مسلمان کی ذمہ داری

2022-03-26 14:29

مسلمان  کی ذمہ داری غیر مسلم ممالک میں

دین اسلام لوگوں کے درمیان موجود اختلافات کا معترف ہے اور یہ اعتراف امر عبث نہیں ہے بلکہ اسکے لئے قرآن مجید کی صراحت موجود ہے اور یہ اعتراف ان مصادر سے بھی ثابت ہے جن کو غیر مسلمین محققین دین اسلام کی تحقیق کیلئے معتبر قرار دیتے ہیں

قرآن مجید میں ارشاد ہواہے : يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ

ترجمہ : اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے

یہ اعتراف مربوط ہے ایک سنت الہی کے ساتھ جو سنت الہی خلقت کے بارے میں ہے اوراس سنت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی

فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّـهِ تَحْوِيلًا

  ترجمہ : لہٰذا آپ اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے اور نہ آپ اللہ کے دستور میں کوئی انحراف پائیں گے

 اور اس اختلاف کی خلقت کامقصد چاہے اختلاف جنس کے لحاظ سے ہو یا قبیلہ کے لحاظ سے جس طرح قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے  :وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ

ترجمہ : اور آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے، علم رکھنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں

فقط قبائل اور اقوام کا تعارف،تکامل اور ان کے امور زندگی کو آسان قرار دینا ہے

آسمانی شریعتیں تدریجی طور پر نازل ہوئیں اور ان کے احکام میں جزوی اختلاف اس زمانہ کے تقاضے کے مطابق تھا اگرچہ شرائع متعدد تھیں لیکن تمام شرائع دین واحد کی نمائندہ تھیں جو رب واحد کی طرف سے نازل کیا گیا تھا لیکن اللہ تعالی کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ اس دین مقدس اسلام کو    إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ     ترجمہ : اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے

مراحل میں نازل کیا جائے اور ہر مرحلہ کو شریعت کا نام دیا گیا جیسے شریعت موسی ع اور شریعت عیسی ع بعض شرائع کے احکام بعد میں آنے والی شریعت کی وجہ سے منسوخ ہوگئے یہاں تک کہ اسلام کا ظہور ہوا لیکن پھر بھی کسی پر جبر نہیں ہے جس طر ح ارشادباری تعالی ہے       : لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيّ      ترجمہ: دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں

وہ لوگ جنہوں نے زمانہ کے گذرنے کے ساتھ فاسد ادیان کا انتخاب کیا پھر بھی اللہ تعالی کی طرف سے انکو مجبور نہیں کیا گیا کہ آپ دین مبین اسلام کو قبول کریں جو ہلاکت سے نجات دینے والا ہے بلکہ نبی کریم ص کو حکم باری تعالی ہوا کہ کافروں کو خبر دیں کہ :

 قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ (1) لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ (2) وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ (3) وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ (4) وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ (5) لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ

ترجمہ :  ۱۔کہدیجئے: اے کافرو  ۲۔ میں ان (بتوں) کو نہیں پوجتا ہوں جنہیں تم پوجتے ہو ۳۔ اور نہ ہی تم اس (اللہ) کی بندگی کرتے ہو جس کی میں بندگی کرتا ہوں۔4 ۔ اور نہ ہی میں ان (بتوں) کی پرستش کرنے والا ہوں جن کی تم پرستش کرتے ہو ۵۔ اور نہ ہی تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ۶۔ تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین،

جب یہ ثابت ہواکہ دین اسلام اختلاف راء کا اعتراف کرتا ہے اور اسلئے کہ تمام مسلمان آپس میں باہمی کامل رابطہ رکہتے ہیں،دنیا کے مختلف قبائل اور معاشروں میں مختلف فرقوں کے باوجود باہمی رابطہ کی آسانی کیلئے جومسلمان غیر اسلامی ملک میں زندگی بسرکر رہا ہو اس پر فرض ہے کہ اپنے واجبات کی اور حقوق کی معرفت رکھے تاکہ ان معاشروں میں دینی مخالفت کے بغیر زندگی گذار سکے،

اس پر مندرجہ ذیل کی واجبات کی معرفت فرض ہے

1 :پہلے  دل والے انسان کی طرح اپنے ہم عقیدہ کی معرفت رکھے اور آپس میں اپنی پہچان کا تبادل کریں اس طرح اپنے مخالف کے عقیدہ کی معرفت رکھے اور جو کنارہ کش ہے اسے حقیقی اسلام کی معرفت کروائےاور اس پر فرض ہے کہ وہ اسلام کو قبول کرے ان شرائط کے ساتھ جو شریعت اور اسلامی شناخت کے منافی نہ ہواور بقدر امکان ذوق عام اور اس معاشرہ کے اخلاقیات کا پاس کرے جس میں وہ زندگی بسرکر رہا ہے

