رمضان المبارک میں صیہونی مصنوعات کی بائیکاٹ مہم میں تیزی
گزشتہ سال غزہ پر اسرائیلی حملے اور معصوم بچوں، عورتوں کے قتل کے بعد عوامی سطح پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کے ممالک اور ان کے گلی محلّوں میں اسرائیلی اور یہودی ملکیت برانڈز اور مصنوعات کے مکمل بائیکاٹ کا پیغام پہنچ رہا ہے جو ایک سنجیدہ مہم کی صورت اختیار کرچکا ہے
گزشتہ چند دنوں کے دوران کئی تنظیموں اور انجمنوں نے عرب دنیا کے صارفین سے سپر اسٹورز میں کھجور کی مصنوعات کے لیبل چیک کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور ان پر زور دیا کہ وہ رمضان المبارک میں صیہونی قبضے سے آنے والی کھجوریں خریدنے سے گریز کریں۔
فرینڈز آف الاقصیٰ نامی تنظیم نے برطانیہ میں ایک مہم شروع کی ہے جس میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کوئی بھی پروڈکٹ خریدنے سے پہلے اس کا "لیبل چیک کریں" اور کسی بھی ایسی مصنوعات کو استعمال کرنے سے گریز کریں جو مغربی برانڈ ہو اور اس کا منافع بالواسطہ یا بلا واسطہ اسرائیل یا صیہونیت کو پہنچتا ہو۔
عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے صارفین میں اسرائیلی اور اسرائیل کی حامی مغربی کمپنیوں کے برانڈز کے بائیکاٹ کی مہم میں تیزی آرہی ہے۔ بائیکاٹ کی اس مہم کی زد میں وہ کمپنیاں بھی آرہی ہیں جو اسرائیل کے حق میں بیانات دے کر اس جنگ میں اُس کی کھلی حمایت کرچکی ہیں اور کچھ ایسی کمپنیاں بھی ہیں جو اسرائیل کو مالی امداد دینے میں پیش پیش رہتی ہیں۔
کچھ کمپنیوں کے اسرائیل کے ساتھ معاہدے بھی ہیں۔ مصر اور اردن نے کئی سال پہلے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرلیے تھے لیکن اس کے باوجود عوامی سطح پر ان کو مقبولیت نہیں ملی ۔
عوامی رجحان فلسطینیوں کی ہی طرف ہے۔
Haaretz صہیونی اخبار
کے مطابق، (صیہونی ادارہ) ماہ رمضان میں کھجوروں کو فروخت کر کے اپنی سالانہ برآمدات کا تقریباً ایک تہائی حصہ جمع کر لیتا ہے تاہم اس سال بائیکاٹ مہم سے اس کو نقصان کا سامنا ہے۔
بائیکاٹ مہم کا مقابلہ کرنے کے لیے، کمپنیوں (صیہونی اداروں) نے اپنی مصنوعات پر لیبل اور کمپنی کا نام تبدیل کر کے مارکیٹ میں مال لانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
اسرائیلی وزارت زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق صیہونی کمپنیوں کو کھجور کی پیداوار اور برآمدات کے حوالے سے ایک نمایاں ملک سمجھا جاتا ہے اور کھجور سے اچھی خاصی انکم بھی ہوتی ہے۔ مارکیٹ کے 50 فیصد حصہ پر انکی اجارہ داری ہے ۔اس کھجور کی برآمدات کی مالیت 2022 میں 338 ملین ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔
ابراہیم العوینی
ابو علی