مولائے کائنات علیؑ ابن ابی طالب ؑ کے اخلاق حسنہ

2022-04-22 14:39:54

تحریر شیخ شہبار حسین

خالق کائنات نے اپنے آخرینبی اور رسول کو رحمت العالمين بنايا اور اس کے ساتھ خلق عظيم کا مالک بنايا اور رسالتمآب صل اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنے بعد امت کو تنہا نہيں چھوڑا بلکہ ايک وصیاور وارث ديا جس کو اللہ تعالی نے آيت مباھلہ ميں نفس رسول ص قرار ديا  وہ کوئی عام ہستی نہيں ہيں بلکہ جس کیتربيت خود رسول اللہ ص نے فرمائی جس کے بارے ميں امير کائنات علی عليہ السلام خود ارشاد فرماتے ہيں کہ :

وَلَقَدْ كُنْتُ أَتَّبِعُهُ اتِّبَاعَ الْفَصِيلِ أَثَرَ أُمِّهِ، يَرْفَعُ لیفِیكُلِّ يَوْمٍ عَلَماً مِنْ أخْلاقِهِ، وَيَأْمُرُنیبِالْإِقْتِدَاءِ بِهِ.

ترجمہ : ميں ان کے پيچھے پيچھے يوں لگا رہتا تھا جيسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پيچھے , آپ ہر روز ميرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کرتے تھے نهج البلاغه خطبه قاصيةاور مجھے ان کی پيروی کا حکم ديتے تھے .

نتيجہ ميں جس طرح مدينہ العلم اخلاق حسنہ کے اتم ، اکمل اور کمال کے درجہ پر فائز ہيں  اسی طرح باب مدينہ العلم ہيں ۔

جس طرح کسی بشر کی مجال ہی نہيں کہ دريا کو کوزے ميں بند کرسکے اسی طرح کی بشر کی بساط ميں نہيں کہ مولائے کائنات علی عليہ السلام کے کمالات ، فضائل اور اخلاق حسنہ کو کما حقہ اپنی تحرير ميں بيان کرسکے کيونکہ وہ سراپا حسن اخلاق کے مالک ہيں اور ان کی پوری زندگی اور زندگی کا ہر لمحہ حسن اخلاق سے سرشار ہے چاہے ذاتی زندگی ہو يا معاشرتی، خانہ داری ہو يا حکومتی امور ، صلح ہو يا جنگ خلاصہ يہ کہ زندگی کے تمام امور ميں سراپا حسن اخلاق تھے دوسرے الفاظ ميں اخلاق حسنہ کو مجسم صورت ميں ديکھنا ہے تو وہ رسالتمآب ﷺ  کے بعد مولائے کائنات امير المومنين علی بن ابیطالب علیہ السلام کو ديکھے۔

امام علی عليہ السلام حسن خلق کو مومن کے نامہ اعمال کا سفرنامہ قرار ديتے ہوئے ارشاد فرماتے ہيں کہ :

 عنوانُ صحيفةُ المؤمن حسنُ خُلقه  ترجمہ:مومن کے نامہ اعمال کا عنوان حسن خلق ہے ۔

ہم اس مقالہ ميں امام عليہ السلام کے اخلاق حسنہ کے چند نمونے روايات کی روشنی میں بيان کريں گے ۔

تواضع اور انکساري

جس طرح علم ، شجاعت ، کرم اور دوسری فضيلت ميں انسان کی قيمت کو ظاہر کرتی ہيں اسی طرح تواضع اور انکساری انسان کی شخصيت کا پتہ ديتی ہيں کہ وہ اپنے کريم رب کے کتنے قريب ہيں ۔

تواضع اور انکساری کے بارے ميں اللہ تعالی اپنے  پيارے حبيب ﷺ کو فرما رہا ہے کہ :

 وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ 

سورہ الحجر آيت 88۔ترجمہ : آپ مومنوں کے ساتھ تواضع سے پيش آئيں۔

اور جس طرح انسان عبادتوں نماز روزہ حج زکات خمس جہاد وغيرہ کے ذريعے اپنے رب کا قرب حاصل کرتا ہے اسی طرح تواضع اور انکساری کے ذريعے اپنے رب کے قريب ہوتا ہے کيونکہ يہ بھی ايک عبادت ہے ۔ امير کائنات مولا علی عليہ السلام سے روايت ہے کہ التواضع من اعظم العبادة : تواضع اور انکساری عظيم عبادتوں ميں سے ہے ۔

امير کائنات علی عليہ السلام اپنے گھر ميں تواضع اور انکساری سے زندگی گزارتے تھے روايت کے الفاظ ہيں کہ:

كَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلَامُ) يَحْطِبُ‏ وَ يَسْتَقِیوَ يَكْنُسُ، وَ كَانَتْ فَاطِمَةُ (عَلَيْهَا السَّلَامُ) تَطْحَنُ وَ تَعْجِنُ وَ تَخْبِز

آپ عليہ السلام لکڑياں جلاتے ، پانی بھر کر لاتے ، جھاڑو ديتے اور جب کہ سيدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا آٹا گوندتیاور روٹی پکاتی تھيں ۔اور اسی طرح بازار سے اپنی ضرورت کی اشياء خود خريدتے تھے اور خود اٹھا کے گھر لاتے تھے

روايت ميں وارد ہوا ہے کہ:ايک دن ايک شخص نے ديکھا کہ مولا علی عليہ السلام سامان اٹھا کے جا رہے ہيں اسی وقت ايک شخص آگے بڑہا اور کہا کہ :یا امیر المومنین: ہم آپ کی خدمت ميں حاضر ہيں يہ سامان ہميں ديں ہم اٹھاتے ہيں ۔

