فاطمہ سلام اللہ علیہا مرکز پرکار وجود
قال یا آدم انبئہم باسمائہم ۔فلما انبئہم باسمائہم ،قال الم اقل لکم انی اعلم ما لا تعلمون۔
یہ اسماء کیا تھے ؟ حقائق ۔۔ ان ذوات کے وہ نام جو ان کی حقیقت، ان کا مقام اور ان کے مرتبے کے عکاس ہوں ۔
عام انسانی زندگی میں نام اور کردار کے مطابق نہیں رکھے جاتے۔لیکن بعض اوقات نام اور کردار میں ایسا رشتہ پیدا ہوجاتا ہے کہ نام سنتے ہی وہ کردار اور کردار کا ذکر ہوتے ہی وہ نام ذہن میں آجاتا ہے ۔
مثلا کربلا ایک خاص جگہ کا نام ہے ،ایک خاص مقام کا نام ہے ،مگر اس نام کے ساتھ تشنگی ،مظلومیت ،ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ،ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہء حق بلند کرنا اومظلوموں کی حمایت کرنا وغیرہ کا ایسا رشتہ پیدا ہوا ہے کہ ان چیزوں کا جہاں تزکرہ ہو وہان خود بخود کربلا ذہن میں آجاتی ہے اس کے برعکس بھی یعنی جب کربلا کا نام لیا جائے تو یہ مذکورہ چیزین ذہن کے پردے پر نمودار ہو جاتی ہیں ۔
تو اصل میں بات یہ ہے کہ کسی نام اور کردار میں تعلق اور رشتہ قائم ہونے اور اس رشتہ کے مضبوط ہونے میں کافی عرصہ درکار ہوتا ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نام اورکردار ایک دوسرے کے قائم مقام بن جاتے ہیں ۔
اس حالت تک پہنچنے سے پہلے اس نام کے سنے سے وہ کردار سمجھ میں نہیں آتا اس لئے اس کردار میں موجود نفرت اور ناپسندی نام تک سرایت نہیں کرتی لیکن اس نسبت کے قائم ہونے کے بعد وہ وہ نفرت اور لعنت کا رشتہ اس نام کے ساتھ بھی قائم ہوجاتا ہے ۔پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب نام آتا ہے تو در فاطمہ سلام اللہ علیہا پر لگی آگ کے شعلے قلب مئومن کو جلانے لگتی ہے ،کسی کا نام لیا جاتا ہے تو علی علیہ السلام کے گلے میں لگی رسی شہ رگ مئومن کو کاٹتی محسوس ہوتی ہے ،کسی کے نام کے ساتھ حسن ؑ کے جنازے پر برسائے گئے تیر مومن کے جگر کو پارہ کرنے لگتے ہیں ،اور کسی کا تذکرہ کربلا کی تپتی ہوئی ریتی پر بے گور و کفن پڑی لاشوں کی یاد تازہ کرتا ہے اور کسی کا نام لینے سے رسول ذادیوں کا بے مقنع و چادر بازار شام لےجانے کی یاد لب مئومن پر بے اختیار اللہم العن اول ظالم ظلم حق محمد و آل محمد و آخر تابع لہ علی ذالک کے جملے جاری کر دیتے ہیں ۔
بہر حال خدا وند متعال نے جب ملائکہ سے ان ذوات کے اسماء کا سوال کیا تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا ملائکہ ان ذوات کو بلکل جانتے ہی نہیں تھے بلکہ ملائکہ تو یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم نے تسبیح و تقدیس کرنا ہی انہی ذوات سے سیکھا ہے ۔آئمہ فرماتے ہیں سبحنا اللہ و سبحت الملائکۃ۔۔۔۔۔تو ملائکہ ان ذوات سے جو ان کو تسبیح و تقدیس سکھائے کیسے نابلد ہو سکتے ہیں؟لہذا یہ بات ماننی پڑے گی کہ خدا نے ان سے ان ذوات کی حقیقت کے بارے میں پوچھا تھا یعنی وہ اسم جو ان کے کردار اور حقیقت کے آئینے دار ہوں ۔