اخلاق امام حسن علیہ السلام
فخر موجودات ، سیدالکمالات ، شہنشاہِ کائنات ، نواسہ رسول جگر ، گوشہ بتول اور سلسلہ امامت کی دوسری کٹری امام حسن علیہ السلام اللہ کے مہینے میں ، اللہ کے منصب ، منصب ِ امامت پر فائز ہو کر اس کائنات میں تشریف لائے ، پیغمبر اکرم ﷺ نے خود حسن علیہ السلام نام رکھا اور ابو محمد کی کنیت عطا فرمائی اور یہ نام زمانہ جاہلیت میں معروف نہیں تھا
پیغمبراکرم ﷺ نے اپنے شہزادے کا نام اپنی مرضی سے حسن علیہ السلام نہیں رکھا بلکہ امام محمد باقرعلیہ السلام فرماتے ہیں
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اپنے دو بیٹوں کا نام حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام رکھوں
قارئین کرام ! گھرانہ علی علیہ السلام و بتو ل علیھا السلام کی عظمت ملاحظہ فرمائیں کہ کتنا عظیم گھرانہ ہے کہ جن کی اولا د کے اسماء اللہ خود منتخب کر رہا ہے
نام رکھنے میں اتنا اہتمام دراصل امت ِمحمدی کو قیامت تک یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ جس کے ناموں کا انتخاب عرش پہ ہو رہا ہے وہ خود کتنا صاحب ِ کمال ہوگا اورساتھ ساتھ اس فضیلت عظمی سے اس بات کی طرف بھی اشارہ کرنا مقصود تھا کہ اے زمانے والو! یاد رکھنا اس حسن علیہ السلام کے مقابلے میں تمہارے کمالات بے قیمت ہیں ،انہی کمالات کا نتیجہ تھا کہ کوفہ کا ایک شخص بیان کرتا ہے:
ان الحسن بن علی علیھما السلام کلم رجل فقال من ای بلد انت قال من الکوفہ قال لو کنت بالمدینہ لأریتک منازل جبرائیل من دیارنا
کہ امام حسن علیہ السلام نے ایک شخص سے گفتگو کی اورانہیں فرمایا کہ آپ کس علاقہ سے ہیں تو اس نے عرض کیا کہ کوفہ سے ہوں تو امام حسن علیہ السلام نے فرمایا اگر تم مدینہ میں ہوتے تو میں تجھ کو اپنے گھروں میں جبرائیل کے اترنے کے مقامات دکھاتا ۔(بحار ج 43 ص 355)
اور مولا امام حسن علیہ السلام سب سے زیادہ پیغمبراکرم ﷺ کے مشابہ تھے جیسا کہ حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں :کہ کوئی بھی امام حسن علیہ السلام سے زیادہ رسول اللہ ﷺ سے مشابہ نہیں تھا (اسد الغابہ ج 2 ص9)
بلکہ احیاء العلوم میں غزالی نے کہا ہے :
کہ رسول اللہ ﷺ نے امام حسن علیہ السلام کےلئے فرمایا کہ آپ میری خلقت و اخلاق میں میرے مشابہ ہیں ۔ (احياء العلوم ج 2 ص30)
براہ بن غازب یہ وہ صحابی رسول ﷺ ہے جس نے پیغمبر اسلام ﷺ کے ساتھ 14 جنگیں لڑی ہیں اور جمل ، صفین اور نہروان مولا علی علیہ السلام کے ساتھ مخالفین کے خلاف لڑی ہیں یہ صحابی فرماتا ہے :
رایت النبی و الحسن علیہ السلام علی عاتکہ یقول اللھم انی احبہ فأحببہ(صحیح بخاری ج4ص217)
کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا امام حسن علیہ السلام آپ کے کاندہے پر تھے اور پیغمبراسلام ﷺ فرما رہے تھے اے اللہ میں حسن علیہ السلام سے محبت رکھتا ہوں تو بھی حسن سے محبت رکھ
