گھانا میں اسلام
• ترجمہ : شيخ نثار حسين جعفري
نویں صدی کے آغاز میں ہی مغربی افریقا میں اسلام پھیلنا شروع ہو گیا ۔اسلام کی نشرو اشاعت اور اسکے پھیلنے میں مرکزی کردار ان مسلمان تاجروں کا تھا جو شمال افریقا میں تجارتی سرگرمیوں میں سر گرم تھے۔ پھر دین اسلام مالی ،سونغائی اور قدیمی گھانا میں پھیلنا شروع ہو گیا ۔حقیقت میں پندرھویں صدی عیسوی میں اسلام جدید گھانا میں داخل ہوا ۔ مانڈی کو کہ جنکو (وانغرا) کے نام سے جانا جاتا ہے ان مشہور دینی اور تجارتی شخصیات میں ایک تھے کہ جنہوں نے گھانا میں دین اسلام کو منتقل کیا ۔سولھویں صدی کے آغاز میں گھانا کے اندر مسلمانوں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوا خاص طور پر ملک کے شمال مشرقی علاقوں میں ،اور یہ سب اس علاقہ میں مسلمان تاجروں کی آمد کا نتیجہ تھا جبکہ دوسرا عامل وہ مہاجرین تھے جو انیسویں صدی کے اوائل میں شمالی نائجیریا میں پروان چڑھنے والی جہادی تحریکوں اور حملوں کے ڈر سے بھاگ کر آئے تھے ۔ ١٩٨٠ ء کے آغاز میں اہل بیت علیھم السلام کے ماننے والوں کا اسلام پھیلانے میں سرگرم حصہ تھا اور یہ سب لبنانی تاجروں کے آنے کا نتیجہ تھا یہاںتک کہ انکی تعداد دس لاکھ تک جاپہنچی ۔اور ملک میں مالکی مذہب کے مطابق اسلامی قانون کے اصدار کے بعد مالکی مذہب بھی ملک کے مختلف علاقوں میں پھیلنے لگا ۔ اسیطرح ملک میں صوفیہ اور تیجانیہ قادریہ کے پیروکار بھی ہیں لیکن وسیع تعداد میں نہیں ہیں ۔مشرق و سطیٰ ،شمالی افریقا اور نائجیریا میں پائے جانے والے اضطرابات کے باوجود ملک میں پائے جانے والے مذاہب کے درمیان تعلق انتہائی مضبوط ہے خاص طور پر مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان ۔مذاہب کے درمیان تعلقات کو حکومت کی جانب سے قائم شدہ ایک کمیٹی کے ذریعہ کنٹرول کیا جاتا ہے اسیطرح یہ کمیٹی دینی اجتماعی اور مسلمانوں پر اثرانداز ہونے والے مسائل کا بھی جائزہ لیتی ہے مگر یہ کہ یہ کمیٹی قرآن کریم اور اسلامی تعلیمات کو پروان چڑھانے کیلئے قائم شدہ مدارس کے معیار کو بلند کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔
حکومتی رپورٹس کیمطابق گھانا میں مسلمانوں کی تعداد ١٦٪ ہے جبکہ بعض اداروں کی جانب سے اس تعداد پر شک کا اظہار کیا گیاہے لیکن محکمہ مردم شماری نے اسی تعداد کی تصدیق کی ہے جبکہ گھانا کے باقی لوگ یا تو '›والجاؤ›› فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سے اکثر یا تو مسیحی ہیں یا بت پرست ،یا وہ›› اکان والاؤ›› فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔
گھانا میں تشیع ۔ یہ بات روز روشن کیطرح واضح ہے کہ مکتبِ تشیع کیطرف پوری دنیا کا میلان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ دلیل وعقل وبرھان کو ماننے والوں کیلئے شیعہ افکار اور تعلیمات ہر نقص سے پاک اور واضح ہیں گھانا میں اہل بیت علیھم السلام کے ماننے والوں میں اکثر یت نوجوان طالبعلموں کی ہے۔ اور یہی وہ شیعہ نوجوان ہیں کہ جو ملک میں اپنے ہم مکتب شیعہ مسلمانوں کے امور کی دیکھ بھال کر رہے ہیں یہاں تک کہ اب انکی تعداد دس لاکھ کے قریب ہے
١٩٨٤ء میں بعض مومنین کے واسطہ سے فکر اہلبیت علیھم السلام گھانا میں داخل ہوئی اور ان مومنین میں سب سے بزرگ ا ور اہم شخصیت مرحوم (عبد السلام بانسی) کی تھی ۔ انکو گھانا میں شیعہ مذہب کے بانیوں میں سے شمار کیا جاتا ہے بلاشبہ وہ گھانا اور مغربی افریقا میں شیعہ مذہب کی ایک انتہائی اہم شخصیت تھے ۔آپ گھانا میں قائم اسلامک ریسریچ سنٹر کے فارغ التحصیل طلبہ میں سے تھے ۔اسی دوران انہوں نے وہابی اور تیجانی فرقہ سے منسوب مساجد اور مدارس میں لیکچرز اور دروس دینے شروع کر دیئے آخر کار وہ گھانا کے بہت زیادہ افراد کو تعصب اور شدت پسندی سے پاک و پاکیزہ فکر اہلبیت علیھم السلام کیطرف راغب کرنے میں کامیاب ہو ئے شیخ بانسی کی کوشش کے ایک سال بعد بعض ایرانی بھائیوں کی مدد سے ایک مدرسہ اہل بیت علیھم السلام کا سنگ بنیاد رکھا گیا ۔اور یہ مدرسہ گھانا میں شیعہ مسلمانوں کیلئے پہلی دینی درسگاہ تھی ۔یہاں یہ بات کہنا بھی ضروری ہے کہ اس مدرسہ میں کئی طالبعلم ایسے بھی آئے جو وہابی اور تیجانی مدارس میں زیر تعلیم تھے یوں مدرسہ نے اپنے دامن میں ہر اس شخص کو جگہ دی جو تعلیماتِ اہلبیت سے مزین ہونا چاہتا تھا اس مدرسہ میں مغربی افریقہ کے کئی ملکوں کے طالبعلم بھی داخلہ کیلئے آئے ۔
