شب قدر کی اہمیت اور عظمت
شب قدر کی اہمیت اور عظمت کے بارے میں جب ہم روایات و آیات کی جانب رجوع کرتے ہیں تو روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ رب العزت نے انسانوں کے لیے ایک ایسی رات کو مقرر کیا ہے جو عظمت والی رات ہے ، مبارک رات ہے جس میں تمام انسانوں کے مقدر کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور اس رات کی عظمت مسلمانوں کے درمیان متفق علیہ ہے لیکن اس رات کی تعین میں شیعہ اور سنی مصادر میں اختلاف ہے لیکن اس رات کا ماہ مبارک رمضان میں ہونے کے حوالے سے بھی کسی کو اختلاف نہیں ہے
اس مختصرآرٹیکل میں شب قدر کی اہمیت کو روایات اور آیات کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش ہوگی تاکہ اس سے قارئین کرام کو اس عظمت والی رات کی معرفت اور اسکی عظمت واضح ہو جائے تاکہ اس رات کی فیوض و برکات کو درک کرسکیں اور اس رات کی جواہمیت اورعظمت ہے جن کا آیات و روایات میں ذکر کیا ہے اسکا خاص اہتمام کرسکیں اورانسان اس قدر والی رات کی برکات سے محروم نہ ہو ۔
لہذا جب ہم قرآن کریم کی جانب رجوع کرتے ہیں تو اس رات کی عظمت کو سورہ قدر میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے ۔
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِوَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ۬ۙ خَیۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَہۡرٍ ؕ
تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ سَلٰمٌ ۟ۛ ہِیَ حَتّٰی مَطۡلَعِ الۡفَجۡر ۔
ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے ۔اور آپ کو کس چیز نے بتایا شب قدر کیا ہے؟
شب قدر ہزارمہینوں سے بہتر ہے۔ فرشتے اور روح اس شب میں اپنے رب کے اذن سے تمام (تعیین شدہ) حکم لے کر نازل ہوتے ہیں۔
یہ رات طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی ہے۔
ان آیات کے ذیل میں شیخ الجامعہ استاد بزرگوار مفسر قرآن محسن علی نجفی قدس سرہ شب قدر کے بابت تفسیرالکوثر میں کچھ یوں لکھتے ہیں اس مبارک رات کو قدر کی رات اس لیے کہا ہے کہ اس شب میں لوگ سال بھر کے لیے اپنی تقدیراور نصیب بہتر کر سکتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ اس نے پورے سال کی قسمت ایک رات میں بہتر کرنے کا موقع فراہم فرمایا ہے۔
اس کی صورت یہ ہے کہ شب قدر کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے ایک ہزار مہینوں (۸۳ سال) سے بہتر بنایا ہے
یہ نہیں فرمایا ہزار مہینوں کے برابر ہے بلکہ فرمایا بہتر ہے،کس قدر بہتر ہے؟ دوگنا، دس گنا اور۔۔۔۔ اسے صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہزار مہینوں سے کس قدر بہتر ہے۔
دوسری طرف یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ دعا تقدیر ساز ہوتی ہے, یعنی دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے یہ پورے سال کے دوران کسی بھی دن،کسی بھی وقت کی جانے والی دعا کے بارے میں ہے،ا ب اگرایک مومن صدق دل سے شب قدر کو دعا کرتا ہے تو ہزار مہینوں کی دعاؤں سے بہتر ہے۔ شب قدر کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے تو اس رات کی دعا اورعبادت سے تقدیر کا بدل جانا ناقابل فہم نہیں ہے
لہٰذا شب قدرکو سال بھر کی تقدیر بنتی ہے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ بالجبر مسلط فرماتا ہے بلکہ اس رات میں بندے کے عمل کے مطابق فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم ہے کہ فلاں بندہ کیا کچھ عمل کرنے والا ہے یا عمل کرنے والا نہیں ہے تاہم اللہ اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ نہیں فرماتا بلکہ بندے سے عمل صادر ہونے اور اس کی جانب سے اپنے میں اہلیت پیدا کرنے کے بعد اللہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔
لہٰذا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ سے فیصلہ لینا بندے کے ہاتھ میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں رحمت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی اہلیت پیدا کرنا بندے کے ہاتھ میں ہے اس رات کو شب قدر کہنے کے حوالے سے کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں جن میں سے ایک تو یہ رات بابرکت اور باعظمت رات ہے جیساکہ لیلہ المبارکہ ہے ۔
قرآن کریم میں بھی قدر،عظمت و منزلت کے لئیے استعمال ہوا ہے یعنی انہوں نے اللہ کی عظمت کواس طرح نہیں پہچانا جس طرح پہچاننے کا حق تھا۔
امام رضا علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ
یقدر فیھا ما یکون فی السنۃ من خیر او شر او مضرۃ او منفعۃ او رزق او اجل و لذالک سمیت لیلۃ القدر،
شب قدر میں جو بھی سال میں واقع ہونے والا ہے سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے نیکی ،برائی ، نفع و نقصان ،رزق اور موت اسی لئے اس رات کو لیلۃ القدر کہا جاتا ہے۔
شب قدر کو شب امامت اور ولایت بھی کہا جاتا ہے کیونکہ خود قرآن کہتا ہے کہ اس رات میں فرشتے ، ملائکہ اور ملائکہ سے اعظم ملک روح بھی نازل ہوتے ہیں۔
اس نکتے کو سمجھنا ضروری ہے کہ نازل ہوتے ہیں ، نازل ہوئے نہیں۔ کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے : تنزّل الملائکۃ والروح فیھا، تنزل فعل مضارع ہے یعنی نازل ہوتے ہیں نازل ہوئے نہیں کہا گیا ہے۔ تو یہ جاننا ضروری ہے کہ کس پر نازل ہوتے ہیں۔ آپ اور مجھ پر تو فرشتے نازل نہیں ہوتے ہیں۔ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں تو آنحضرت پر نازل ہوتے تھے۔ آنحضرت کے بعد کس پر نازل ہوتے ہیں؟ ظاہر سی بات ہے اس پر نازل ہوں گے جو پیغمبر کے بعد پیغمبر کا جانشین ہو گا ، جو معصوم ہو گا ، جو صاحب ولایت ہو۔ جی ہاں پیغمبر اکرم (ص) کے بعد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر نازل ہوتے تھے اور حضرت علی علیہ السلام کے بعد حضرت حسن مجتبی اور آپ کے بعد حضرت حسین اور آپ کے بعد حضرت علی زین العابدین اور آپ کے بعد حضرت محمد باقر اور آپ کے بعد حضرت جعفر صادق اور آپ کے بعد حضرت موسی کاظم اور آپ کے بعد حضرت علی رضا اور آپ بعد حضرت محمد جواد اور آپ کے بعد علی نقی اور آپ کے بعد حسن عسکری علیہم السلام اور آپ کے بعد قطب عالم امکان مہدی آخر الزمان ارواحنا لہ لفداہ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔
شب قدر امامت اور اس کی بقاء اور جاودانگی پر سب سے بڑی دلیل ہے ، متعدد روایات میں وارد ہوا ہے کہ شب قدرہر زمانے میں امام کے وجود پر بہترین دلیل ہے اس لیے سورہ قدر کو اہلبیت (ع) کی پہچان کہا جاتا ہے ۔
علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ در حقیقت شب قدر ہر سال آتی ہے اور امر خدا ہر سال نازل ہوتا ہے اور اس امر کے لیے صاحب الامر بھی موجود ہے ۔ جب دریافت کیا گیا کہ وہ صاحب الامر کون ہے تو آپ (ع) نے فرمایا انا و احد عشر من صلبی آئمۃ محدثون،
میں اور میرے صلب سے گیارہ دیگر آئمہ جو محدث ہیں۔
شیخ الجامعہ اپنی تفسیر الکوثر میں شب قدر کے تعین کے حوالے سے یوں لکھتے ہیں