اس مضمون کی احادیث کافی زیادہ ہیں جو کہ فریقین کی کتب میں موجود ہیں ،ان احادیث میں پیغمبراکرم ﷺ نے خود اپنی امت کو اس نکتہ کی طرف متوجہ فرمایا ہے کہ میرے بیٹے حسن علیہ السلام سے اللہ بھی محبت کرتا ہے میں بھی محبت کرتا ہوں اور اے میری امت آپ بھی حسن علیہ السلام سے محبت کریں اوریہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام امام حسن علیہ السلام کی خدمت کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرتے اورعبد اللہ ابن عباس جن کا لقب حبرالامت ہے یہ صحابی جس کا تاریخ اسلام میں بہت بڑا نام ہے جب امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سواری پر سوار ہوتے تو یہ جلدی جا کر سواری کی رکاب پکڑتے اور امام حسن اور حسین علیہ السلام کے کپڑے درست فرماتے توایک شخص نے جب یہ منظر دیکھا تو اس نے ابن عباس کی مذمت کی تو جواب میں ابن عباس نے فرمایا :
اتدری من ہذان ؟ہذان ابنا رسول اللہ او لیس مما انعم اللہ بہ علی ان امسک بھما الرکاب و اسوی علیھما الثیاب
کہ تو جانتا ہے یہ کون ہیں یہ فرزندان رسولؐ ہیں کیا یہ اللہ کا مجھ پر انعام نہیں ہے کہ میں ان کی رکاب پکڑتا ہوں اور سواری پر ان کے کپڑے درست فرماتاہوں ۔ (تاريخ دمشق ج 13ص239)
اورجب آپ دونوں شہزادے حج کرنے پیدل جاتے تو جس سوار کے پاس سے گزرتے وہ آپ کے اکرام اور اجلال کی خاطر سواری سے نیچے اتر آتے ، ایسا احترام کرنا ہر مسلمان کا حق بنتا ہے کیونکہ نہ صرف آپ فرزند رسول ؐ ہیں بلکہ حجت اللہ بھی ہیں، امین اللہ ، عین اللہ ، وجہ اللہ ، سر اللہ اور ید اللہ بھی ہیں اور جناب فاطمہ زہراء علیھا السلام کے بعد آپ ہی رسول اللہ ﷺ کی شبیہ تھے چونکہ آپ ہی تو تھے جو خَلق و خُلق میں رسول ﷺ کے مشابہ تھے ۔
اخلاق امام حسن علیہ السلام :
اخلا ق امام حسن علیہ السلام بيان کرنے سے پہلے تھوڑی سی گفتگو اخلاق کے بارے کرتے ہیں تاکہ ہمیں اخلاق امام حسن علیہ السلام سمجھنے میں آسانی ہو اخلاق ہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے انسان تہذیب ، کمال اور بلندی تک پہنچتا ہے اور اگر یہ اخلاق کامل نفس میں نقش ہو جائے تو انسان کا صحیح راستے سے بھٹکنا ممکن نہیں ، ایثار کی جگہ انانیت کا آنا ممکن نہیں ، اور نقائص و مخربات کا غلبہ انسان پر ممکن نہیں ہے اسی وجہ سے اخلاق ان اہم ترین عناصر میں سے ہے جس پر اجتماعی زندگی کی بناء قائم ہوتی ہے اور بقاء امم کے موثق ترین اسباب میں سے ہے اور اسی اخلاق کی وجہ سے ثقافت کو دوام ملتا ہے جیسا کہ گزشتہ شرائع میں اخلاق کے عنصر کا اہتمام کیا گیا تھا، اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺ نے بھی اخلاق کا بہت زیادہ اہتمام کیا ہے بلکہ اخلاق کو اپنی بعثت کے اسباب ميں سے ابرز ترین سبب قرار ديا ہے جیسا کہ پیغمبراکرم ﷺ فرماتے ہیں
کہ میں مکارم اخلاق کو تمام کرنے کےلئے مبعوث ہوا ہوں اور اسی وجہ سے پیغمبر اسلام ﷺ اپنے عظیم اخلاق کی وجہ سے رحمت الٰہی کی مثال تھے اورامام حسن علیہ السلام نے اپنے عظیم اخلاق کو پیغمبراکرم ﷺ سے وراثت میں حاصل کیا تھا اوریہی اخلاق تھا کہ جب ايک شامی نے امام حسن علیہ السلام کی اہانت کی تو امام علیہ السلام نے اسے کوئی جواب نہ دیا جب وہ اپنی کلام سے فارغ ہوا تو امام حسن علیہ السلام نے فرمایا:
أیھا الشیخ اظنک غریبا لو سألتنا اعطیناک ولواسترشدتنا ارشدناک و لو استحملتنا حملناک و ان کنت جائعا اطمعناک و ان کنت محتاجا اغنیناک و ان کنت طریدا آویناک
