امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی سیرت طیبہ
ولادت:
امام موسٰی کاظم ؑ کی ولادت ١٢٨ ہجری کو سر زمین "ابوا" (مدینہ کے اطراف میں ایک دیہات) پر ہوئی ۲۰ سال کی عمر مبارک میں سن ۱۴۸ھ میں والد گرامی امام جعفر صادق (ع) کی شہادت ہو جاتی ہے۔ تقریباً ۲۲ سال تک ۴ عباسی خلفاء منصور، مہدی، ہادی اور ہارون جیسے ظالم حکمرانوں کے ظلم و ستم سے گزرنے کے بعد، ہارون ہی کے زمانے میں اسی کے ظالمانہ حکم سے بغداد میں مختلف زندانوں میں رہنے کے بعد ۲۵ رجب ۱۸۳ھ میں ۵۵ سال کی عمر میں درجہ شہادت پر فائز ہوتے ہیں۔
منصب امامت کا آغاز اور داخلی اختلافات:
امام جعفر صادق (ع) کی شہادت کے بعد امام موسی کاظم (ع) بیس سال کی عمر مبارک میں منصب امامت پر ظاہری طور پر فائز ہوتے ہیں اور تقریبا پینتیس سال منصب امامت پر رہتے ہیں۔ امام موسی کاظم (ع) کی امامت کے آغاز میں ہی داخلی طور پر شیعہ مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ایک فرقہ نے امام صادق (ع) کی مہدویت کا اعلان کردیا اور مشہور کیا کہ امام صادق پیغمبر اکرم (ص) کے آخری جانشین اور قائم آل محمد ہیں۔ دوسرا گروہ وہ ہے کہ جس نے حضرت اسماعیل کی موت کا انکار کر دیا اور ان کی مہدویت کا قائل ہوا۔ تیسرا گروہ جو ہے اس نے حضرت اسماعیل کی وفات کا تو یقین کر لیا لیکن ان کے بیٹے محمد کی امامت کے قائل ہو گئے۔ چوتھا گروہ وہ ہے کہ جس نے امام صادق کے ایک اور بیٹے عبداللہ بن جعفر کو کہ جو افطح مشہور تھے امام جانا اور یہ گروہ اسی بنیاد پر فتحیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ پانچواں گروہ وہ ہے کہ جس نے بھی امام صادق کے ایک اور بیٹے کہ جو محمد دیباج کے نام سے مشہور تھے ان کو اپنا امام مان لیا۔ چھٹا گروہ کہ جس کی اکثریت تھی انہوں نے امام موسی کاظم (ع) ہی کو اپنا امام مانا اور ان کی امامت کے قائل ہوئے۔ امام موسی کاظم (ع) ان سخت ترین حالات میں منصب امامت کو سنبھالتے ہیں۔ ہشام ابن سالم کہتا ہے میں مومن طاق کے ساتھ امام صادق کی شہادت کے بعد مدینہ میں تھا کہ لوگ عبداللہ افطح کے گھر جمع ہو چکے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم بھی اسی گھر میں داخل ہو گئے، جب بیٹھے تو عبداللہ کی علمی صلاحیت دیکھنے کے لئے کہتا ہے کہ ہم نے زکات اور اس کے نصاب کے بارے میں سوال کیا لیکن عبداللہ اس کا کوئی مناسب جواب نہ دے سکا۔ ہشام کہتا ہے کہ ہم پریشانی کے عالم میں باہر نکلے اور سوچنے لگے کہ ان فرقوں میں سے کس فرقہ کا انتخاب کریں کہ اچانک ایک بوڑھے شخص نے دور سے اشارہ کیا، ہم پہلے تو سمجھے کہ یہ منصور دوانقی کے جاسوسوں میں سے کوئی جاسوس ہے کہ جسے ہماری گرفتاری کے لئے معین کیا گیا ہے اور ہوتا ایسے تھا کہ جب کسی کو گرفتار کر لیا جاتا تو اکثر طور پر اس کی گردن اڑا دی جاتی تھی۔ ہشام کہتا ہے کہ میں نے اپنے ساتھی سے کہا جلدی مجھ سے دور ہو جا اور اپنے آپ کو بچا لے جبکہ میں تو موت کے لئے تیار ہو چکا ہوں لیکن میرے اس گمان کے خلاف وہ شخص کہ جس نے اشارہ کیا تھا اس نے مجھے امام موسی کاظم (ع) کے گھر کی طرف راہنمائی کی۔ جب میں امام موسی کاظم کے پاس پہنچا تو امام نے مجھ سے فرمایا:
