اميرالمؤمنين علي عليہ السلام کے ممتاز اخلاق کے چند نمونے

2022-02-12 19:51

شيخ شہباز حسين مہراني

خالق ِ کائنات نے انسان کي تعليم و تربيت کےلئے انبياء کو مبعوث کيا ہےاور انبياء الٰہي کے سلسلے کے اختتام کے بعد امامت کا سلسلہ  شروع کيا کيونکہ خالق ِ کائنات کا اٹل فيصلہ ہے کہ ولکل قوم ِِ ھاد (سورہ رعد آیت 7)ہر قوم کےلئے ايک ھادي اور رہبر کا ہونا ضروري ہے ۔ يہي سبب ہے کہ رسالت مآب ﷺ کے بعد اس کے بارہ جانشينوں ميں سے کوئي ايک زمانہ ميں موجود ہے ۔

اللہ تعاليٰ نے خاتم الانبياء ﷺ کي زندگي کو تمام عالمِ انسانيت کےلئے نمونہ عمل قرار ديا ہے ارشاد ِ رب العزت ہے لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (سورہ احزاب آیت 21)با تحقيق تمہارے لئے اللہ کے رسول ميں بہترين نمونہ ہے۔

 اسي طرح امير المؤمنين علي عليہ السلام کي حياتِ طيبہ تمام عالم ِ انسانيت کےلئے نمونہ عمل ہے کيونکہ اللہ تعاليٰ نے اپني لاريب کتاب قرآن مجيد کي آيت مباہلہ ميں امير المؤمنين علي عليہ السلام کو نفسِ رسول ﷺ قرار ديا ہے نتيجے ميں تمام وہ صفات ِ حسنہ جو رسول ِ خدا ﷺ ميں پائي جاتي ہيں وہ بعينہ امير المؤمنين عليہ السلام ميں پائي جاتي ہيں سوائے رسالت و نبوت کے ۔ اور جس طرح رسول ِ خداﷺ خلق ِ عظيم کے مالک ہيں اسي طرح امام عليہ السلام اعليٰ اخلاق کے مالک ہيں ۔

اور جو شخص اپني زندگي ميں امام عليہ السلام کو نمونہ عمل اور آئيڈيل قرار دے گا وہ کبھي بھي ناکام نہيں ہوگا بلکہ ہميشہ کاميابي اس کےقدم چومے گي ، اسي بات پر شاہد اور گواہ وہ مشہور روايت ہے کہ جس ميں آيا ہے کہ رسول ِؐ نے ارشاد فرمايا :

یاعلی انت و شیعتک ھم الفائزون اے علي ؑ تم اور تمہاري پيروي کرنے والے(شيعہ) کامياب ہيں ۔

امير المؤمنين عليہ السلام کا عظيم اخلاق تين حصوں ميں تقسيم ہوتا ہے ۔

الف: اخلاق ِ فردي     ب: اخلاق اجتماعي       ج:اخلاق شريک حيات

اخلاق فردي

الف:ذخيرہ اندوزي سے پرہيز:

امام علي عليہ السلام معاشي زندگي کےلئے خود کام کاج کرتے تھے اور اچھا خاصہ سرمايہ  حاصل ہوتا تھا  اور اسي سے اپنے گھر کے امور کو چلاتےتھے ليکن کبھي بھي مسلمانوں کے بيت المال سے استفادہ نہيں کيا ۔

امير المؤمنين عليہ السلام نے ايک دن ممبر پر بيٹھے لوگوں سے خطاب فرمايا:

من یشتری سیفی ھذا ؟

ميري تلوار کو کون خريدے گا؟

لوگ تعجب ميں پڑ گئے اسي وقت امام عليہ السلام نے لوگوں پر ايک نظر دوڑائي اور وضاحت کرتے ہوئے فرمايا:

ولو ان لی قوت لیلۃ ما بعتہ !! اگر ميرے پاس ايک رات کا کھانا موجود ہوتا تو ميں اس تلوار کو نہ بيچتا ۔

(حلية الابرار للبحراني  ج 1ص355)

ب:اپنے سامان کا بوجھ خود اٹھانا

اما م امير المؤمنين علي ؑ نے شہر کوفہ کے بازار سے ايک دن کچھ کھجور اپنے اہل و عيال کےلئے خريدے اور ان کو عبا کے دامن ميں رکھ کر گھر کي طرف روانہ ہوئے اصحاب نے اس بوجھ کو لينا چاہا اور کہا کہ يا امير المؤمنين ؑ يہ وزن ہم اٹھاتے ہيں آپ ؑ نے ارشاد فرمايا:

رب العیال احق بحملہ گھر کا سرپرست زيادہ حق رکھتا ہے کہ اس کو  اٹھائے ۔(بحار الانوارج41ص54)

ايک اور روايت  ميں آيا ہے کہ امام عليہ السلام نے يہ شعر بھي پڑھا :

لا ینقص کامل من کمالہ

ماجر من نفع الی عیالہ

کامل انسان کے کمال ميں نقص نہيں ہوتا کہ اگر وہ اپنے اہل و عيال کے فائدے کےلئے کام کاج کرے ۔

(مناقب ابن شہر آشوب ج2 ص 104)

يہ دو واقعات تو صرف ايک نمونہ ہيں اسي طرح زندگي کے تمام امور ميں مثلا عبادت ، کفايت شعاري ، لباس و طعام ، گھر کي آرائش وغيرہ ان تمام امور ميں آپ عليہ السلام زاھد ترين شخص تھے ۔

