دریائے دجلہ کے خشک ہونے پر 3400 سال پرانا شہر نمودار
دنیا بر میں آب و ہوا کی تبدیلی کے سبب ماہرینِ آثار قدیمہ کے ایک بین الاقوامی ٹیم کو دریائے دجلہ پرساڑھے تین ہزار برس قدیم بستی دریافت ہوئی ہے ، ماہرین نے اندازہ ظاہر کیا ہے کہ دریائے دجلہ کے خشک ہونے والے حصے سے ظاہر ہونے والی بستی 1475 قبل مسیح سے 1275 قبل مسیح کے درمیان قائم ہوئی تھی
صوبہ دھوک کے آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جناب ڈاکٹر بیکس بریفکانی نے ایک پریس بیان میں بتایا کہ دریائے دجلہ میں پانی کی کمی کے سبب عراق کے صوبہ دھوک کے غرب میں ضلع سمیل کے ایک گاوں کمونہ جہاں ۳۴۰۰ قبل مسیح سلطنت میتانی کے دور کا ایک شہر دریافت ہوا ہے
سن 2018 میں بھی جب پانی کم ہوا تھا تو محققین نے ایک چھوٹی پہاڑی کے قریب ایک قلعہ نما محل دریافت کیا تھا۔ ایوانی کی ٹیم کو اس مرتبہ اسی جگہ سے سرخ اور نیلے رنگ کی پینٹنگز باقیات ملیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پانی میں رہنے کے باوجود مصوری کے رنگ محفوظ دیکھ کر انہیں یقین تھا کہ وہاں آثار قدیمہ کی دلچسپی کی بہت سی چیزیں ہیں دریافت ہونے والی باقیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہماری امیدیں کافی تھیں لیکن ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اب کیا دریافت ہو گا۔
کینفارم یعنی خط میخی نصوص کے مطابق ،جسے تحقیقاتی ٹیم تلاش کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور ان نتائج سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ۱۳۵۰ سے۱۵۵۰ قبل مسیح کے درمیان میتانی سلطنت کا ایک اہم ثقافتی مرکز تھا۔
دوسری جانب کردستان کے آثار قدیمہ کی تنظیم کے مسوول حسن احمد نے پریس ریلیز میں واضح کیا کہ کھدائی کے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد شہر اور اسکی سڑکیں ، مکانات اور نقشے کا تعین کیا گیا ہے ۔ اور وہ گھر جو ۲۰۱۸ میں ملے تھے اس کے ساتھ ۲۰۰ پینلز خط میخی کے نمونے اس علاقے میں لوگوں کی زندگی کے آثار کو بیان کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دھوک میں آثار قدیمہ کے ڈائریکٹوریٹ اور ورثہ کی ٹیم ، کردستان کی نوادرات کی تنظیم اور جرمن یونیورسٹیز ٹوبیگن اور فیربرگ کی طرف سے اس مقام پر ۴۰چالیس روز کھدائی کا کام انجام دیا گیا جس کے بعد اس جگہ کو ڈھانپ لیا گیا اسے محفوظ کرنے کی غرض سے ا س کے اوپر پلاسٹک اور مٹی کو ڈال دیا گیا
عباس نجم
ابو علی