مبعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بزبان امیر المومنین علیہ السلام

2022-03-01 10:44

مولا علی علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث برسالت ہونے کے بارے تفصیل کے ساتھ مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ عظیم الہی نمائندہ ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے خاتم نبیین و مرسلین قرار دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا دین عطا فرمایا ہے جس کے بعد کوئی اور دین قابل قبول نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو دین عطاء فرمایا اس دین کے اکمال ہونے کی بشارت قرآن مجید میں صریحا دے کر قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے بتایا کہ اسلام محمدی ہی وہ دین فطرت ہوگا جس کے علاؤہ کوئی اور دین قابل تصور نہیں ہے لہذا اس دین کو پہنچانے کے لئے  اس زمانے کے لوگوں کے حالات زندگی کو بیان کرنا ضروری ہے اس لیے امیر المومنین علی علیہ السلام نے بعثت سے پہلے کیسے یہ کفار و مشرکین زندگی گزارتے  تھے اور کیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ہدایت فرمائی اور کیسے اس جہالت و گمراہی کے اندھیروں سے نور کی طرف نکال کر لایا بیان فرمایا ہے۔

بعثت سے پہلے لوگوں کی حالت کے بارے میں آپ علیہ السلام نے فرمایا

اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام جہانوں کو (ان کی بد اعمالیوں سے) متنبہ کرنے والا اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا۔ اے گروہ عرب! اس وقت تم بد ترین دین پر اور بد ترین گھروں میں تھے، کھردرے پتھروں اور زہریلے سانپوں میں تم بود و باش رکھتے تھے، تم گدلا پانی پیتے اور جھوٹا کھاتے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے اور رشتہ قرابت قطع کیا کرتے تھے۔ بت تمہارے درمیان نصب  تھے اور گناہ تم سے چمٹے ہوئے تھے۔

خطبہ 26

اسی طرح (خطبہ نمبر 93)میں ارشاد فرمایا

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس وقت میں بھیجا کہ جب لوگ حیرت و پریشانی کے عالم میں گم کردۂ راہ تھے اور فتنوں میں ہاتھ پیر مار رہے تھے، نفسانی خواہشوں نے انہیں بھٹکا دیا تھا اور غرور نے بہکا دیا تھا اور بھر پور جاہلیت نے ان کی عقلیں کھو دی تھیں اور حالات کے ڈانواں ڈول ہونے اور جہالت کی بلاؤں کی وجہ سے حیران و پریشان تھے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں سمجھانے بجھانے کا پورا حق ادا کیا، خود سیدھے راستے پر جمے رہے اور حکمت و دانائی اور اچھی نصیحتوں کی طرف انہیں بلاتے رہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیسے نور ہدایت کو اس جہالت و گمراہی کے راستے پر چلنے والوں تک پہنچایا اس حوالے سے فرمایا

جب اللہ نے محمد ﷺ کو بھیجا تو عربوں میں نہ کوئی (آسمانی) کتاب کا پڑھنے والا تھا اور نہ کوئی نبوت و وحی کا دعوے دار۔ آپؐ نے اطاعت کرنے والوں کو لے کر اپنے مخالفوں سے جنگ کی۔ جب کہ آپؐ ان لوگوں کو نجات کی طرف لے جا رہے تھے اور قبل اس کے کہ موت ان لوگوں پر آ پڑے، ان کی ہدایت کیلئے بڑھ رہے تھے۔ جب کوئی تھکا ماندہ رک جاتا تھا اور خستہ و درماندہ ٹھہر جاتا تھا تو آپؐ اس کے (سر پر) کھڑے ہو جاتے تھے اور اسے اس کی منزل مقصود تک پہنچا دیتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی ایسا تباہ حال ہو جس میں ذرّہ بھر بھلائی ہی نہ ہو۔ یہاں تک کہ آپؐ نے انہیں نجات کی منزل دکھا دی اور انہیں ان کے مرتبہ پر پہنچا دیا، چنانچہ ان کی چکی گھومنے لگی اور ان کے نیزے کا خم جاتا رہا۔ خدا کی قسم میں بھی انہیں ہنکانے والوں میں تھا۔ یہاں تک کہ وہ پوری طرح پسپا ہو گئے اور اپنے بندہنوں میں جکڑ دئیے گئے۔ اس دوران میں نہ عاجز ہوا نہ بزدلی دکھائی، نہ کسی قسم کی خیانت کی اور نہ مجھ میں کمزوری آئی۔ خدا کی قسم! میں (اب بھی) باطل کو چیر کر حق کو اس کے پہلو سے نکال لوں گا۔خطبہ 102

اسی طرح کیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اور کیسے آپ علیہ السلام نے ابلیس کی چیخ سن لی اور کفار و مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معجزے کا مطالبہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیسے عظیم معجزہ دکھایا تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرمایا

اللہ نے آپؐ کی دودھ بڑھائی کے وقت ہی سے فرشتوں میں سے ایک عظیم المرتبت ملک (روح القدس) کو آپؐ کے ساتھ لگا دیا تھا جو انہیں شب و روز بزرگ خصلتوں اور پاکیزہ سیرتوں کی راہ پر لے چلتا تھا اور میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے۔ آپؐ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کرتے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے اور ہر سال (کوہ)حرا میں کچھ عرصہ قیام فرماتے تھے اور وہاں میرے علاوہ کوئی انہیں نہیں دیکھتا تھا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور (اُمّ المومنین) خدیجہؑ کے گھر کے علاوہ کسی گھر کی چار دیواری میں اسلام نہ تھا البتہ تیسرا ان میں مَیں تھا۔ میں وحی و رسالت کا نور دیکھتا تھا اور نبوت کی خوشبو سو نگھتا تھا

