اٹھارہ دسمبر کو دنیا بھر میں عربی زبان کا عالمی دن منایا جاتا ہے

2022-12-19 14:24:15

اٹھارہ دسمبر 1973 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عربی زبان کو اپنی سرکاری زبانوں میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ 19 فروری 2010 کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے انسانی تہذیب اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے میں عربی زبان کے اہم کردار کو تسلیم کرتے ہوئے 18 دسمبر کو اس زبان کا عالمی دن قرار دیا

آخری آسمانی کتاب قُرآن کریم کی زُبان کے سامنے فصاحت و بلاغت کے ماہرین شَشدر نظر آتے ہیں۔ انسانی تہذیب اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرنے والی عرَبی زُبان کا تعلق سامی زُبانوں کے قبیلے سے ہے، اس کے حروفِ تہجیّ کی تعداد 28 ہے۔

عربی زُبان اپنے وسیع اور جامع ادبی سرمائے کی وجہ سے دنیا کی چھ بڑی زُبانوں میں شمار ہوتی ہے، عربی کی حیات بخش قوّت، رسیلا پن اور گرامر کی جامعیت اسے دنیا کی تمام زُبانوں سے ممتاز کرتی ہے۔

عربی دنیا کے تقریبا 45 کروڑ افراد کی مادری زُبان ہے جب کہ دنیا کے پونے دو ارب مسلمان مذہبی حیثیت سے اس زُبان کا استعمال کرتے ہیں۔

عرَبی زُبان خلیج تعاون کونسل، عرب لیگ، اسلامی تعاون تنظیم، افریقی یونین اور اقوام متحدہ کی سرکاری زُبانوں میں شامل ہے۔

1973 کے پاکستانی آئین میں آرٹیکل نمبر 31 شِق 2 (ب) کے مطابق حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ عربی زُبان کی ترویج واشاعت کی طرف توجہ دے۔

عربی زبان عالم اسلام کی مشترکہ علمی و ادبی اور ثقافتی زبان ہونے کے ساتھ فی زمانہ ابلاغی و سفارتی زبان کا درجہ بھی پاچکی ہے۔اگر کسی زبان کے اندر عالمی زبان بننے کی صلاحیت ہے تو وہ فقط عربی زبان ہی ہے۔اسلامی دنیا کا سب سے زیادہ علمی ورثہ اور بنیادی مراجع و مصادر بھی عربی زبان میں ہی ہیں۔عربی زبان کی تدریسی و تحقیقی اہمیت اور موجودہ دور میں اس کی ابلاغی و سفارتی اہمیت سے بھی انکار کرنا محال ہے۔علمی، تحقیقی، ادبی، سفارتی، ابلاغی اور صحافتی و قانونی، تجارتی اور عوامی اعتبار سے دنیا بھر کی زبانوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے علاوہ چارہ نہیں کہ سوائے عربی زبان کے کسی زبان کو یہ مرکزیت حاصل نہیں کہ وہ ’’ام الالسنہ‘‘ بن جائے۔ عربی زبان ہی ہے جو علوم کے خزائن کی اہم کلید ہے۔ عربی زبان اپنے وسیع اور جامع ادبی سرمائے کی وجہ سے دنیا کی چھ بڑی زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کی جامعیت اسے دنیا کی تمام زبانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں چینی، انگریزی وغیرہ کے بعد عربی زبان کا پانچواں نمبر ہے۔ عرب دنیا کے تقریبا 40 کروڑ افراد اس کو مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں جب کہ دنیا بھر میں 1.7 ارب سے زیادہ مسلمان ثانوی حیثیت سے اس زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ قرآن کریم کی زبان ہونے کے سبب عربی کو خصوصی تقدس حاصل ہے اور دین ِ اسلام میں نماز، ذکر واذکار اور دیگر عبادتیں اس کے بغیر پوری نہیں ہوتی ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض ماہرینِ لسانیات کا خیال ہے کہ دنیا کی کسی بھی اور زبان میں اس تلفظ کا حرف نہیں پایا جاتا ہے۔ قْرون ماضی میں اسلام کے پھیلنے اور مسلمان حکمرانوں کی فتوحات نے عربی زبان کو بلند مقام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ عربی زبان دنیا کی کئی زبانوں پر براہ راست یا بالواسطہ طور پر اثر انداز ہوئی۔ ان زبانوں میں ترک، فارسی، کرد، اردو، ملیشیائی، انڈونیشی اور البانوی کے علاوہ افریقا میں ہاؤسا اور سواحلی جب کہ یورپ میں انگریزی، پرتگالی اور ہسپانوی شامل ہیں۔
حالیہ دور کے فرانسیسی مستشرقین اور محققین کا کہنا ہے کہ یورپی زبانوں کی ڈکشنریوں میں سائنس، طب، فلکیات اور دیگر علوم وفنون سے متعلق عربی کے 2500 سے زیادہ الفاظ موجود ہیں۔ اس وقت یورپ میں عربی زبان بولنے والوں کی تعداد 2 کروڑ سے زیادہ ہے۔ موجودہ ڈیجیٹل دور میں بالخصوص سوشل ویب سائٹس پر عربی زبان کا استعمال تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 10 برسوں کے دوران انٹرنیٹ پر استعمال ہونے والی زبانوں میں عربی زبان نے سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کی ہے۔ عربی کو کئی علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کی سرکاری زبان ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ان میں عرب لیگ، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)، افریقی یونین اور اقوام متحدہ شامل ہیں۔دنیا بھر میں تو عربی زبان کی اہمیت اور مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عربی زبان اپنے اندر وہ تمام خوبیاں رکھتی ہے جو اس عالم گیریت (گلوبلائزیشن) کے دور میں پوری دنیا کی مشترکہ زبان کے طور پر اپنائی جا سکتی ہے۔ مگرافسوس کا مقام ہے کہ یہ زبان غیروں کی عداوت اور اپنوں کی غفلت کے سبب اس مقام کو نہیں پا سکی۔ بحیثیت مسلمان عربی زبان کو اس کا حق دلانا ہم سب کی ذمہ داری ہے جس کے لیے ہمیں مل کر کوشش کرنا ہو گی۔بطور خاص عرب ممالک کو مملکت سعودیہ عربیہ کی طرح اس زبان کو عالمی زبان کی حیثیت دلانے کے لیے پوری طرح کمربستہ ہونا پڑے گا ، تبھی اس کو وہ مقام مل سکتا ہے ،جس کا یہ زبان متقاضی ہے

العودة إلى الأعلى