بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے نفاذ، مسلمانوں کا سخت رد عمل

2024-03-13 10:01:35

بھارت کی موجودہ حکومت نے شہریت کے ایک متنازع ترمیمی قانون ، سی اے اے کو نافذ کر دیا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے پیر کو سوشل میڈیا ایکس کے ذریعہ بارہ بجے شب اس کے نفاذ کی اطلاع دی

شہریت کے اس ترمیمی ایکٹ (سی اے اے ) کے تحت ان ہندو، پارسیوں، سکھوں، عیسائیوں اور بودھ اور جین مت ماننے والوں اور دوسروں کو بھارت کی شہریت دی جا سکتی ہے جو 31 دسمبر 2014 سے قبل مسلم اکثریتی ملکوں، افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے فرار ہو کر ہندو اکثریتی ملک بھارت میں آئے ہوں۔

ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے شہریت قانون کو نافذ کرنے کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے، جب ملک بھر میں رمضان کا آغاز ہو چکا ہے اور کچھ ہی دنوں میں عام انتخابات کا اعلان بھی متوقع ہے۔

شہریت قانون بل بھارت کی پارلیمانی تاریخ کے متنازع ترین قوانین میں سے ایک ہے۔ وزیرِ داخلہ امت شاہ نے 9 دسمبر 2019ء کو بھارت کی پارلیمان کے ایوانِ زیریں لوک سبھا میں شہریت ترمیمی بل پیش کیا تھا۔ جسے اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔ اس کے خلاف بھارت میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہے ہوئے، جس کا سلسلہ بھارت کے کچھ حصوں میں سال بھر تک جاری رہا۔ مظاہروں اور فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑنے کے بعد اس پر عمل درآمد کے ضابطے تشکیل نہیں دیے تھے

ترجمان نے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے 2019 کے انتخابی منشور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "یہ جے پی کے 2019 کے انتخابی منشور کا ایک لازمی حصہ تھا۔ یہ بھارت میں مظلوموں کے لیے شہریت حاصل کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔"

وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ یہ قواعد CAA-2019 کے تحت اہل افراد کو بھارتی شہریت کی درخواست دینے کے قابل بنائیں گے، اور یہ کہ درخواستیں ایک ویب پورٹل کے ذریعے، جو فراہم کر دیا گیا ہے، آن لائن رجسٹر کی جائیں گی۔

مساوات پر مبنی سیکولر آئین کے حامل بھارت میں مذہبی بنیاد پر امتیاز کرنے والے اس قانون پر سخت تنقیدیں ہوئی ہیں، جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ تاہم قومیت پسند حکمراں جماعت بھارتیہ جتنا پارٹی ان اعتراضات کو یہ کہہ کر خارج کر رہی ہے کہ قانون دراصل مذہبی امتیازات کی شکار ان اقلیتوں کے لیے ہیں، جنہیں اور کہیں پناہ نہیں مل سکتی۔

مسلم گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون، شہریوں کی ایک مجوزہ قومی رجسٹریشن کے ساتھ مل کر، بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ، جو دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے، تعصبانہ سلوک کر سکتا ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ حکومت کچھ سرحدی ریاستوں میں ان مسلمانوں کی شہریت ختم کر سکتی ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود نہیں ہیں


العودة إلى الأعلى