اے شیخ مجھے لگتا ہے کہ آپ مسافر ہیں اگرآپ نے ہم سے سوال کیا تو ہم آپ کو عطا کریں گے اگر آپ نے ہم سے رہنمائی طلب کی تو ہم آپ کی رہنمائی کریں گے اگر آپ نے ہم سے سواری طلب کی تو ہم آپ کو سواری دیں گے اگرتم بھوک سے ہو ہم تمہیں کھانا کھلائیں گے اگرتم محتاج ہو تو ہم تم کو غنی اور بے نیاز کر ديں گے اگر تم دھتکارے ہوئے ہو تو ہم تمہیں پناہ دیں گے ۔
آپ علیہ السلام کے اس اخلاق نے شامی کی روح سے شر کے عناصرکو اکھاڑ پھینکا اور وہ اتنا شرمندہ ہوا کہ وہ پریشان ہو گیا کہ میں امام علیہ السلام سے کیسے عذر خواری کروں مگر اچانک اس کی زبان سے یہ جملے ادا ہوئے :
اللھم اعلم حیث یجعل رسالتہ فیمن یشاء
اللہ جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کو کس میں رکھے ۔(مناقب ابي طالب ج 2 ص 149)
قارئین کرام امام علیہ السلام کے اس کردار سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ اگر کوئی آپ کے خلاف جتنا پروپیگنڈا سن چکا ہو اس کے سامنے اگر آپ نے امام حسن علیہ السلام کا کردار پیش کیا تو آپ اس شخص کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو اس امام علیہ السلام کے کردار سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اگر ہم معاشرے میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں اچھا اخلاق پیش کرنے کی ضرورت ہے انسان کا اخلاق جتنا بلند ہوگا وہ معاشرے میں اتنی جلدی تبديلی لائے گا اس مکارم اخلاق کا نمونہ ہم ایک اورمقام پر دیکھتے ہیں کہ جب ايک کنیز نے پھولوں کا ایک گلدستہ امام حسن علیہ السلام کو ہدیہ کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا :
انت حرہ بوجہ اللہ کہ آپ اللہ کی خاطر آزاد ہیں۔
تو اس حضرت انس بن مالک دیکھ رہے تھے تو انہوں نے اس کو اچھا محسوس نہ کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا
ادبنا اللہ فقال واذا حییتم بتحیہ فحیو بأحسن منھا وکان أحسن منھا إعتاقھا (مناقب ابی طالب ج 2 ص 23)
ہمیں نہ بتا اللہ نے ہمیں آداب سکھائے ہیں قرآن میں ہے اگر تم کو کوئی تحفہ دیے تو تم اس سے بہتر اس کو تحفہ دو اور اس تحفہ سے احسن اور بہترین تحفہ اس کو آزاد کرنا تھا۔۔
قارئین یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ آل محمد کی اقتداء کي جاتی ہے آل محمد کسی کی اقتداء نہیں کرتے اس نکتہ کو امام حسن علیہ السلام نے بیان فرمایاکہ ہم کو اللہ نے آداب سکھائے ہیں اور جس کو اللہ سکھائے اس کی اقتداء کی جاتی ہے وہ کسی کی اقتداء نہیں کرتا ۔
آخر پر ہم امام حسن علیہ اسلام کی کچھ نصائح بیان کرتے ہیں جو معاشرے اورمعاشرے میں رہنے والے افراد کےلئے بہت اہم ہیں،امام علیہ السلام سے پوچھا گیا فما الکَرَم ُ کہ مولا کرم کیا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے جواب ديا :
کہ سوال کرنے سے پہلے عطا کرنا اور خشک سالی میں طعام کھلانا کرم ہے
پھر امام علیہ السلام سے سوال کيا گيا :
مولا بھائی چارہ کیا ہے ؟ تو امام علیہ السلام نے جواب دیا :
بحران اور آسودہ حالی دونوں حالتوں میں وفا کرنا بھائی چارہ ہے ،
پھر سائل نے امام علیہ السلام سے کہا مولا شرف کیا ہے؟
تو امام علیہ السلام نے فرمایا "
بھائیوں کی موافقت کرنا اور پڑوسیوں کی حفاظت کرنا شرف ہے ۔
آخر پر میری یہ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں امام حسن علی السلام کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین