جابر بن حیان اور امام جعفر صادق علیہ السلام

: قیصر عباس نجفی 2024-04-27 11:53

جابر بن حیان کی کنیت ابو عبد اللہ ہے۔اور ابو موسی بھی کہا گیا ہے۔ المعروف بالصوفی.اپنے زہد کی وجہ سے اس لقب سے ملقب ہوئے

جابر بن حیان 101 ہجری یا 117 ہجر ی کو پیدا ہوئے اور اس بات میں بہی اختلاف ہے کہ آپ شام کے علاقے حران میں پیدا ہوئے یا ایران کے شہر طوس میں۔ کچھ مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپ طوس میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد عطار تھے یعنی عطر بیچا کرتے تھے لیکن محقیقن نے یہ بھی لکھا ہے وہ دوائی بناتے اور بیچتے تھے یہی وجہ ہے کہ جابر بن حیان کا ذوق بھی انہی علوم کی طرف مائل تھا آپ کے والد کے بارے میں یہ بھی ملتا ہے کہ وہ یمن میں رہتے تھے اور بنی امیہ کے آخری زمانے میں کوفہ آگئے تھے ۔ جابر بن حیان نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی شاگردی اختیار کی چونکہ امام صادق علیہ السلام کوفہ میں دو سال سے زیادہ عرصہ رہے ہیں اور جابر بن حیان کی تجربہ گاہ کوفہ میں تھی جابر بن حیان ایک زبر دست ڈاکٹر بھی تھا جیسا کہ تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک دفعہ ھارون رشید کے وزیر پر یحیٰ بر مکی کی بیوی بیمار ہوگئی بہتر سے بہتر علاج کروانے کے بعد وہ شفا یاب نہ ہوسکی جب یحی اس کی زندگی سے مایوس ہوگیا تو جابر بن حیان کی طرف رجوع کیا تو انہوں نے داوئی کی ایک خوراک دی تو مریضہ آدھے گھنٹے سے کم وقت میں صحت یاب ہونے لگی یحیٰ یہ دیکھ کر جابر بن حیان کے پیروں پہ گر گیا تو جابر بن حیان نے اسے ایسا کرنے پر منع کر دیا اور باقی دوا بھی اسے دے دی ۔

جابر بن حیان ایک بہت زبردست کیمیا دان بھی تھے امام جعفر صادق علیہ السلام نے اسے علم کیمیا پر پانچ سو رسائل لکھوائے تھے امام علیہ السلام کی تربیت اور آپ علیہ السلام کے آگے زانوِ ادب جھکانے کی وجہ سے جابر بن حیان کو چند لقب ملے ان میں سے چند یہ ہیں۔

الاستاذ الکبیر ، شیخ الکیمائین المسلمین، ابو الکیمیاء اور یورپ میں آپ کو Gaber کا خطاب دیا گیا۔

ایک انگریز فلسفی جس کا نام بیکون ہے وہ لکھتا ہے کہ : جابر بن حیان پہلے شخص ہیں جس نے اس دنیا کو علمِ کیمیاء سکھایا پس وہ ابو الکیمیاء ہیں۔

اسی طرح بیرتیلو  اپنی کتاب کیمیاء القرون الوسطیٰ میں لکھتے ہیں کہ :جو کچھ ارسطو علم ِ منطق میں ہے جابر بن حیان وہی کچھ علم کیمیا یعنی کیمسٹری میں ہے۔