جب آپؐ پر (پہلی) وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی ایک چیخ سنی جس پر میں نے پوچھا کہ: یا رسول اللہؐ! یہ آواز کیسی ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ: یہ شیطان ہے کہ جو مایوس ہو گیا ہے۔ (اے علیؑ!) جو میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو، فرق اتنا ہے کہ تم نبی نہیں ہو بلکہ (میرے) وزیر و جانشین ہو اور یقیناً بھلائی کی راہ پر ہو»۔

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا کہ قریش کی ایک جماعت آپؐ کے پاس آئی اور انہوں نے آپؐ سے کہا کہ: اے محمدؐ! آپؐ نے ایک بہت بڑا دعویٰ کیا ہے۔ ایسا دعویٰ نہ تو آپؐ کے باپ دادا نے کیا نہ آپؐ کے خاندان والوں میں سے کسی اور نے کیا۔

ہم آپؐ سے ایک امر کا مطالبہ کرتے ہیں، اگر آپؐ نے اسے پورا کر کے ہمیں دکھلا دیا تو پھر ہم بھی یقین کر لیں گے کہ آپؐ نبی و رسول ہیں اور اگر نہ کر سکے تو ہم جان لیں گے کہ (معاذ اللہ!) آپؐ جادوگر اور جھوٹے ہیں۔ حضرتؐ نے فرمایا کہ: وہ تمہارا مطالبہ ہے کیا؟ انہوں نے کہا کہ آپؐ ہمارے لئے اس درخت کو پکاریں کہ یہ جڑ سمیت اکھڑ آئے اور آپؐ کے سامنے آ کر ٹھہر جائے۔

آپؐ نے فرمایا کہ: بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اگر اس نے تمہارے لئے ایسا کر دکھایا تو کیا تم ایمان لے آؤ گے اور حق کی گواہی دو گے؟ انہوں نے کہا کہ: ہاں! آپؐ نے فرمایا کہ: اچھا! جو تم چاہتے ہو تمہیں دکھائے دیتا ہوں اور میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم بھلائی کی طرف پلٹنے والے نہیں ہو۔ یقیناً تم میں کچھ لوگ تو وہ ہیں جنہیں چاہ (بدر) میں جھونک دیا جائے گا اور کچھ وہ ہیں جو (جنگ) احزاب میں جتھا بندی کریں گے

پھر آپؐ نے فرمایا کہ: اے درخت! اگر تو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اور یہ یقین رکھتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو اپنی جڑ سمیت اُکھڑ آ، یہاں تک کہ تو بحکم خدا میرے سامنے آ کر ٹھہر جائے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا تھا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا! وہ درخت جڑ سمیت اکھڑ آیا اور اس طرح آیا کہ اس سے سخت کھڑکھڑاہٹ اور پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ کی سی آواز آتی تھی، یہاں تک کہ وہ لچکتا جھومتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رو برو آ کر ٹھہر گیا اور بلند شاخیں ان پر اور کچھ شاخیں میرے کندھے پر ڈال دیں اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دائیں جانب کھڑا تھا۔

جب قریش نے یہ دیکھا تو نخوت و غرور سے کہنے لگے کہ اسے حکم دیں کہ آدھا آپؐ کے پاس آئے اور آدھا اپنی جگہ پر رہے۔ چنانچہ آپؐ نے اسے یہی حکم دیا تو اس کا آدھا حصہ آپؐ کی طرف بڑھ آیا، اس طرح کہ اس کا آنا پہلے آنے سے بھی زیادہ عجیب صورت سے اور زیادہ تیز آواز کے ساتھ تھا اور اب کے قریب تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے لپٹ جائے۔ اب انہوں نے کفر و سرکشی سے کہا کہ: اچھا اب اس آدھے کو حکم دیجیے کہ یہ اپنے دوسرے حصے کے پاس پلٹ جائے جس طرح پہلے تھا۔ چنانچہ آپؐ نے حکم دیا اور وہ پلٹ گیا۔ میں نے (یہ دیکھ کر) کہا کہ: لاالہ الا اللہ، اے اللہ کے رسولؐ! میں آپؐ پر سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں اور سب سے پہلے اس کا اقرار کرنے والا ہوں کہ اس درخت نے بحکم خدا آپؐ کی نبوت کی تصدیق اور آپؐ کے کلام کی عظمت و برتری دکھانے کیلئے جو کچھ کیا ہے وہ امر واقعی ہے (کوئی آنکھ کا پھیر نہیں)۔

یہ سن کر وہ ساری قوم کہنے لگی کہ: یہ (پناہ بخدا!) پرلے درجے کے جھوٹے اور جادوگر ہیں، ان کا سحر عجیب و غریب ہے ۔

اختصار کی خاطر اتنے ہی فرامین عالیہ پر اکتفاء کرنے پر مجبور ہیں وگرنہ آپ علیہ السلام نے مبعث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے جو تفصیلات بیان فرمایا ہے وہ جمع کریں تو ایک بہترین مختصر کتاب بن سکتی ہے۔

(اقتباس ’’خطبہ قاصعہ‘‘ 190

ترجمہ حضرت علامہ مفتی جعفر حسین اعلیٰ اللہ مقامہ ۔ترتیب و تدوین ابو ریحان غازی

العودة إلى الأعلى