صرف دو سال بعد شیخ بانسی کی کوششوں میں مزید تیزی آئی اور فروغ ِتشیع کی تحریک کافی پھیلنے لگی اسکے بعد ایک اور جگہ پر مدرسہ اہلبیت کا سنگ بنیاد رکھا گیا اسکے بعد ملک کے شمال اور مشرقی اور جنوبی حصہ کے مغرب میں کافی مدارس اور انسٹیٹیوٹ وجود میں آئے اورالحمدللہ آج ملک میں شیعہ مسلمانوں کے پاس ٢٠ کے قریب مدارس اور کئی مساجد ہیں ان مساجد میں ایک مسجد الرسول الاکرم ہے کہ جس کو ملک میں تمام شیعہ مسلمانوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے ۔
بہر حال ایرانی حکومت کی جانب سے بنائی جانے والی اسلامی یونیورسٹی بھی شیخ بانسی کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھی اور یونیورسٹی کے طالبعلم مختلف اسلامی اور غیر اسلامی فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں گھانا میں شیعہ مکمل آزادی کے ساتھ شعائر اہلبیت علیھم السلام کو برپا کرتے ہیں اور معاشرہ میں ان کا ایک اعلیٰ مقام ہے اور یہ سب انکی پر امن تعلیمی اور ثقافتی سر گرمیوں اور دوسرے مذاہب کے ساتھ اچھے تعلقات کی بدولت ہے اور اسیوجہ سے آج گھانا حکومت ،فکر اہلبیت اور تعلیمات محمد وآل محمد کو نہایت فراخ دلی اور احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔
ثقافتی مراکز اور ادارے ۔
ملک میں کئی ایسے مراکز اور ادارے ہیں کہ جن کو شعائر اہلبیت علیھم السلام برپا کرنے کیلئے بنایا گیا ہے انہی میں سے ایک دارالحکومت اوکرا میں واقع مسجد الرسول الاکرم ہے ۔بعض افریقی مراقبین کی نظر میں اس قسم کے ادارے اور مراکز ملک کیلئے ایک انتہائی مثبت قدم ہے کیونکہ ایسے مراکز لوگوں میں الفت اور محبت اور تعاون کی روح پھونکتے ہیں ۔
اسکے علاوہ کئی ایک دینی اور ثقافتی ادارے ،تنظیمیں اور انسٹیٹیوٹ ہیں کہ جن سب کا ایک اعلی علمی اور اخلاقی ہد ف ہے کہ جسکے حصول کیلئے وہ کوشاں ہیں ۔
ان میں سے کچھ یہ ہیں ۔
(١) انسٹیٹیوٹ آف شیعہ اہل البیت علیھم السلام ۔یہ انسٹیٹیوٹ تامالی میں واقع ہے یہ انسٹیٹیوٹ لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کیلئے انتہائی اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔اور گھانی معاشرے میں اخلاق اہلبیت علیھم السلام کی نورانی شمعیںجگہ جگہ روشن کر رہا ہے ۔
(٢)مدرسہ اہلبیت علیھم السلام ۔ یہ گھانا میں شیعہ مسلمانوںکیلئے قائم ہونے والا پہلا مدرسہ ہے اسکو ایرانی حکومت کی طرف سے بنایا گیا ۔اور مرحوم شیخ عبد السلام بانسی کی سر پرستی میں شروع کیا ۔
(٣)اشیمان میں واقع مسجد اہل البیت علیھم السلام
(٤) غوصو میں واقع مدرسہ امام المہدی (عج)
(٥) تامالی میں واقع مسجد باوکو ،مسجد اماننتی اور مسجد یرانغا
(٦) اکرا میں مدرسة حوزة علمیہ
(٧) کاسو میں واقع مدرسة امام صادق
(٨) اکرا میں حرکة المجتمع الجعفری
(٩) المجلس الاعلی للدعوة والبحوث الاسلامیہ
(١٠) اتحاد الطلبة المسلمین و اہل البیت علیھم السلام
(١١) جامعة اسلامیہ اور خواتین کیلئے مدرسة فاطمہ الزھراء علیھا السلام
یہ تمام ادارے اور مراکز گھانی معاشرے میں معاشرتی اور قومی حوالے سے انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں یہ تمام مراکز دینی شخصیات کی سرپرستی میں کام کر رہے ہیں جن میں سے اہم ترین یہ ہیں ۔
شیخ عیسیٰ نوھوبانداغو (مرحوم شیخ عبد السلام بانسی کے نائب) اور شیخ سلیمان بانداغو اور موسیٰ ادریس۔