غلو کے مقابلے کے لیے امام جعفر صادق علیہ السّلام کی حکمت عملی(3) تحریر :ڈاکٹر سید وقار حیدر نقوی

2024-05-18 12:44:47

گزشتہ دو قسطوں میں غلو کے مقابلے کے لیے امام جعفر صادق علیہ السّلام کی حکمت عملی کے چند اہم نکات کو ذکر کیا گیا تھا اور باقی ماندہ نکات کو اس مضمون کے ضمن میں حوالہ قرطاس کیاجا رہا ہے۔

(7) غالیوں کے نظریات سے بے اعتنائی برتنا۔

  امام صادق علیہ السّلام نے غلو کے مقابلے کے لیے جس حکمت عملی کواپنے شیعیوں کو تعلیم فرمایا اس میں ایک اہم نکتہ یہ بھی تھا کہ جب بھی آپ کا سامنا غالیوں سے ہو تو ان سے بے اعتنائی اختیار کی جائے اور ان کی بات پر اصلاً کان نہ دھرے جائیں اور ان کی بات پر خصوصاً عقائد کے باب میں اعتبار نہ کیا جائے۔اس لیے کہ امام جعفر صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں:(لاتأخذ شیئامما يقولون نحن حجة الله و أمناؤه على خلقه حلالنا من كتاب الله و حرامنا منه)مجلہ تراثنا،شمارہ12،ص:17,18

ترجمہ : غالی جن نظریات کے قائل ہیں ان میں سے ان سے کچھ بھی مت لو ،ہم تو خلق خدا پر اس کی حجت اور اسکے امین ہیں اور ہمارا حلال و حرام کتاب خدا سے ماخوذ ہے (یعنی ہم خود سے کچھ ایسا پیش نہیں فرماتے جو کتاب خدا کے منافی ہو) گویا امام جعفر صادق علیہ السّلام یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ غالیوں کی کسی بھی قسم کی گفتگو کو مورد اعتناء قرار نہ دیا جائے خصوصاً ان کے وہ نظریات جو اعتقادات سے متعلق ہوں۔

(8) نوجوان نسل (New Generation )کو غالیوں سے دور رکھا جائے۔

  آج کی نوجوان نسل کل کی زمہ دار قوم ہے۔نوجوان چونکہ ذرخیز ذہن اور تازہ فکر کے مالک ہوتے ہیں اس لیے جو فکر بھی ان کے ذرخیز اذہان میں کاشت کی جاتی ہے وہی فکر کسی وقت میں تن آور درخت بن کر ابھر آتی ہے۔نوجوان ذہن بالکل ایک آمادہ اور ذرخیز کھیت کی مانند ہوتا ہے جس میں جو بیج بھی بویا جائے وہ فوراً کونپل نکالتا ہے۔اسی لیے امام جعفر صادق علیہ السّلام نے بطور خاص نوجوان نسل کو غالیوں سے دور رہنے کی شدت سے تلقین فرمائی ہے آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ:(احذروا على شبابكم الغلاة لا يفسدوه‍م ،الغلاة شر خلق الله يصغرون عظمة الله و يدعون الربوبية لعبادالله)امالی شیخ طوسی ،ج:2ص:264

ترجمہ: اپنے نوجوان کے بارے میں غالیوں سے ہوشیار رہو ،کہیں وہ ان کے عقائد کو فاسد نہ کر دیں۔اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے سب سے بد ترین مخلوق غالی ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کو کم کرتے ہیں اور بندگان خدا کے لیے ربوبیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔

امام جعفر صادق علیہ السّلام نے بطور خاص نوجوان نسل کو غالیوں سے دور رکھنے کو زور ‌دیا ہے اس لیے کہ نوجوان کسی بھی نںٔی اور انحراف زدہ فکر کے لیے آسان ہدف (soft target )ہوتے ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عام طور سے عمر رسیدہ افراد کو کسی نقطہء نظر سے ہٹانا آسان نہیں ہوتا کیونکہ یہ راسخ فکر کے حامل ہوتے ہیں اور ان کے عقائد ونظریات صحیح ہوں یا غلط وہ ان پر عموما قاںٔم ہی رہتے ہیں . اس لیے نوجوان نسل کو امام جعفر صادق علیہ السّلام کی پیش کردہ حکمت عملی کے ذریعے غالیوں سے محفوظ رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