لا الی المرجئۃ ولا الی القدریۃ ولا الی الزیدیۃ ولی الی الخوارج، الی الی الی
مرجئہ، قدریہ، زیدیہ اور خوارج کی طرف نہ جائیں بلکہ میری طرف آئیں۔
توجہ طلب نکات:
1۔ انسان کو سخت سے سخت ترین حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیئے، بعض اوقات اپنے ہی دوست انسان کو انتہائی مشکل حالات میں چھوڑ جاتے ہیں، دوست کیا قریبی ترین رشتہ دار حتٰی بھائی انسان کا مخالف ہو جاتا ہے، امام موسی کاظم (ع) کہ جو امام برحق ہیں، چاہیئے تو یہ تھا کہ ان کا ہر حوالے سے حتٰی جان کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے ساتھ دیا جاتا لیکن بھائی اور بھتیجے دشمن کی سازش کا شکار ہو کر مقابلہ میں آ جاتے ہیں، ان تمام حالات سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کی آزمایش کتنی سخت ہے، کیا ان حالات میں ایک ہی گھر کے اندر ایک ہی امام کے فرزند ہوتے ہوئے ایک دوسرے کا مخالف ہو جائے، کیا ایسا ہو سکتا ہے جی ہاں ہو سکتا ہے۔ انسان نے اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنا ہے۔ اس تمام میں امام صادق نے بھی یقینا تربیت اور ہدایت کا حق ادا کیا اور امام موسی کاظم (ع) نے بھی اپنی تمام احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھ، اس طرف سے مشکل نہیں تھی جو بھی مشکل اور نقص تھا وہ دوسری طرف سے تھا۔
2۔ انتہائی دقت کرنے کی ضرورت ہے امام موسی کاظم (ع) فرماتے ہیں جو شخص ہمیشہ اپنا محاسبہ نہ کرے وہ ہمارا شیعہ نہیں ہے ۔ اس لئے ہر ایک اس طرح محاسبہ کرے کہ میرے ارادوں اور میری سوچ کا معیار کیا ہے؟ میں کن لوگوں کا ساتھ دیتا ہوں اور کن کی مخالفت کرتا ہوں؟ ہم نے حوزہ علمیہ کے اندر دیکھا ہے کہ ایک ہی استاد کے شاگرد ہیں، ایک منزل کمال پر پہنچتا ہے جبکہ دوسرا لوگوں کی گمراہی کا سبب بنتا ہے، یہ ہر دو افراد اپنے ہی ارادہ اور فیصلہ سے سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔
3۔ دشمن بھی ہمیشہ کسی عظیم انسان کے قریبی ترین افراد کو اس سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے اور ان کو ایک شخصیت دیتا ہے لیکن دشمن یہ سب کچھ اپنے اہداف کے لئے کر رہا ہوتا ہے ایسے بعض سادہ افراد کو استعمال کر کے اعلٰی مقصد اور اعلٰی افراد کے راستے میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے۔ اس سلسلہ کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ عظیم لوگ جو ہیں ان کے مخلص ساتھیوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے اور عظیم افراد کے عظیم اہداف کے لئے مقدمہ چینی اور زمینہ سازی کرنا چاہیئے۔ جس طرح سے ہشام کے واقعہ میں ایک بوڑھا شخص انتہائی سخت حالات میں بھی اس کی راہنمائی امام موسی کاظم (ع) کی طرف کرتا ہے اور امام کے ساتھیوں میں امام کے توسط سے اضافہ کرتا ہے۔
