نہیں کہ تم اس لباس کو اتارو جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہنایا ہے اور تم یہ کسی اور کے حوالے کر دو اور اگر یہ خلافت تمہاری نہیں ہے تو تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ تم میرے لیے وہ قرار دو جو تمہارے لیے ہے ہی نہیں۔

  اس عبارت سے امام رضا علیہ السّلام نے مامون کے لیے واضح کر دیا کہ تم کسی صورت بھی لاںٔق خلافت نہیں ہو اور یہ کہ یہ تمہارا حق نہیں ہے۔امام رضا علیہ السّلام نے مامون کے لیے یہ بات روشن کر دی کہ کسی بھی صورت تمہاری خلافت کو ہماری طرف سے تائید شرعی حاصل نہیں ہو گی اور یوں مامون امام رضا علیہ السّلام کو ولی عہدی سونپ کر بھی اپنی خلافت کے لیے شرعی تائید حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔

 (2)ولی عہدی قبول کر لینے کے باوجود حکومت کے ظالمانہ اقدامات کی پشت پناہی سے محفوظ رہنا۔


اہل بیت علیہم السّلام کو اس معاشرے میں ایک تقدس اور پاکیزگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔اور آپ ہر دور کے ظالم کے خلاف برسر پیکار رہتے تھے لیکن امام رضا علیہ السّلام کو ولی عہد بنانے کے لیے مامون کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اگر امام رضا علیہ السّلام ولی عہد بن جائیں گے تو میری حکومت کی پشت پناہی کریں گے اور یوں وہ لوگوں کی نگاہوں سے گر جائیں گے لیکن امام رضا علیہ السّلام نے ولی عہدی کو بادل نخواستہ قبول کر لینے کے باوجود ایسی شرائط پیش کیں کہ جن کے نتیجے میں مامون اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہا۔ اور امام رضا علیہ السّلام کے قدموں کو کامیابی نے بوسے دیے چنانچہ امام رضا علیہ السّلام نے فرمایا:(وأنا أقبل ذلك على أني لا أولى أحداولاأعزل أحدا ولا أنقص رسما و سنة و أكون فى الأمر من بعيد مشيرا)

عیون اخبار الرضا،ج:2،ص:148

ترجمہ: میں اس ولی عہدی کو اس شرط پر قبول کرتا ہوں کہ نا تو میں کسی کو تعینات کروں اور نہ ہی کسی کو معزول کروں گا اور نہ کسی رسم و روش کو كم كروں گا،صرف دور سے ایک مشیر کی حثیت سے رہوں گا۔

گویا امام رضا علیہ السّلام نے یہ بات مامون کے لیے بہت واضح الفاظ میں بیان فرما دی کہ میں کسی بھی طرح کے سیاسی امور مملکت اور دوسرے حکومتی امور میں حصہ نہیں لوں گا اور نتیجتاً حکومت کی کسی بھی پالیسی کی حمایت نہیں کروں گا البتہ اگر کسی امر میں مجھ سے مشورہ لیا گیا تو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی طرح میں صرف مشورہ دوں گا ۔ یوں مامون اپنے اس مقصد کے حصول میں بھی ناکام رہا اور امام رضا علیہ السلام کامیاب ہوئے۔جاری ہے۔۔۔

العودة إلى الأعلى