(9) غالیوں کا سماجی مقاطعہ(social boycott )

غالیوں کے شر سے محفوظ رکھنے کے لیے امام جعفر صادق علیہ السّلام اپنے اصحاب کو غالیوں سے میل جول رکھنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔امام جعفر صادق علیہ السّلام کی غلو کی تحریک کے مقابلے کے لیے اختیار کردہ حکمت عملی کے دیگر نکات میں سے یہ نکتہ اس لیے بہت اہم ہے کہ اس پر عمل پیرا ہونا نسبتاً آسان ہے کیونکہ اگر انسان کچھ نہ کر سکتا ہو تو کم از کم غالیوں سے ایک سماجی فاصلہ پیدا کر کے امام علیہ السلام کی سیرت پر عمل کر سکتا ہے۔امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی مفضل کو "ابو الخطاب"نامی غالی اور اس سے وابستہ لوگوں کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ :(يا مفضل لا تقاعدو ه‍م و لاتؤاكلوه‍م ولا تشاربوه‍م ولا تصافحوه‍م) رجال کشی،ص:525

ترجمہ: اے مفضل غالیوں کے ساتھ نہ بیٹھا کرو ،نہ کھایا پیا کرو اور نہ ہی ان سے مصافحہ کیا کرو۔


اگر کسی انسان کا غالی ہونا ثابت ہو جائے تو اس کا نجس ہونا بھی ضمناً ثابت ہو جاتا ہے اس لیے سماجی فاصلہ ایجاد کرنے کا ایک پس منظر نجاست سے محروم رہنا ہے اور اس کا دوسرا پہلو سماجی مقاطعہ کے ذریعے غالیوں کی حوصلہ شکنی کرنا بھی ہے اور اس سماجی مقاطعہ کا تیسرا زاویہ غالیوں کے عقائد ونظریات اور ان کے شر سے اجتناب کرنا ہے۔

(10) احکام شریعت پر کار بند رہ کر شیعوں اور غالیوں میں تفریق قاںٔم رکھنا۔

غالیوں کا ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ اگر امام معصوم علیہ السلام کی معرفت حاصل ہوجاۓ تو پھر احکام شریعت میں سے کسی پر بھی عمل پیرا ہونا لازم نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ غالی لوگ عام طور سے نماز،روزہ،حج اور دوسرے احکام شریعت پر عمل نہیں کرتے اور کہتےہیں کہ ولایت علیہ السّلام کے ہوتے ہوئے یہ اعمال انجام دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ ولایت و مودت پر جنت لےجانے کے لیے کافی ہیں، یہی وجہ ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السّلام بار ہا اس بات کی تاکید فرماتے تھے کہ ہمارے شیعہ تو صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو شریعت پر عمل پیراہوتے ہیں اس حقیقت کو دیگر أئمہ علیہ السلام بھی مختلف انداز میں پیش فرماتے رہے ہیں مثلا کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ(إنما شيعتنا من اطاع الله)امالی شیخ طوسی،ص:273

ترجمہ :ہمارےشیعہ تو صرف وہ ہیں جو اطاعت خدا وند کریم کرتےہے۔

اور ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے:(لا تنال ولايتنا الا بالورع )مناقب امیر المومنین لمحمد بن سلیمان الکوفی،ج:2،ص:268

ترجمہ : ہماری ولایت کو صرف تقویٰ کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔

اور امام جعفر صادق علیہ السّلام سے منقول ہے کہ :(إنما شيعة علي من عف بطنه و فرجه واشتد جهاده ورجاثوابه وخاف عقابه فإذا رأيت أولئك فأولئک شيعة جعفر)الکافی،ج،2ص:233 

ترجمہ : شیعہ علی وہ ہے جو اپنے پیٹ اور شرم گاہ کو پاک رکھتا ہے اور (راہ خدا)میں بہت زیادہ کوشش کرتا ہے اور اپنے خالق کے لیے عمل کرتا ہے اور اس سےکی توبہ کی امید لگاتا ہے اور اس کے ہی عقاب سے ڈرتا ہے اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو تو وہی شیعہ جعفر ع ہوں گے۔

العودة إلى الأعلى