2 :مخالف کیلئے ان چیزوں اور امور کو بیان کرےجو اسلام میں تمام انسانوں کے یکساں ہیں عقائد میں اختلاف کے باوجود،اور یہ کہ شریعت اسلام عالمگیری ہے اور زندگی کا مکمل ثقافتی دستور ہے اور اسلام کا کوئی واسطہ نہیں حدود سے تجاوز کرنے والوں کے اعمال کے ساتھ جو دعوی کرتے ہیں کہ وہ پرچم اسلام کے حاملین ہیں حالانکہ اسلام تمام انسانوں کیلئے رحمت ہےہم نے تمھیں نہیں بھیجا مگر تمام انسانوں کیلئے بشیر اور نذیر بنا کر لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے

3 حقیقی اسلام کے اخلاق کا اظہار کرنا چاہیے جیسے اچھا ہمسایہ ہونا ،مریضوں کی عیادت کرنا اور امانتیں ادا کرنا اور آپس میں بھائی چارہ رکھنا وغیرہ تاکہ عملی طور پر اسلام کی تعریف ہو جیساکہ حضرت اما م جعفر صادق ع نے اپنے شیعہ کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں "ہمارے لیے خاموش د عوت دینے والے بنو لوگوں نے عرض کیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے اے  فرزند رسول ص ،تو امام ع نے فرمایا : اللہ کی اطاعت کرو  اس پر عمل کرو جس کا ہم نے تمہیں حکم دیا ہے،اور اسکی معصیت نہ کرو  اس سے رک جاءو جس سے ہم نے تمہیں روکا ہے

4 ان تمام قوانین کا پابند رہنا جو تمام غیر اسلامی مما لک میں جاری ہیں جو شریعت اسلام کے مخالف نہیں ہیں اور جن میں معاشرہ کے نظام کی حفاظت ہےاور یہ وصیت ہے وہاں موجود تمام مسلمانوں کیلئے

5 اپنے دین میں سستی نہ برتے اور اشیاء خوردونوش میں حرام چیزوں سے پرہیز کرے جو ان ممالک میں مباح جیسے شراب اور خنزیر اور حلال جانوروں کا گوشت جن کواسلامی طریقہ کے مطابق ذبح نہیں کیا گیاہے ۔غیروں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا مطلب اپنے ہاں ثابت شدہ حقائق سے پیچھے ہٹنا نہیں ہے بلکہ غیر بھی اس مسلمان کا احترام کرتے ہیں جو ثابت قدم ہو

6 اپنا تحفظ کرنا ثقافت اور دینی امور سے معرفت کے ساتھ یعنی جو قرآن اور حد یث نبی ص اور آئمہ اہل  بیت میں آیا ہے اس سے آگاہی حاصل کرے ،اپنے عقیدہ کو محکم بنانے اور غیروں کے عقائد سے متاثر نہ ہونے کیلئے اپنی علمی صلاحیت کو بڑئے  اور اپنی عقیدے کے بارے میں معرفت رکھیں

7 غیروں کے ساتھ ان کفریہ عقائد میں بحث ومناظرہ کرنے سے پرہیز کرے اور سرکاری مذاہب سے جو غیر اسلامی ممالک میں  رائج ہیں۔

8 اگر کسی مسلمان کاعقیدہ کمزور ہے تو وہ مخالفوں کو سننے اور مشاہدہ کرنے سے پرہیز کرے جو دین اسلام کی نابودی کے منتظر ہیں اور اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ان ممالک میں میڈیا اور چینل کے واسطہ جو حقائق اسلام کے متعلق جھوٹی اور من گھڑت باتیں نشر کرتے ہیں

9 دہشتگرد تنظیموں سے دوری اختیار کرنا ان تنظیموں کے بانی،اسلام کے دشمن ہیں ان تنظیموں کی پشت پناہی صیہونی قوتیں اور مغربی ایجنسیاں کر رہی ہیں،صحیح اور سالم فکر ہی کے ذریعے ان تنظیموں سےمحفوظ رہا جا سکتا ہے

10 غیر مسلم کے ساتھ بھی احسن طریقہ سے بحث و گفتگو کو جاری رکہنا ان کو دعوت اسلام دینا جیساکہ قرآن مجید میں ذکر ہواہے : ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ

ترجمہ  :(اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے

11 مخالفین کے ساتھ تمام معاملات میں نبی کریم ص  کی سیرت کو مشعل راہ قرار دینا جس طرح قرآن مجید میں ارشاد ہواہے : لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ

ترجمہ  :تحقیق انہی لوگوں میں تمہارے لیے ایک اچھا نمونہ ہے ان کے لیے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتے ہیں اور جو کوئی روگردانی کرے تو اللہ یقینا بے نیاز، قابل ستائش ہے

العودة إلى الأعلى