حضرت محمدؐ کی سیرت میں تواضع اور انکساری کا پہلو
رسولِؐ خدا محمد مصطفیٰؐ اس کائنات کے ہر انسان،کے لئے بے نظیر نمونۂ عمل (Role Model) ہیں اور خالقِ کون و مکان نے اپنی بے مثال کتاب قرآن مجید میں اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ احزاب 21
ترجمہ:بتحقیق، تمہارے لیے اللہ کے رسولؐ میں بہترین نمونہ (عمل) ہے
اس میں آيت تمام انسانیت کے سے خطاب ہورہا ہے کیونکہ (لکم) کی ضمیر اس آیت میں ہر مرد و زن کو شامل ہے۔ اور ایک دوسری جہت سے یہ آیت مطلق ہے یعنی اس آیت میں یہ قید نہیں ہے کہ رسولؐ خدا کی ذات گرامی صرف کسی خاص ایک اعتبار سے نمونۂ عمل ہیں، بلکہ بیان یہ کیا جا رہا ہے کہ آپؐ کی ذات گرامی ہر لحاظ سے قابلِ تقلید ہیں اگرچہ خاص چند ایسے پہلو ضرور موجود ہیں جن کو احادیث میں مختصاتِ نبیؐ میں شمار کیا گیا ہے۔ مثلاً: چار سے زیاد شادیوں کا جواز وغیرہ لیکن ان بعض پہلوؤں کے علاوہ اگر کوئی انسان کامل انسان بننا چاہتا ہے تو تمام تر نصاب کمال ذات گرامی حضرت محمد مصطفیٰؐ میں موجود ہے آ پ کی سیرت کا ایک پہلو اتنا پر کشش تھا کہ عام انسانوں کی ایک بڑی تعداد سیرت کے اسی پہلو کی وجہ سے آپ کی گرویدہ ہو گي اور وہ تھا آپ کا تواضع اور عجز وانکساری
رسولِؐ خدا اس کائنات کے سب سے بڑے انسان تھے، اس لئے کہ آپ کمالِ انسانیت کی اوج پر فائز تھے۔ آپؐ نے اپنی عملی سیرت میں اس امر کو ثابت کیا کہ انسان کو جتنا کمال میسر آتا ہے وہ اتنا ہی جھک جاتا ہے وہ اتنا ہی متواضع ہوجاتا ہے وہ اتنا منکسر المزاج بن جاتا ہے۔آپؐ کی سیرت سے اس حقیقت کو بھی باخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ تکبر اور اکڑ چھوٹے رویے ہیں جو کبھی بھی کسی بڑے انسان کو زیب نہیں دیتے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی انسان کے بڑے یا چھوٹے ہونے کا اندازہ کرنا ہو تو اس کے مزاج کی فروتنی اور عجز کا مشاہدہ کرکے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر یہ شخص عاجز اورمنکر المزاج ہے، تو وہ بڑا انسان ہے، اور اگر متکبر ہے، تو چھوٹا آدمی ہے۔ رسولؐ خدا کی زندگی میں تواضع اور انکساری کے کئی مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں چند ایک موارد کو پیش کیا جارہا ہے
تناولِ طعام میں انکساری
رسولؐ اللہ اس کائنات کے سب سے زیادہ عظیم اور بڑے انسان ہونے کے باوجود جب کھانا تناول فرماتے تو ایک عام انسان کی طرح تناول فرماتے۔ حضرت امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ (ما اكل نبي الله (صلى الله عليه وآله) وهو متكئ منذ بعثه الله عز وجل وكان يكره ان يتشبه بالملوك)۔ ترجمہ: جب سے اللہ تعالیٰ نے رسولِؐ خدا کو مبعوث بارسالت کیا آپ نے کبھی بھی ٹیک لگا کر کھانا تناول نہیں فرمایا اور آپؐ کسی بھی ایسے رویے سے نفرت کرتے تھے کہ جس سے وہ بادشاہوں سے مشابہت اختیار کریں۔
آپؐ کسی بھی ایسے بھی ایسے رویے سے گریز فرمایا کرتے تھے جس سے بادشاہت کی شان و شوکت کا تعفن نمودار ہوتا ہو۔ اس لئے آپؐ عام انسانوں کی مانند ٹیک لگائے بغیر انتہائی عاجزانہ انداز میں طعام تناول فرمایا کرتے تھے۔
ایک روایت میں حضرت امام جعفر صادقؑ سے نقل ہوا ہے کہ مرت امراہ بذیہ برسول اللہ ص وھو یاکل وھو جالس علی الحضیض فقالت یا محمد انک لتاکل اکل العبد وتجلس جلوسہ فقال لھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انی عبد وای عبد منی (المحاسن ج 2، ص 457
ترجمہ: ایک دفعہ ایک بدزبان عورت رسولؐ اللہ کے پاس سے گزری اور آپؐ زمین پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ تو اس عورت نے رسول اللہ سے کہا کہ اے محمؐد با خدا آپ تو غلاموں کی طرح کھانا کھارہے ہیں اور بالکل غلامانہ انداز میں بیٹھے ہیں تو آپؐ نے اس بدزبان عورت کو جواب دیا کہ کون سا غلام مجھ سے بڑا غلام ہے۔
