عید کا تصور اسلامی روایات کی روشنی میں

: سردار حسین نجفی 2024-04-10 12:00

مسلمان مختلف مناسبات پہ بڑے عقیدت و احترام سے اس دن کو یاد کرتے ہیں اور اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں اور عید سعید فطر، ماہ مبارک رمضان کی روزوں کی تکمیل پر،یکم شوال میں اللہ تعالی سے انعام و اکرام وصول کرنے کا دن ہے جس کا تمام مسلمان بطورعید خاص اہتمام کرتے ہیں اور اس میں خوشی و سرور کا اظہار کرتے ہیں

جابر امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: جب شوال کی پہلی تاریخ (عید فطر) آ پہنچتی ہے تو منادی اللہ کی طرف سے ندا دیتا ہے کہ "اے مؤمنو! صبح کو اپنے انعامات لینے نکلے، (جو اللہ کی طرف سے روزہ دار مؤمنین کے لئے فراہم کئے گئے ہیں)" اور پھر فرمایا: "اے جابر! اللہ کے انعامات ان دنیاوی بادشاہوں کے انعامات جیسے (مادی اور فانی) نہیں ہیں"! (بلکہ ہی عمدہ اور ناقابل بیان اور نہایت عظیم ہیں)! اور پھر فرمایا: "آج انعامات وصول کرنے کا دن ہے۔

عید در اصل لغت میں عود سے مشتق ہے جس کا معنی لوٹنے کے ہیں چونکہ یہ ہر سال لوٹتی ہے اور مومن اس دن کے لوٹ آنے کی خواہش کرتا ہے

دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے انسان کی تخلیق فطرت سلیمہ پر کیا ہے اوریہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان اپنے اردگرد کے ماحول اور معاشرہ سے متاثر ہوتا ہے اور معاشرے میں اسلامی تعلیمات کی فقدان یا عدم تربیت و عدم شعور کی وجہ مومن مسلمان اسلامی اقدار سے دور ہوتا ہے اور دیگر مذاہب کے رسومات سے متاثر ہوکر اسلامی اصولوں کنارہ کشی اختیار کرتا ہے پس جب مومن روزہ رکھتا ہے اور روزہ کا جو بنیادی مقصد اور ہدف جو کہ آیات کی روشنی میں تقوی الہی ہے اس کو روزہ دار، اپنی نمازوں، تلاوت قرآن ، مختلف دعا و مناجات کے ذریعے سے پاتا ہے اور گناہ سے توبہ و استغفار کے ذریعے سے انسان اس فطرت سلیمہ کی جانب دوبارہ لوٹ آتا ہے جس پر اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق کی تھی اس وجہ سے اسکو عید کہا جاتا ہے ۔

جیساکہ اوپر بیان ہوا کہ یکم شوال درحقیقت ہدیہ و انعام پانے کا دن ہے اور جو لوگ اس مبارک ماہ کے روزے نہ رکھے تو وہ بھت ہی نقصان اور گھاٹے میں ہیں۔

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا إنَّما هُوَ عِیدٌ لِمَن قَبِلَ اللَّهُ صِیامَهُ وشَكَرَ قِیامَهُ وكُلُّ یومٍ لا یُعصَى اللَّهُ فیهِ فهُوَ عیدٌ؛

عید صرف ان لوگوں کی ہے جن کے روزوں کو اللہ نے قبول فرمایا ہو، اور اس کی شب زندہ داریوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہو؛ اور ہر وہ دن عید ہے جب اللہ کی نافرمانی انجام نہ پائے"۔ نہج البلاغہ 428

پس مولا کے اس فرمان ذی وقار سے یہ معلوم ہوا کہ حقیقت میں عید کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ انسان اللہ کی اطاعت و بندگی کرے اور الہی اوامر کی اطاعت میں اس دنیا میں زندگی گزارے تو یہ عید کہلاتی ہے اور جو لوگ خدا کی نافرمانی اور عصیان کرے اور حتی ماہ مبارک رمضان جسکو اللہ نے ماہ عبادت و بندگی قرار دیا ، ماہ توبہ و استغفار قرار دیا اور مومن کو اپنے دسترخوان رحمت میں دعوت دی اور یہ انسان ہے جو اس دسترخوان سے خدا کی رحمتیں و بخششیں سمیٹے ،خدا کی فیوض و برکات سے بہرمند ہو ،وہ سستی و کاہلی سے کام لیتا ہے بلکہ اس عظیم عبادت ،روزوں کو سرے سے رکھتا ہی نہیں تو ایسے انسان کی عید و مسرت منانے اور خوشی منانے کا معنی نہیں ، کیونکہ یہ انسان درحقیقت خدا کی انعام و اکرام سے محروم ہے لہذا عید منانے کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ انسان اللہ کے اوامر کی بجا آوری اور نواہی سے روگردانی اختیار کرے اور اللہ کی بندگی بجا لایئے اور عید کا اہل بھی وہی ہے جو اللہ کی عبادت و اطاعت کرتا ہے۔