ملائکہ کے لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ ان ہستیوں کی حقیقت کو سمجھ سکے کیونکہ وہ صرف عقل سے مرکب ہیں اور عقل اور شہوت کے اس مرکب کے بارے میں یہ جاننا کہ یہ مخلوق اپنی عقل کو شہوت پر غلبہ دے کر کس مقام و مرتبے تک پہنچ سکتی ہے وہ ملائکہ کی سمجھ سے بالاتر بات تھی ہاں اسی مخلوق میں سے ہی کچھ لوگ اپنی عقل کوشہوت کی غلام بنا کر کس درجہ گر سکتی ہے اس کا اندازہ لگانا ملائکہ کے لئے مشکل نہ تھا لہذا انہوں نے اسی پہلو کو اٹھایا اور اعتراض بھی کیا ۔
مفسرین نے لکھا کہ ایت میں اسمائہم سے مراد پنجتن کے اسماء گرامی تھے اور یہ وہی کلمات تھے کہ جن سے حضرت آدم نے بعد میں توسل کیا ۔یا محمود بحق محمد و یا اعلی بحق علی و یا فاطر السموات بحق فاطمہ و یا محسن بحق الحسن و یا قدیم الاحسان بحق الحسین ۔
ان ناموں کے ساتھ خدا کی جس صفت کو لایا گیا ہے وہ یقینا اس خاص نسبت اور تعلق کی وجہ سے ہے جو ان کے درمیان قائم ہے ۔یہاں پر ہم صرف یا فاطر السموات و االارض بحق فاطمہ کے حوالے سے کہ بات کرتے ہیں ۔
فاطمہ س کے نام کو خدا کی صفت فاطریت کے ساتھ ذکر کرنا بے سبب نہیں ہے ،بلکہ خدا کی ٖفاطریت اور خالقیت کا فاطمہ سے گہرا رشتہ ظاہر ہوتا ہے ۔
یہاں پر یہ اعتراف کرنے کے بعد حقیقت فاطمہ ہمارے لئے نا شناختہ ہے کیونکہ وہ خدا کے اسرار میں سے ایک سر بلکہ سر اللہ الاعظم ہیں ،مگر جابر بن عبد اللہ کی روایت میں رسول کرم ص کا یہ فرمانا کہ خالق کائنات نے فرمایا :یا احمد !لولاک لما خلقت الافلاک ،و لو لا علی لم اخلقتک ،و لو لا فاطمہ لما خلقتکما ۔اس حدیث قدسی سے یہ بات خدا کی خالقیت کا فاطمہ سے تعلق کافی حد تک واضح ہو جاتی ہے کہ فاطمہ ہی مرکز پرکار وجود ہیں ۔ یہیں سے یہ راز بھی آشکار ہو جاتا ہے کہ جب جبرئیل نے یا رب من تحت الکساء کہا تو خالق کائنات نے پنجتن کے تعارف کا مرکز فاطمہ کو کیوں بنایا کیونکہ وہاں بھی خدا کی ذات تخلیق کائنات کی ہی بات کر رہا ہے کہ میں نے انہی ذوات کی خاطر اس کائنات کو خلق کیا تو ان ذوات میں جو مرکزی حیثیت کی حامل ذات ہے وہ فاطمہ س کی ذات والا صفات ہے ۔
اسی خاص مقام ہی کی وجہ سے فاطمہ کا کردار اور آپ کی ذمہ داری بھی اتنی عظیم تھی کہ تاریخ بشریت اس کی مثال لانے سے تا قیامت قاصر رہے گی ۔
عقل انسانی محوے تماشائے لب بام رہ جاتی ہے جب انسان صدیقہء طاہرہ کی زندگی سوچنے لگتا ہے صرف اٹھارہ سال کی زندگی ،لیکن انسانی زندگی کے تمام مراحل کے لئے نمونہء حیات ،یہاں تک کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ فرماتے ہیں "ان فی ابنت رسول اللہ لی اسوہ:مندرجہ بالا حقائق سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ فاطمہ مرکز پرکار وجود ہے، وعلی معرفتہا دارت قرون الاولی کا مطلب بھی شاید یہی ہے ۔
اسی لئے علامہ اقبال( رح) کہتے ہیں ؛
رشتہء آئین حق زنجیر پاست
پاس آئین جناب مصطفی است
ورنہ گرد تربتش گردیدہ مے
سجدہا بر خاک او پاشیدہ مے