رسولؐ خدا یہ فرمانا چاہ رہے تھے کہ ہم سب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں غلامانہ حیثیت کے مالک ہیں اور آپؐ کا معیار یہ ہے کہ آپ فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے بڑا غلام میں محمد مصطفیٰ ہوں اور کسی بھی غلام کو تکبر زیب نہیں دیتا۔
معاشرت میں عجز و انکساری
آپؐ بالکل عام انسانوں کی طرح زندگی گزارتے تھے اور عام لوگوں کی طرح اٹھا بیٹھا کرتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ اس کا ترجمہ: رسولؐ اللہ اپنے اصحاب کے درمیان (عام لوگوں کی مانند) بیٹھا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک اجنبی شخص آیا تو وہ رسولؐ اللہ کو پہچان نہ پایا یہاں تک کہ اس نے پوچھ نہیں لیا (کہ ان میں سے رسولؐ کون ہیں؟)
اس واقعے سے ظاہرہوتا ہے کہ آپؐ عام لوگوں میں بالکل ایک عام انسان کی مانند زندگی گزارے تھے اس کائنات کے سب سے بڑے انسان ہوکر بھی ایک عام آدمی کی مانند طرزِ معاشرت آپ کے تواضع کے کمال کو ظاہر کرتی ہے۔
عام طور سے کسی بھی لحاظ سے نمایاں شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کو انکی شان کے مطابق پروٹوکول فراہم کیاجائے لیکن رسولؐ خدا کی سیرت اس عمل کی مذمت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ آپؐ کو پسند نہیں تھا کہ لوگ آپ کو پروٹوکول دینے کی خاطر آپؐ کے احترام میں کھڑے ہوں۔ جبکہ اس پوری کائنات میں کوئی شخص آپؐ سے زیادہ احترام اور پروٹوکول کا مستحق نہ تھا نہ ہے اور نہ ہی ہوگا۔ اس کے باوجود آپؐ اس عمل کو ناپسند فرماتے تھے۔ معلوم ہوا بڑے انسان کو پروٹوکول کی ضرورت نہیں بلکہ چھوٹے لوگ خود کو بڑا ظاہر کرنے کے لئے پروٹوکول کی توقع رکھتے ہیں۔ روایت ملاحظہ ہو:ما كان شَخْصٌ أحبَّ إليهِمْ رُؤْيَةً مِنَ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ، وكَانُوا إذا رَأوْهُ لمْ يَقُومُوا إليهِ لِما يَعْلَمُونَ من كَرَاهيَتِه لِذلكَ ۔ صحيح الأدب المفرد | الصفحة أو الرقم : 724
ترجمہ: صحابہ کرام کے لئے رسولؐ خدا کے علاوہ کوئی اور شخص نہیں تھا جس کو وہ آپ سے ریادہ دیکھنا پسند کرتے ہوں اور جب بھی صحابہ کرام رسولؐ خدا کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھتے تو (چاہتے ہوئے بھی احترام کی خاطر کھڑ ے نہیں ہوا کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ رسول اللہ اس عمل کو پسند نہیں فرماتے
دینا کے سب سے عظیم نبیؐ ہوتےہوئے بھی اس بات کی اجازت نہ دینا کہ کوئی آپؐ کے احترام میں کھڑا ہو ، آپ کے تواضع کے اعجاز کی دلیل ہے۔
میل ملاقات میں عاجزی
عام طور پر ہر وہ انسان جو خود کو بڑا سمجھتا ہے عمر کے اعتبار سے، مال کے اعتبار سے، علم کے اعتبار سے ، یا منصب کے اعتبارسے یا کسی بھی اور لحاظ سے وہ یہ توقع رکھتا ہے کہ جب بھی چھوٹا انسان اس سے ملے تو ملنے والا چھوٹا شخص بظاہر اس بڑے شخص کو پہلے سلام کرے یا احوال پرسی کرے لیکن اس کائنات کے سب سے بڑے انسان کے میل جول طریقہ کار اس توقع کے یکسر مخالف نظر آتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ( أنه مر على صبيان، فسلم عليهم، وقال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعله البخاری (6247)
ترجمہ: ایک دفعہ رسولؐ خدا بچوں کے پاس سے گزرے تو آپؐ نے بچوں کو سلام میں پہل فرمائی اور راوی کہتا ہے کہ رسولؐ خدا کا یہ عمل یک بارگی نہیں تھا بلکہ ہمیشہ ایسا کیا کرتے تھے
رسولؐ اللہ کا یہ طرز عمل اپنے سے چھوٹے انسان کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھنے کا درس دیتا ہے۔ آپؐ کی سیرت کا یہ پہلو حیران کن طور پر ایک بالکل عام انسانوں سے جداگانہ طرز عمل ہے۔ اور منجملہ یہ تواضع ایک بڑی وجہ تھی کہ عرب آپؐ کے گرویدہ ہو گئے، اور دل و جان سے آپؐ سے محبت کرنے لگے۔۔ (جاری ہے)