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا ألا وإنَّ هذا الیومَ یومٌ جَعَلَهُ اللَّهُ لَكُم عِیداً وجَعَلَكُم لَهُ أهلاً، فَاذكُرُوا اللَّهَ یذكُركُم وَادْعُوهُ یستَجِب لَكُم؛

جان لو کہ اللہ نے آج کے دن کو تمہارے لئے عید قرار دیا اور تمہیں اس کا اہل قرار دیا، تو اللہ کو یاد کرو، تاکہ وہ بھی تمہیں یاد کرے اوراس کی بارگاہ میں دعا کرو تا کہ وہ استجابت فرمائے"۔

عید جہاں پہ ایک انفرادی و عبادی پہلو رکھتا ہے وہاں پہ عید کا ایک پہلو اجتماعی ، سیاسی و سماجی بھی ہے اور ائمہ علیہم السلام نے روایات میں اس بابت بھی متوجہ فرمایا ہے بطور نمونہ ایک دو روایات ذکر کریں گے ۔

امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے فرمایا: انّما جُعِلَ یَوْمُ الفِطْر العیدُ، لِیكُونَ لِلمُسلِمینَ مُجْتمعاً یَجْتَمِعُونَ فیه و یَبْرُزُونَ لِلّهِ عزّوجلّ فَیُمجّدونَهُ عَلى‌ ما مَنَّ عَلیهم، فَیَكُونُ یَومَ عیدٍ ویَومَ اجتماعٍ وَ یَوْمَ زكاةٍ وَ یَوْمَ رَغْبةٍ و یَوْمَ تَضَرُّعٍ وَلأَنَّهُ اَوَّلُ یَوْمٍ مِنَ السَّنَةِ یَحِلُّ فِيهِ الاَكلُ وَالشُّرْبُ لاَنَّ اَوَّلَ شُهُورِ السَّنَةِ عِنْدَ اَهْلِ الْحَقِّ شَهْرُ رَمَضانَ فَأَحَبَّ اللّه ُ عَزَّوَجَلَّ اَنْ يَكُونَ لَهُمْ في ذلِكَ مَجْمَعٌ يَحْمِدُونَهُ فِيهِ وَيُقَدِّسُونَهُ؛

فطر کے دن کو عید قرار دیا گیا تا کہ مسلمانوں کے لئے اجتماع کا دن ہو جس میں وہ اجتماع کرتے ہیں اور اللہ کے سامنے نمایاں ہوتے ہیں اور اس کی تمجید کریں ان احسانات پر جن سے اللہ نے انہیں نوازا ہے؛ تو یہ عید کا دن ہے، اور اجتماع کا دن ہے، اور زکوۃ کا دن ہے اور (اللہ اور اس کی بیان کردہ نیکیوں کی طرف) رغبت کا دن ہے، اور درگاہ رب کریم میں گڑگڑانے کا دن ہے؛ اور اس لئے کہ یہ دن پہلا دن ہے جب کھانا پینا جائز ہوجاتا ہے، کیونکہ اہل حق کے ہاں سال کا پہلا مہینہ رمضان ہے، پس اللہ دوست رکھتا ہے کہ مسلمان اس دن کو اجتماع منعقد کریں، اور اس دن اس کی حمد و ثناء کریں اور اس کی تقدیس کریں"۔

اوراسی طرح امام سجاد علیہ السلام نے دعا میں فرمایا کہ امام علی بن الحسین السجاد علیہ السلام نے فرمایا اللَّهُمَّ إِنَّا نَتُوبُ إِلَيْكَ فِي يَوْمِ فِطْرِنَا الَّذِي جَعَلْتَهُ‌ لِلْمُؤْمِنِينَ‌ عِيداً وَ سُرُوراً وَلِأَهْلِ مِلَّتِكَ مَجْمَعاً وَ مُحْتَشَداً:

 بار پروردگارا! ہم تیری طرف پلٹ آتے اپنے فطر کے دن، جسے تو نے عید اور شادمانی قرار دیا ہے، اور اپنی ملت (امت مسلمہ) کے لئے اجتماع اور باہمی تعاون کا دن"۔

لہذا عید و شادمانی ، خوشی و مسرت منانے کا دن عید ہے جہاں اکھٹے ہوکر ،ایک دوسروں کا حال احوال پرسی کیا جاتا ہے ، اپنے عزیزو اقارب کے ساتھ صلہ رحمی کے تعلق کو برقرار رکھا جاتا ہے اور خدا کی اطاعت و بندگی میں اپنے اوقات کار کو گزرنا یہ عید ہے ۔ عید قطعا یہ نہیں ہے کہ انسان اللہ کی اوامر کی توہین کرے جیساکہ ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے عید کے نام پہ ناچ گانے ، لہو لعب کی محفلیں مختلف ناموں سے منعقد کی جاتی ہے ، مقام افسوس یہ ہے یہ سب عید کے نام پہ کیا جاتا ہے جوکہ کسی طرح اسلامی معاشرے کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی اسلام کے تعلیمات کے ساتھ اسکا کوئی جوڈ بلکہ یہ سب اسلام تعلیمات سے دوری اور ائمہ کی سیرت سے عدم معرفت کا نتیجہ ہے

العودة إلى الأعلى