کیا آج امام موسی کاظم (ع) کے ماننے والے ایک دوسرے کو اعلٰی اہداف کے لئے مضبوط کرتے ہیں؟ یہ وہ چیزیں ہیں کہ جو بدیہیات میں سے ہیں ان کو سمجھنے کے لئے تو کسی فلسفہ کی ضرورت نہیں ہے۔ ممبر حسینی سے جو غلط تبلیغات کرتے رہے ہیں یا کر رہے ہیں، مقام عمل میں ان کا مقابلہ کن افراد نے کیا ہے اور ایسے افراد کی سرپرستی کن افراد نے کی ہے؟ کیا امام موسی کاظم کی زندگی صرف تاریخ کا ایک حصہ ہے یا آج کے حالات میں بھی اس سیرت کے اندر انسانیت کے لئے کئی اسباق ہیں؟ گمراہ لوگوں سے بچنے کے لئے امام نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ ان ان گروہوں کی بجائے خود ہماری طرف تم کو آنا چاہیئے، امام کا یہ فرمانا وہی ہے کہ جس طرف حدیث ثقلین میں پیغمبر اکرم (ص) بھی حکم دے چکے ہیں۔
ظالم حکمرانوں کی منافقت:
ظالم و ستم گر حکمرانوں کے ظلم و ستم کی داستانیں، حرص و ہوس کی دوڑ، دھوکہ و فریب کی کہانیاں جیسے آج کے زمانے میں ہر طرف سے سنی جا رہی ہیں، ایسے ہی اسلام کی دوسری صدی میں بھی موجود تھیں۔ بنو عباس جن کی حکومت ۱۳۲ ھ میں بنی امیہ کی سلطنت کا تختہ الٹنے کے بعد شروع ہوتی ہے اور ساتویں صدی تک باقی رہتی ہے، اس دوران اسلام کے حقیقی وارثین کو بنی امیہ کی حکومتوں کی طرح ہمیشہ نظر انداز رکھا جاتا ہے۔ منصور (۱۳۶ تا ۱۵۸ ھ )، مہدی (۱۵۸ تا ۱۶۹ ھ )، ہادی (۱۶۹ تا ۱۷۰ ھ ) اور ہارون (۱۷۰ تا ۱۸۳ ھ ) ان چاروں خلفاء عباسی کے زمانے میں امام حق، حضرت امام صادق (ع) کے فرزند، امام علی رضا (ع) اور حضرت فاطمہ معصومہ قم (س) کے والد بزرگوار حضرت امام موسٰی کاظم (ع) زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ بنو عباس اسلام کا نام لیکر اور اہلبیت کی حمایت اور پاسداری کا دعوٰی کرتے ہوئے حکومت حاصل کرتے ہیں۔ لوگوں کو دھوکہ اور فریب دیتے ہیں، منافقت کی ہر چال چلتے ہیں، اپنے آپ کو خاندان رسول سے شمار کرتے ہیں، مسجدیں تعمیر کرواتے ہیں، اسلامی حکومت کی سرحدوں کو وسعت دیتے ہیں۔ ان کی منافقت اتنی بھیانک ہے کہ آج تک ان کے دور کو اسلامی تمدن کا شاہکار کہا جاتا ہے، لیکن امام موسٰی کاظم (ع) جو پیغمبر اسلام، امیرالمومنین اور حضرت زھراء کی اولاد میں سے ہیں اور اسلام کے حقیقی امام حق ہیں، ان کو زندگی کے مختلف سالوں میں بغداد کے اندر کبھی کسی زندان میں اور کبھی کسی زندان میں قیدی بنا کر رکھا جاتا ہے۔ یہ ظالم حکمران اپنے اقتدار کے سامنے اگر کسی کو رکاوٹ سمجھتے تھے تو وہ یہی امام کاظم (ع) ہی تھے۔ ظالم لوگ ہمیشہ منافقت کرتے ہیں، دھوکہ دیتے ہیں، فریب سے کام لیتے ہیں، اسلام کا نام لیکر، دین اور قرآن کا نام لیکر، اسلامی سرحدوں کو محفوظ بنانے کا بہانہ بناتے ہوئے ہمیشہ اسلام کے خلاف اور اسلام دشمن طاقتوں کے حق میں کام کرتے ہیں۔
شہادت:
بالآخر ۲۵ رجب سن ۱۸۳ھ میں ہارون خلیفہ عباسی کے حکم سے امام موسٰی کاظم (ع) کو بغداد میں زندان میں زہر دے کر شھید کر دیا جاتا ہے۔ امام کا جنازہ اٹھانے کے لئے چار مزدورں کو بلایا جاتا ہے، جو امام کا جنازہ اٹھاتے ہیں اور پل بغداد پر رکھ دیتے ہیں اور یہ اعلان کروایا جاتا ہے کہ یہ رافضوں کے امام ہیں۔ شیعہ جمع ہوتے ہیں، امام کا جنازہ اٹھایا جاتا ہے۔ بالآخر امام کو موجودہ کاظمین میں دفن کر دیا جاتا ہے