 امام علی عليہ السلام نے ارشاد فرمايا  : صاحب عيال سب سے زيادہ حق رکھتا ہے کہ وہ سامان خود اٹھائے (اور دوسروں پر بوجھ نہ بنے ۔

اور اسی طرح ايک صحابی روايت کرتے ہيں کہ:امام علی عليہ السلام جب خليفہ وقت تھے تو اکيلے بازار جاتے تھے ، گمشدہ کو راستہ بتاتے تھے ، کمزوروں  کی مدد کرتے اور جب تاجروں سے گزرتے تو قرآن کی تلاوت فرماتے :

 تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِيْنَ لَا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِیالْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا۔ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ

ترجمہ: آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے ليے بنا ديتے ہيں جو زمین ميں بالادستی اور فساد پھيلانا نہيں چاہتے اور (نيک) انجام تو تقوی والوں کے ليے ہے۔ (سورہ قصص آيت 83

اور اس کے بعد ارشاد فرماتے کہ :نزلت ھذہ الآيات فی اھل العدل و التواضع من الولاة و اهل القدرة من سائر الناس ترجمہ:يہ آيات ان حاکموں کے ليے نازل ہوئی ہيں جو صاحب عدل اور تواضع اور انکساری ہيں اور لوگوں ميں سے جو صاحب قدرت ہيں (تفسير نور الثقلين ج4 ص144)

اور اسی طرح کی دوسری روايات سے روز روشن کی طرح عياں ہوتا ہے کہ آپ عليہ السلام تواضع اور انکساری کی زندہ و جاويد تصوير ہيں اور آپ عليہ السلام کے ماننے اور چاہنے والوں کو چاہيے کہ اس عظيم عبادت کو انجام ديں اور غور و فکر کرنا چاہيے کہ ہم نے اپنے امام عليہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زندگی کا کتنا حصہ تواضع اور انکساری کے ساتھ گزرا ہے  اگر جواب ہاں ميں ہے تو ہم اپنے مولا علی عليہ السلام کی زندگی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہے ہيں اور اگر جواب نفی ميں ہے تو ہميں کوشش کرنی چاہيے ۔

جود و سخا اور لوگوں کی حاجتوں کو پورا کرنا

عطا کرنا اولياء اللہ کی بارزترين صفات ميں سے ايک صفت ہے اور اولياء الله کے سردار علی ابن ابیطالب عليہ السلام ہيں چاہے مال و دولت کی قربانی ہو يا زندگی اور وقت کی۔اور آپ اتنے کريم تھے کہ زندگی ميں کبھی بھی سائل کو انکار نہيں کیا ہے

اور اسی صفت کو روايت کے مطابق خالق کائنات نے اپنے لاريب کتاب ميں ذکر فرمايا :

 ابن عباس سے روايت ہے کہ مولائے کائنات علی عليہ السلام کی ملکيت ميں صرف چار درہم تھے ايک درہم کو رات کے وقت صدقہ کيا اور ايک درہم کو دن کے وقت صدقہ کيا اور ايک چھپا کے صدقہ کيا اور آخری درہم کو ظاہر کر کے صدقہ کيا تو خالق کائنات نے امير المومنين علی عليہ السلام کے حق ميں يہ آيت نازل فرمائی کہ :

 اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّيْلِ وَالنّهارِ سِرًّا وَّعَلَانيةً فَلَهُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْن

جو لوگ اپنا مال شب و روز پوشيدہ اور علانيہ طور پر خر چ کرتے ہيں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور انہيں نہ کوئی خوف لاحق ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔

کائنات ميں ايک ہی در ہے جہاں سے خود جود و سخا  بھيک مانگتی نظر آ رہی ہے  وہ کريم دروازہ اہل البيت علیہم السلام ہے اس بات پر شاہد سورہ دہر کی ابتدائی آيات ہيں ۔

جود و سخا کی طرح مولائے کائنات ؑ لوگوں کی حاجتوں کو پورا فرماتے تھے اور کمزوروں کو اپنا حق واپس دلاتے تھے ۔

نتيجہ ميں مومن کے ليے ضروری ہے  کہ امير المومنین علی عليہ السلام کے اس اخلاق حسنہ کو اپنائے اور اس اخلاق حسنہ سے درس ليتے ہوئے ہميشہ دشمن کے ساتھ عدل سے پيش آئے ، لوگوں پر احسان کرے اور مومنین پر ايثار کرے اور خصوصاً غريبوں اور يتيموں اور بے سہارا لوگوں کا خاص خيال رکھے کيونکہ ان کاموں کے خاص فوائد ہيں اور ان ميں سے ايک يہ ہے کہ انسان کی زندگی ميں برکت آتی ہے ۔

خلاصہ کلام يہ کہ مولائے کائنات امير المومنين علی ؑ کی حيات طيبہ تمام انسانوں کے ليے اسوہ حسنہ ہے اسی زندگی کی ايک جھلک يہ اخلاق حسنہ ہيں جن کو اوپر بيان کيا ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ امام علی عليہ السلام کے چاہنے والوں کا يہ اخلاقی فريضہ بنتا ہے کہ اپنے باطن ميں نيک اخلاقی صفات کو راسخ کريں اور اسی طرح اخلاقی رذيلتوں سے اپنے آپ کو دور رکھيں تاکہ معاشرے کے لئے سومند اور فائدہ مند بن سکيں ۔

العودة إلى الأعلى