اسي وجہ سے اس کائنات ميں رسالتمآب ﷺ کے بعد سب سے زيادہ زاہد ترين ہستي جو اس دنيا ميں نظر آتي ہے وہ امير المؤمنين ؑ کي ذات ِ بابرکت ہے۔ اسي بات کا اعتراف عمر بن عبد العزيز نے کيا وہ کہتے ہيں کہ :

ما علمنا ان احدا کان ازھد فی الامۃ بعد النبیﷺ من علی ابن ابی طالب

ہم نے جانتے کہ امت اسلام ميں رسول ِ خدا ﷺ کے بعد علي ابن طالب ؑسے زيادہ کوئي زاہد ترين شخص ہو ۔ (حلية الابرار ج 1 ص 356)

اخلاق اجتماعي

الف:دعوت قبول کرنے کي شرائط:

ايک شخص نےامام عليہ السلام کو دعوت دي تو امير المؤمنين عليہ السلام نے فرمايا  تين شرائط پر ميں آپ کي دعوت قبول کروں گا ۔ اس شخص نے کہا کہ وہ تين شرائط کو ن سي ہيں ؟ تو امام عليہ السلام نے فرمايا :

1: جو کچھ گھر ميں ہے وہي لے کر  آؤ گے اور باہر سے کچھ نہيں لاؤ گے ۔

2:جو کچھ گھر ميں ہے اس کو لانے ميں شرم نہيں کرو گے ۔

3:بال و بچوں پر سختي نہيں کرو گے۔

تو اس شخص نے کہا ميں نے يہ تين شرائط قبول کيں اور اما م ؑ نے بھي دعوت کو قبول کيا۔

(خصال ج1 ص 188)

ب: اخلاق کي اعليٰ مثال :

خليفہ دوم کے زمانے ميں ايک شخص نے امير المؤمنين علي عليہ السلام کے خلاف دعويٰ کيا اور دونوں خليفہ وقت کے پاس حاضرہوئے خليفہ امام عليہ السلام سے مخاطب ہوا :اے ابو الحسن ؑ آپ مدعي کے پاس کھڑے ہوں تاکہ دعويٰ کو حل کروں تو اس وقت خليفہ نے امير المؤمنين ؑ کے چہرہ پر ناراضگي کے آثار ديکھے اور کہا کہ اے علي ؑ آپ اس وجہ سے ناراض ہوئے ہيں کہ آپ کو دشمن کے ساتھ قرار ديا ہے تو امام عليہ السلام نے فرمايا نہيں بلکہ تو نے ہم دونوں کے بارے ميں عدالت کي رعايت نہيں کي اس وجہ سے ميں ناراض ہوں کيونکہ تو نے مدعي کو اس کے نام سے پکارا ہے اور مجھے کنيت سے بلايا ہے ۔ اسي وجہ سے ممکن ہے کہ مدعي ناراض ہو ۔ (شرح ابن ابي الحديد ج17 ص 65)

يہ واقعہ عدالت ِ اجتماعي کا ايک نمونہ ہے جب ہم امام عليہ السلام کي زندگي پر نظر دوڑاتے ہيں تو مختلف قسم کے واقعات ملتے ہيں مثلا ً اصلاح ِ اجتماعي کي کوشش، طبقاتي نظام کے خلاف اقدامات کرنا، شہداء کے خاندانوں کي مشکلات کو حل کرنا اور مستضعف و محروم طبقے کي مدد کرنا يہ تمام واقعات عالم ِ انسانيت کےلئے نمونہ عمل ہيں ۔

اخلاق ِ شريک ِ حيات

الف:امام عليہ السلام اور زوجہ کي مدد

ايک دن رسالتمآب ﷺ سيدہ فاطمہ سلام اللہ عليھا کے گھر داخل ہوئے تو ديکھا کہ علي عليہ السلام اور سيدہ فاطمہ عليھا السلام دال کو صاف کر رہے تھے تو رسالتمآب ﷺ نے شوق دلاتے ہوئے فرمايا :

مامن رجل یعین امراتہ من فی بیتھا الا کان لہ بکل شعرۃ علی بدنہ عبادۃ سنۃ صیام نھارھا و قیام لیلھا

کوئي بھي مرد اپني زوجہ کي مدد نہيں کرتا مگر اللہ تعاليٰ اس کے بدن کے ہر بال کے بدلے اسے اس ايک سال کي عبادت کا ثواب عطا فرماتا ہے کہ جس کے دن روزے کي حالت ميں رات قيام کي حالت ميں ہوں۔ (جامع السعادات ج 2 ص 140 )

ب:امام عليہ السلام بہترين نمونہ:

رسول ِ خدا ﷺ سيدہ فاطمہ سلام اللہ عليھا کے گھر داخل ہوئے اور پوچھا  کیف رایت زوجک؟آپ نے اپنے شوہر کو کيسا پايا؟تو سيدہ سلام اللہ عليھا نے جواب ديا:

یا ابۃ خیر زوج  اے ميرے بابا وہ بہترين شوہر ہيں ۔(کنزالعمال ج 13 ص 108)

جب ہم ان واقعات کو ياکسي بھي امام معصوم کي زندگي کے واقعات کا مطالعہ کرتے ہيں تو ہماري توجہ اس بات کي طرف ہوني چاہئے کہ امام عليہ السلام کا اخلاق ِ حسنہ کس طرح تھا؟ اور ہمارا اخلاق کس طرح ہے تاکہ ہم اپنے اخلاق کو آئمہ معصومين عليھم السلام کے اخلاق ِ حسنہ کے سانچے ميں ڈھالنے کي کوشش کريں تاکہ دنيا و آخرت ميں کامياب ہو سکيں ۔

العودة إلى الأعلى