ماکس ماپر ھوف کہتے ہیں کہ یورپ میں جو علمِ کیمیاء میں ترقی آئی وہ جابر بن حیان کی وجہ سے آئی ہے۔اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ علم ِ کیمیاءکی جن اصطلاحات کو اس نے ایجاد کیا تھا وہ ہمیشہ یورپ کی مختلف زبانوں میں استعمال ہو رہی ہیں۔ آپ کی کتابوں کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا پھر لاطینی سے انگلش میں ترجمہ کیا گیا اور کچھ سائنس دانوں نے جابر بن حیان کے نظریات سمجھنے کےلئے خود عربی زبان سیکھی تھی جابر بن حیان نے 90 سال سے زیادہ زندگی گزاری ۔آپ کی وفات کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ آپ نے 195ھجری میں وفات پائی۔ آپ کی قبر کے بارے میں ایک عربی سکالر ڈاکٹر عارف تامر اپنے مقالے "الامام الصادق ملھم الکیمیاء"میں لکھتا ہے کہ 1972 میں ایرانی اخبارمیں خبر آئی تھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایران کا ایک شہر الرسنان ہے جو کہ عراق کے مشرقی باڈر پر واقعہ ہے یہاں پہاڑ ہیں تو جہاں ایرانی مزدور سڑک بنانے کےلئے کھدائی کر رہے تھے کہ انہیں ایک قدیم عمارت ملی وہاں ایک پتھر تھا جس پر یہ نقش تھا کہ یہاں جابر بن حیان کی قبر ہے ۔

ان تمام حقائق کے باوجود کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جابر بن حیان کا تاریخ میں کوئی وجود نہیں ہے اور دوسرا نعوذباللہ امام صادق علیہ السلام کو علم ِ کیمیاء کا علم نہیں تھا جیسا کہ ڈاکٹر ہاشمی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک سائنس دان جس کا نام روسکا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ :یعنی امام جعفر صادق علیہ السلام کےلئے یہ محال ہے کہ وہ ماہر کیمیاء ہوں اور اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ مدینہ میں رہنے والا شخص تھیوری یا پریکٹیکلی طور پر اس صفت کا حامل ہو۔

روسکا کے اس خیال کے ردمیں چند دوسرے سائنسدانوں ، محققین کے اقوال نقل کرتے ہیں تاکہ ان کے اس خیال کا بطلان اچھی طرح واضح ہو جائے ۔

مشہور سائنسدان ہولیمارڈ کہتا ہے کہ جابر بن حیان امام جعفر صادق علیہ السلام کا شاگرد تھا یا دوست تھا اس نے امام علیہ السلام کو اپنے لئے سند ، مددگار رہنما ، امیر اور ایسا مرجع پایا کہ جسکی صحبت سے وہ مستغنی نہیں ہوسکتا تھا ۔ جابر نے اپنے استاد کے حکم سے اسکندریہ میں رہنے والے اس فن کے ماہرین کی کتابوں کو نقل کرنا شروع کیا اور اس میں انتہائی کامیابی حاصل کی اس لئے ضروری ہے کہ اس کا نام اس فن کیمیاء کے بزرگ ماہرین کے ساتھ لیا جائے۔ (الامام الصادق ملھم الکیمیاء ص37)امام جعفر صادق ع اور ان کا عہد ص249

الاستاذ محمد صادق نشتات لکھتے ہیں کہ جابر بن حیان نے امام صادق علیہ السلام سے سن کر سینکٹروں رسائل لکھے ہیں جن میں سے 500 رسائل آج سے تین صدی قبل جرمنی میں شائع ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثر برلن اور پیرس کی لائبریریوں میں محفوظ ہیں ۔جابر کی تصنیفات کی تعداد 3900 تک پہنچی ہے ۔الدلائل المسائل ص 52

امام جعفر صادق ع اور ان کا عہد ص250اس عرب دانشور جابر بن حیان کی کتابیں لاطینی زبان میں ترجمہ کی گئی تاکہ ان تک رسائی ہو سکے اور انگریز کیمیا دان بریسٹلی نے عربی زبان سیکھی تاکہ وہ جابر بن حیان کے کارناموں کا خود مطالعہ کر سکے ۔

 اشعۃ من حیاۃ الصادق ص 36

علامہ خیر الدین زرکلی نے امام صادق علیہ السلام پر گفتگو کرنے کے بعد لکھا ہے کہ

ان کے شاگرد جابر بن حیان نے آپ کے رسائل پر مشتمل ایک کتاب ہزار صفحے کی تالیف کی اس میں امام علیہ السلام کے پانچ سو رسائل جمع ہیں ۔