شب قدر کی انتہائی اہمت کے پیش نظر اس کا تعین نہیں فرمایا تاکہ اسے تلاش کرنے والے متعدد راتوں میں اسے تلاش کریں جس سے اس شب کو حاصل کرنے میں خلوص رکھنے والے اور اسے اہمیت دینے والے ہی تلاش کریں گے۔
احادیث امامیہ میں کثرت سے وارد ہے کہ شب قدر کو انیس، اکیس اور تیئس رمضان کی راتوں میں تلاش کریں۔ ان راتوں میں شبِ ۲۳ رمضان کی زیادہ تاکید ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے ۱۹، رمضان کی شب تقدیر بنتی ہے۔ ۲۱ کی شب حتمی فیصلہ ہوتا ہے اور ۲۳ کی شب کو نافذ العمل ہوتا ہے۔ (الکافی
موطأ میں امام مالک نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا
فمن اراد ان یقوم من الشھر شیئا فلیقم لیلۃ ثلاث و عشرین۔اگر کوئی اس ماہ میں رات کو قیام کرنا چاہتا ہے تو ۲۳ ویں رات کو قیام کرے۔
صحیح مسلم میں عبد اللہ بن انیس راوی ہیں میں نے ۲۳ ویں کی صبح رسول اللہؐ کی پیشانی پر پانی اور خاک (کے آثار ) دیکھے۔
صحیح بخاری و مسلم میں ابو سعید خدری سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں میں نے ۲۱ رمضان کی صبح کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی اور ناک مبارک پر مٹی اور پانی کے اثرات دیکھے۔
صحیح مسلم اور بیہقی میں ہے عبد اللہ بن انیس سے شب قدر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے۔شب قدر کو رات میں تلاش کرو وہ رات ۲۳ویں کی رات ہے۔
بعض احادیث میں ہے لیلۃ القدر رمضان کی آخری سات راتوںمیں تلاش کرو۔ بعض دیگر احادیث میں ہے رمضان کے آخری عشرے کی تاک راتوں میں تلاش کرو۔ ان تمام احادیث میں ۲۱ اور ۲۳ کی راتیں شامل ہیں۔
ابو نضر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی میرا گھر مدینہ سے دور ہے۔ میرے لیے ایک رات کی نشاندہی فرمائیں جس میں، میں مدینہ آؤں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا انزل لیلۃ ثلاث و عشرین۲۳ویں کی رات کو مدینہ آ جاؤ۔
خلاصہ یہ ہے کہ شیعہ مصادر میں شب قدر تین راتوں ۱۹، ۲۱، ۲۳ میں تلاش کرنے کا حکم ہے اور احادیث بکثرت موجود ہیں کہ شب قدر ان تین راتوں میں منحصر ہے۔
اور اس عظمت والی رات کے حوالے سے ائمہ علیہم السلام خاص اہتمام کرتے تھے جیسا کہ روایات میں آیا ہے ۔
حضرت علی (ع) سے بھی مروی ہے کہ پیغمبر اکرم ص ماہ مبارک رمضان کے آخری دس دنوں میں اپنا بستر جمع کرتے تھے اور ماہ مبارک کے آخری ایام کو عبادت میں مشغو ل ہوتے تھے اور تئیسویں رات گھر کے تمام افراد کو شب بیداری کا حکم دیتے تھے اور جن پر نیند کا غلبہ ہوتا تھا ان پر پانی چھڑکا کرتے تھے تا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ شب قدر کے فیض محروم ہو جائیں۔
مفاتیح الجنان میں شیخ عباس قمی علیہ الرحمہ ذکر کرتے ہیں۔
اس مبارک شب میں نیز حضرت فاطمہ زہرا (س) گھر کے کسی فرد کو بھی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ سو جائے۔ شب قدر سے پہلے والے دن ان کو سونے کی دعوت دیتی تھیں تا کہ شب قدر کی رات کو بیداری میں بسر کریں اور اس رات غذا ان کو کم دیتی تھیں اور فرماتی تھیں محروم ہے وہ انسان جو آج کی شب سے محروم ہو جائے۔
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ حضرت امام صادق (ع) ایک شب قدر میں سخت بیمار ہو گئے امام نے اصحاب سے فرمایا کہ میرا بستر مسجد میں لے جاؤ اصحاب نے امام کے حکم کی تعمیل کی اور امام نے پوری رات صبح تک مسجد میں ذکر و عبادت میں بسر کی
دعا ہے پروردگار سے کہ ہم سب کو اس عظیم رات کے فیوض و برکات سے بہرمند ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین