قیام امام حسین علیہ السلام کا مقصد
امام حسین علیہ السلام کے مقصد و فلسفہ قیام کو جاننے کے لئے سب سے بہترین اور سب سے مطمئن سند خود آپ کے یا دیگر ائمہ معصومینؑ کے ارشادات اور بیانات ہیں۔ آپ کے سارے خطبات، ارشادات، خطوط، وصیت نامے جو کہ آپ کے قیام کے اغراض و مقاصد کے سلسلہ میں ہیں نیز ائمہ معصومینؑ کی جانب سے امام حسین علیہ السلام کے لئے وارد زیارت ناموں میں بھی آپ کے قیام کے اغراض و مقاصد کو بیان کیا گیا ہے ذیل میں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے
امامؑ کے قیام کے اصلی ہدف اور سبب کو امام علیہ السلام کے اس واضح اور سلیس ترین جملہ میں تلاش کیا جاسکتا ہے جس کو آپؑ نے اپنے بھائی محمد حنفیہ کے وصیت نامہ میں بیان کیا ہے۔
1 امام علیہ السلام نے اپنے قیام کے مقصد کوہویٰ وہوس او رکسب مقام سے دور بتاتے ہوئے فرمایا:
و انما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی، ارید ان آمر بالمعروف و انھی عن المنکر و اسیر بسیرة جدی و ابی علی بن ابی طالب۔ میں نے صرف اپنے نانا کی امت کی اصلاح کی غرض سے قیام کیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اپنے جد اور والد کی روش کو اختیار کروں
امامؑ نے اس چھوٹی اور گویا عبارت میں شروع سے ہی اپنے مقدس ہدف کو بیان فرمایا کہ آپؑ کا ارادہ ملک کو پھیلانا اور مال ودولت حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ آپؑ کا ہدف اسلامی معاشرہ کی اصلاح اور امربالمعروف ونہی از منکر سے معاشرہ کو زندہ کرنا ہے۔
2 جب کوفہ میں مسلم بن عقیل(کوفہ میں آپؑ کے سفیر)کو ابن زیاد کے سپاہیوں نے مکرو حیلہ سے گرفتارکر لیااور ابن زیاد نے اپنی تقریر میں جناب مسلم کو فتنہ وفساد پھیلانے کا الزام لگایا تو جناب مسلم نے اس کے جواب میں فرمایا:
ما لھذا آتیت ولکنکم اظھرتم المنکر و دفنتم المعروف…فاتیناھم لنامرھم بالمعروف و ننھاھہم عن المنکر۔ میں ان چیزوں کے لئے کوفہ نہیں آیا جس کو تو بیان کررہا ہے بلکہ تم منکرات اور برائی کو کھلے عام انجام دیتے ہو اور معروف و اچھائی کو دفن کردیاہے اسی وجہ سے ہم کھڑے ہوگئے تاکہ لوگوں کو معروف کی دعوت دیں اور منکرات سے دور رکھیں۔
3 جس وقت امام علیہ السلام حر کی فوج کے روبرو ہوئے اور کوفیوں کی بے وفائی ظاہر ہوگئی اور امامؑ نے دیکھا کہ میری شہادت اب نزدیک آگئی ہے تو اپنے اصحاب کے درمیان کھڑے ہوئے اور اپنی تقریر میں فرمایا:
الا ترون ان الحق لا یعمل بہ و ان الباطل لا یتناھی عنہ لیرغب المؤمن فی لقاء اللّٰہ محقا۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہاہے اور باطل سے منع نہیں کیا جارہا ہے ایسے حالات میں مومن پر واجب ہے کہ (قیام کرے اور)اپنے پروردگار سے ملاقات(شہادت) کا خواہاں رہے۔
امام علیہ السلام کے اس کلام سے استفادہ ہوتا ہے کہ ایسے شرائط میں اپنی جان سے ہاتھ دھو لینے چاہئے، یعنی جس وقت خطرہ دین و مذہب کو چیلنج کررہا ہو تو اس وقت مالی او رجانی نقصان امربالمعروف ونہی از منکر کے لئے مانع نہیں بن سکتے۔
4 مؤرخین کے بقول جس وقت حر، امام علیہ السلا م کی تحریک کے مانع ہوا تو امامؑ نے اپنے ایک خط میں کوفیوں کو لکھا: فقد علمتم ان رسول اللّٰہ قد قال فی حیاتہ:من رای سلطانا جائرا مستحلا لحرم اللّٰہ، ناکثا لعھداللّٰہ، مخالفا لسنة رسول اللّٰہ، یعمل فی عباد اللّٰہ بالاثم والعدوان، ثم لم یغیر بفعل ولا قول، کان حقیقاعلی اللّٰہ ان یدخلہ مدخلہ۔تم لوگ جانتے ہو کہ رسول خداؐ نے اپنی زندگی میں فرمایا: جو بھی ظالم بادشاہ کو دیکھے کہ وہ حلال خدا کو حرام سمجھ رہا ہے اور خدا کے وعدوں کو توڑ رہاہے، سنت پیغمبر کی مخالفت کررہا ہے اور خدا کے بندوں کے ساتھ ظلم وستم کررہا ہے، لیکن اس کے عملی و زبانی مقابلے کے لئے کھڑا نہ ہو تو اس کے لئے بہتر ہے کہ خدا اس کو اس ظالم بادشاہ کی جگہ(جہنم)بھیج دے۔
5 امام علیہ السلام نے اپنی ان باتوں کے ضمن میں تمام لوگوں کے وظائف کو بیان کرتے ہوئے خصوصا کوفہ کے بزرگ جن کا عزم وارادہ امور کی اصلاح اور بنی امیہ کے ستمگر حکمرانوں سے لڑنے کا اعلان کردیا تھا۔ آپؑ نے اس جنگ کو ان لوگوں کی حمایت سے مشروط نہیں کیا بلکہ آپؑ آمادہ ہیں کہ اپنی جان کو اس راہ میں قربان کردیں لہذا میں آج آنحضرتؐ کے مرقد کے سامنے کھڑے ہو کر کہتا ہوں:
اشھد انک قد اقمت الصلاة واتیت الزکاة وامرت بالمعروف و نھیت عن المنکر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؑ نے نماز کو قائم کیا اور زکات کو ادا کیا اور امر بالمعروف ونہی از منکر کو انجام دیا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ گواہی عدالت اورقاضی کے سامنے نہیں ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ میں اس حقیقت پر یقین رکھتا ہوں کہ آپؑ کا قیام امربہ معروف و نہی از منکر اور اسلامی معاشرہ کی اصلاح کے لئے تھا۔