ھالینڈ کا سائنس دان فانڈیک کہتا ہے جابر بن حیان عرب کا مشہور ترین کیمیا دان ہے اس نے امام صادق علیہ السلام کی شاگردی اختیار کی تھی ۔ اشعة من حیاة الصادق ص 39

یوسف یعقوب سکونی نے لکھا ہے

یہ وہ امام ہیں جو اپنے دین اور تقوے کے علاوہ فن کیمیاء میں بھی مشہور ہیں آپ امام کی مثالی حیثیت رکھتے تھے ۔ الامام الصادق ملھم الکیمیاء ص 40

ڈونالڈسن نے لکھا ہے کہ جابر بن حیان امام جعفر صادق علیہ السلام کا شاگرد تھا نیز یہ  کہ جابر بن حیان نے اپنے استاد امام صادق علیہ السلام کے کیمیاء پر دوہزار صفحات لکھتے ہیں ۔ حیاة الصادق ص16

عبد اللہ ابن اسعد الیافعی جو مشہور مؤرخ و عالم گزرے ہیں اپنی کتاب میں امام صادق علیہ السلام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے ابوموسی جابر بن حیان الصوفی الطرسوسی ہے جس نے ایک ہزار صفحات پر مشتمل کتاب لکھی ہے جس میں امام صادق علیہ السلام کے رسائل ہیں ان کی تعداد پانچ سو ہے۔

شمس الدین احمد بن ابی بکر بن خلکان(المتوفی سن 681 ھجری)  امام صادق علیہ السلام کے حالات تحریر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

امام صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے ابوموسی جابر بن حیان الصوفی الطرسوسی ہے جس نے ایک ہزار صفحات پر مشتمل کتاب لکھی ہے جس میں امام صادق علیہ السلام کے رسائل ہیں ان کی تعداد پانچ سو ہے۔ وفیات الاعیان

مشہور مصری عالم و فقیہ ابو زھرہ نے اس مسئلے پر طویل بحث کی ہے اور اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں کہ:

امام صادق علیہ السلام علوم کونیہ طبیعیہ کو بھی گہرائی تک جانتے تھے کیونکہ وہ جابر کے رسائل پر حکم لگاتے تھے کبھی تصدیق کرتے تھے اور کبھی پڑھتے ہوئے خاموشی سے آگے گزر جاتے تھے بلاشبہ یہ ایسے شخص کا تصرف ہوتا ہے جو موضوع سے کما حقہ واقف ہو اور آپ کی خاموشی جاہل کی خاموشی نہ ہوتی جو اس کے اسرار و رموز کو جانتا ہی نہ ہو۔

اے محترم قارئین ان بالا اقوال سے دو چیزیں بڑی واضح ہیں ۔

1: جابر بن حیان نے علم کیمیاء امام جعفر صادق علیہ السلام سے سیکھا ہے شاگرد بن کر بلکہ امام نے اس شخص پر خصوصی توجہ دی ہے۔

2: جابر کے معلم علم کیمیاء میں فقط امام صادق علیہ السلام ہیں۔ تو اس سے ان دوباتوں کا بطلان واضح ہوجاتا ہے کہ جابر بن حیان کا اصلا وجود ہی نہیں ہے بلکہ جابر بن حیان ایک عظیم تاریخی شخصیت ہیں اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اصلا ممکن ہی نہیں کہ امام مدینہ میں عملی یا نظری کیمیاء کے بانی ہوں کیونکہ جابر کی کتب سے انگریزی سائنس دانوں کا استفادہ کرنا، ان کی کتابیں سمجھنے کےلئے خود عربی زبان سیکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ جابر نے کیمیاء ایسے شخص سےسیکھی ہے جو اس کو اچھی طرح جانتا تھا اور وہ امام صادق علیہ السلام ہیں 

العودة إلى الأعلى