اہل شام کے مقابلے میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کا سیاسی منھج اور طرزعمل

وہ مادی عنصر جس کو امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے بنی امیہ کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی خاطر اپنایا، وہ دینی تحریک ہے اور یہی وہ اصل سبب تھا جو امیر المؤمنین علیہ السلام کو اپنی سیاست میں مساوات کی جانب دعوت دیتا تھا اور اس کا اعلان آپ نے حکومت ظاہری کے پہلے دن میں ہی کیا تھا اور یہ وجہ ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم ابن خلدون کے اس مقولے کا یہاں تجزیہ کریں جو انہوں نے کہا ہے :" علی اور معاویہ کے درمیان جنگ تعصب کی بنیاد پر تھی اس جنگ میں ان کا منھج حق اور اجتہاد پر مبنی تھا ۔ وہ کسی دنیوی یا باطل کی برتری کی غرض سے جنگ نہیں کر رہے تھے۔ بلکہ ان کا اجتہاد کا جو اختلاف تھا وہ حق کے دائرے میں تھا اور اسی حق میں ہی وہ ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو غلط کہہ رہے تھے

  ابن خلدون کے اس کلام پر تنقیدی پہلو یوں عرض کریں کہ علی علیہ السلام کے نقطہ نگاہ میں تعصب کا جو مفہوم ہے وہ ابن خلدون کے نقطہ نظر سے بنیادی فرق رکھتا ہے۔ ابن خلدون کی نظر میں کوئی بھی دینی دعوت یا تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک اس میں قومی تعصب کا سہارا نہ لیا جائے۔ ان کا نظریہ اس حدیث شریف پر مبنی ہےکہ" ما بعث اللہ نبیا الا فی منعۃ من قومہ" اللہ نے کسی نبی کو مبعوث نہیں فرمایا مگر اسے اپنی قوم کی طاقت کے ساتھ" جب کہ امام علی علیہ السلام کا فرمان یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے نبی مکرم اور دین اسلام کے خلاف سازش اور نور اسلام کو خاموش کرنے کی کوشش کی وہ خود آنحضرت ﷺ کی قوم تھی وہ آپ ﷺ کا قبیلہ قریش ہی تھا۔

 امیر المؤمنین علیہ السلام معاویہ کے نام ایک خط میں فرماتے ہیں" فارادوا قومنا قتل نبینا و اجتیاح اصلنا ، و ھموا بنا الھموم و فعلوا بنا الافاعیل و احلسوناالخوف، واضطرونا الی جبل وعر، واوقدوا لنا نار الحرب"

ترجمہ: ہماری قوم نے ہی اپنے نبی کے قتل کا ارادہ کیا ، ہماری اصل اور جڑ کو اکھاڑنے کی کوشش کی، ہم کو طرح طرح کے رنج پہنچائے ، ہر قسم کے کرتوت کئے، خوف میں مبتلا کیا ، ناہموار پہاڑ کی جانب جانے پر مجبور کیا اور ہمارے خلاف جنگ کی آ گ بڑھکا دی"  پس دین قومی تعصب کو دور پھینک دیتا ہے اور دین کے دفاع اور راہ خدا میں قوم اور قرابت داروں سے بھی جنگ کرنے اوران کے قتل کی اجازت دیتا ہے۔ یہ امام علی علیہ السلام کا واضح راستہ ہے جس کا اعلان آپ نے اپنے کلام میں یوں فرمایا " لقد کنّا مع رسول اللہ ﷺ انّ القتل یدور بین الآباء والابناء والاخوان والقرابات ، فما نزداد علی کلّ مصیبۃ و شدّۃ الّا ایمانا و مضیا علی الحق"

 ترجمہ: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہوتے تھے اور جنگ بھی ہمارے باپ ، بھائی اور رشتہ داروں کے درمیان ہوتی تھی۔ لیکن جو مصیبت بھی واقع ہوتی وہ ہمارے حوصلوں کو پست نہیں کرتی بلکہ یہ مصیبت ہمارے حق پر ایمان و تسلیم میں اضافے کا باعث بنتی تھی۔ " پس امام علی علیہ السلام کے نزدیک تعصب کا مفہوم وہ اخلاقی اقدار ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ ان ہی اقدار کی بنیاد پر ایک سادہ اور مثالی معاشرہ کی بنیاد رکھی جائے جس کی جڑ دین اسلام ہو۔ جبکہ بنو امیہ کے یہاں تعصب سے مراد دور جاہلیت کے وہ اقدار ہیں جس کا انحصار ایسی تنگ نظری کے اوپر ہے جو صرف قبیلہ کے مفادات کی حد تک محدود ہے۔ چنانچہ ہمارے عقیدے کے مطابق بنو امیہ کے تعصب کی بنیاد اپنے ذاتی مفادات کا حصول تھا اور ان مادی مفادات کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے تعصب کا لبادہ اوڑھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ابن خلدون نے معاویہ کے کاموں کو اجتہاد کا جو نام دیا ہے یہ شریعت میں مفہوم اجتہاد کے ساتھ منافات رکھتا ہے۔ اس لئے کہ شریعت میں اجتہاد یعنی جب کتاب و سنت سے کسی حکم شرعی کو استخراج کرنے کی کوئی نص موجود نہ ہو تو اس وقت اپنی رائے کو بروئے کار لانے کو کہتے ہیں۔ لیکن وہ سبب جس کی وجہ سے علی علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان جنگ ہوئی ہے اس کا حکم شرعی لحاظ سے واضح اور ثابت ہے۔ یہ بات ہمارے لئے واضح ہے کہ معاویہ جس چیز کی طرف دعوت  دیتا تھا اس کی بنیاد اہل شام و سادہ مسلمانوں اورمفاد پرست و دنیا طلب لوگوں کو گمراہ کرنا تھی اور وہ بظاہر قاتلان عثمان سے قصاص لینے کا نعرہ تھا۔ البتہ  یہ ہر لحاظ سے ایک باطل دعوا ہے جس کا ثبوت ہمیں  خط و کتابت کے اس سلسلےسے ملتا ہے جو امیر المؤمنین علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان جاری رہا ہے ۔ معاویہ شرعی اعتبار سے عثمان کا ولی الدم نہیں ہےکہ وہ قاتلان عثمان سے قصاص کا مطالبہ کرے ۔ اس لئے کہ عثمان کے بیٹے اور بھائی موجود ہیں جو ان سے زیادہ حق دار ہیں۔

   مزید یہ کہ بالفرض اگر حضرت علی علیہ السلام قرابت کی بنیاد پرمعاویہ کو خون عثمان کے مطالبے میں حقدارمان بھی لیں تو سب سے پہلے معاویہ پر واجب تھا کہ جس طرح سے تمام مسلمانوں نے علی علیہ السلام کی بیعت کی ہے وہ بھی بیعت کرکے مسلمانوں کی اس جماعت میں داخل ہوتے۔ اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کے قائم کردہ محکمہ شرعی میں قاتلان عثمان سے قصاص کا مقدمہ پیش کرتے۔ اس لئےکہ ایک محکمہ شرعی اور شرعی قانونی ادارے کے ہوتے ہوئے کسی بھی شخص کو چاہے وہ کتنا بھی مقام و مرتبہ والا ہو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی مرضی سے کسی مجرم کو سزادے یا کسی قاتل سے قصاص کرے یا کسی زانی پر کوئی حد جاری کرے۔ اس لئے کہ اسلام ہو اسلام کے علاوہ کوئی اور آسمانی دین سب میں حدود و تعزیرات کے مختص محکمے یعنی ادارے موجود ہوتے ہیں۔ ان محکموں میں قاضی بھی تعینات ہوا کرتے ہیں۔ چنانچہ ربّ العزت کا ارشاد ہے " ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا فلا یسرف فی القتل ۔ ۔ ۔" (الاسراء/۳۳)۔ جس کو مظلوم مارا گیا ہے اس کےولی کو ہم نے قصاص کا حق دیا ہے پس تم قتل میں اسراف نہ کرو ۔۔۔۔۔" یہ وہ آیت ہے جس کو دلیل بنا کر معاویہ قاتلان عثمان سے قصاص کا مطالبہ کے ذریعے  لوگوں کو گمراہ کر رہا تھا۔ اس کی تفسیر یہ تو نہیں ہوسکتی کہ مقتول کے اہل خانہ اور رشتہ دار خود ہی براہ راست قاتل سے قصاص کریں۔ بلکہ ان پر لازم ہے کہ وہ حاکم کے سامنے پیش ہوجائیں اور اس کو بھی حاکم کے سامنے پیش کیا جائے جس پر قتل کا الزام ہے۔ پس اگر حاکم نے صحیح فیصلہ دیا تو اس کی حکومت قائم رہے گی اور اگر اس نے باطل فیصلہ دیا تو وہ فاسق ہوجائے گا اور اس کی حکومت و امامت دونوں باطل ہوجائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ امام علی علیہ السلام کی نظر مبارک میں خون عثمان کے نام سے دعوا کرنا مانند اس کے تھا جیسا کہ بچے کو ابتداء میں دودھ چھڑاتے وقت دھوکہ دیا جاتا ہے۔ یہ وہ فریب تھا جس کے ذریعے معاویہ اپنی زندگی میں ملک شام پر حاکم رہنا چاہتا تھااور اس کے لئے علی علیہ السلام کی خلافت کے انکار کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا وہ بہانہ ہے کہ اگر علی علیہ السلام اس کی بات کو مان لیتے ہیں تو وہ قاتلان عثمان سے بدلہ لینے کا جو مطالبہ کر رہے ہیں اس پر وہ سکوت اختیار کریں گے۔

 پس ابن خلدون کا اصل مقصد جس کی خاطر اس نے مقالہ گھڑ دیا ہے وہ معاویہ کو اس دنیوی مفاد کی غرض سے بری قرار دینا تھا۔ یہ معاویہ کے خروج کا اصل مقصد تھا۔ یہ وہ سبب ہے جس کے مقابلے میں علی علیہ السلام ٹھوس اور سخت موقف لے کر کھڑے ہوئےکہ تاکہ بنو امیہ کے منصوبوں کو ناکام بنادیں جن میں خود معاویہ سرفہرست ہے۔ معاویہ وہ جس نے ایک گمراہ گروہ کی قیادت کی ان پر  معاویہ کی پھیلائی ہوئی خبر غالب آئی۔ ان کو ایسا غافل بنا دیا کہ وہ پہچان نہ سکے کہ وہ کس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ 


العودة إلى الأعلى