امام موسی کاظم علیہ السلام کی حیات مبارکہ پر طائرانہ نظر
سنہ148 ہجری میں امام جعفر صادق علیہ السّلام کی شہادت ہوئ تو امام موسی کاظم (ع) بیس سال کی عمر مبارک میں منصب امامت پر ظاہری طور پر فائز ہوتے ہیں اور تقریبا پینتیس سال منصب امامت پر فائز رہیں
اس وقت سلطنت عباسیہ کے تخت پر منصور دوانقی کا قبصہ تھا۔ یہ وہی ظالم بادشاہ تھا جس کے ہاتھوں سے لاتعداد سادات مظالم کا نشانہ بن چکے تھے اور تلوار کے گھاٹ اتار دیئے گئے یا ان کو دیواروں میں چنوا دیئے گئے یا قید میں رکھے گئے تھے۔ خود امام جعفر صادق علیہ السّلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جا چکی تھیں اور مختلف صورتوں سے تکلیفیں پہنچائی گئی تھیں یہاں تک کہ منصور ہی کا بھیجا ہوا زہر تھا، جس سے اب آپ دنیا سے رخصت ہو رہے تھے۔ ان حالات میں آپ کو اپنے جانشین کے متعلق یہ خوف تھا کہ حکومت وقت اسے زندہ نہ رہنے دے گی اس لیے آپ نے ایک اخلاقی توجہ حکومت کے کاندہوں پر رکھنے کے لیے یہ صورت اختیار فرمائی کہ اپنی جائیداد اور گھر بار کے انتظام کے لیے پانچ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی۔ جس میں پہلا شخص خود خلیفہ وقت منصور عباسی تھا۔ اس کے علاوہ محمد بن سلیمان حاکم مدینہ اور عبد اللہ افطح جو سن میں امام موسی کاظم علیہ السّلام کے بڑے بھائی تھے اور حضرت امام موسی کاظم علیہ السّلام نیز ان کی والدہ حمیدہ خاتون۔
امام صادق (ع) کا یہ حربہ بالکل صحیح تھا اور آپ کا طریقہ بھی کامیاب ثابت ہوا، چنانچہ جب حضرت کی وفات کی اطلاع منصور کو پہنچی تو اس نے پہلے تو سیاسی مصلحت کے طور پر اظہار رنج کیا۔ تین مرتبہ انا للهِ و انا الیہ راجعون، کہا اور کہا کہ اب بھلا جعفر کا مثل (جانشین) کون ہے ؟ اس کے بعد حاکم مدینہ کو لکھا کہ اگر جعفر صادق (ع) نے کسی شخص کو اپنا وصی مقرر کیا ہو تو اس کا سر فورا قلم کر دو۔ حاکم مدینہ نے جواب لکھا کہ انھوں نے تو پانچ وصی مقرر کیے ہیں جن میں سے پہلے آپ خود ہیں۔ یہ جواب پڑھ کر منصور دیر تک خاموش رہا اور سوچنے کے بعد کہنے لگا تو اس صورت میں تو یہ لوگ قتل نہیں کیے جا سکتے۔ اس کے بعد دس برس تک منصور زندہ رہا لیکن امام موسی کاظم علیہ السّلام کو کوئی تکلیف وغیرہ نہیں دی اور آپ مذہبی فرائض امامت کی انجام دہی میں امن و سکون کے ساتھ مصروف رہے۔ یہ بھی تھا کہ اس زمانے میں منصور شہر بغداد کی تعمیر میں مصروف تھا جس سے 157 ہجری میں یعنی اپنی موت سے صرف ایک سال پہلے اسے فراغت ہوئی۔ اس لیے وہ امام موسی کاظم علیہ السّلام کے متعلق کسی ایذا رسانی کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوا تھا۔
امام موسی کاظم (ع) ان سخت ترین حالات میں منصب امامت کو سنبھالتے ہیں۔ ہشام ابن سالم کہتا ہے میں مومن طاق کے ساتھ امام صادق کی شہادت کے بعد مدینہ میں تھا کہ لوگ عبداللہ افطح کے گھر جمع ہو چکے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم بھی اسی گھر میں داخل ہو گئے، جب بیٹھے تو عبداللہ کی علمی صلاحیت دیکھنے کے لئے کہتا ہے کہ ہم نے زکات اور اس کے نصاب کے بارے میں سوال کیا لیکن عبداللہ اس کا کوئی مناسب جواب نہ دے سکا۔ ہشام کہتا ہے کہ ہم پریشانی کے عالم میں باہر نکلے اور سوچنے لگے کہ ان فرقوں میں سے کس فرقہ کا انتخاب کریں کہ اچانک ایک بوڈھے شخص نے دور سے اشارہ کیا، ہم پہلے تو سمجھے کہ یہ منصور دوانقی کے جاسوسوں میں سے کوئی جاسوس ہے کہ جسے ہماری گرفتاری کے لئے معین کیا گیا ہے اور ہوتا ایسے تھا کہ جب کسی کو گرفتار کر لیا جاتا تو اکثر طور پر اس کی گردن اڑا دی جاتی تھی۔ ہشام کہتا ہے کہ میں نے اپنے ساتھی سے کہا جلدی مجھ سے دور ہو جا اور اپنے آپ کو بچا لے جبکہ میں تو موت کے لئے تیار ہو چکا ہوں لیکن میرے اس گمان کے خلاف وہ شخص کہ جس نے اشارہ کیا تھا اس نے مجھے امام موسی کاظم (ع) کے گھر کی طرف راہنمائی کی۔ جب میں امام موسی کاظم کے پاس پہنچا تو امام نے مجھ سے فرمایا
لا الی المرجئۃ ولا الی القدریۃ ولا الی الزیدیۃ ولی الی الخوارج، الی الی
مرجئہ، قدریہ، زیدیہ اور خوارج کی طرف نہ جائیں بلکہ میری طرف آئیں
عیسائی اور یہودی علماء کے ساتھ بھی آپؑ کے مختلف مناظرات اور علمی گفتگو تاریخی اور حدیثی منابع میں ذکر ہوئے ہیں۔ دوسرے ادیان و مذاہب کے علماء کے ساتھ آپؑ کے مناظرات مد مقابل کے پوچھے گئے سوالات اور اعتراضات کے جواب پر پرمشتمل ہے۔ مسند الامام الکاظمؑ میں آپ سے منقول 3000 ہزار سے زائد احادیث کو نقل کیا گیا ہے
اہل سنت کے بزرگ عالم دین ابن طلحہ تحریر کرتے ہیں کہ
هو الامام ، الكبير القدر العظيم الشأن ، الكثير التهجّد ، الجادّة في الإجتهاد، المشهود له بالكرامات ، المشهور بالعبادة ، المواظب علي الطاعات ، يبيّت الليل ساجدا و قائما و يقطع النهار متصدقاً و صائماً ولفرط علمه و تجاوزه عن المعتدين عليه دُعي كاظما ، كان يجازي المسيء بإحسانه إليه ، ويقابل الجاني عليه بعفوه عنه ، و لكثرة عباداته كان يسمي بالعبد الصالح ، ويُعرف بالعراق بباب الحوائج إلي الله ، لنجح المتوسلين إلي الله تعالي به ، كراماته تحار منها العقول۔
وہ ایک عظیم القدر اور عظیم الشان امام تھے، بہت زیادہ تہجد گذار اور محنت و کوشش کرنے والے تھے ، جن کی کرامات ظاہر تھیں اور جو عبادت میں مشہور اور اطاعت الٰہی پر پابندی سے گامزن رہنے والے تھے، راتوں کو رکوع و سجود میں گزارتے تھے اور دن میں روزہ رکھتے اور خیرات فرمایا کرتے تھے، اور بہت زیادہ حلم و بخشش اور اپنی شان میں گستاخی کرنے والوں کی بخشش کی وجہ سے آپ کو کاظم کے نام سے پکارا جاتا تھا، اور جو شخص آپ کی شان میں گستاخی کرتا تھا آپ اس کا جواب نیکی اور احسان کے ذریعہ دیتے تھے، اپنے اوپر ظلم و ستم کرنے والوں کو بخش دیا کرتے تھے، اور بہت زیادہ عبادت کی وجہ سے آپ کا نام عبد صالح پڑ گیا، اور آپ عراق میں باب الحوائج الی اللہ کے نام سے مشہور ہوئے، کیونکہ ان کے وسیلہ سے خداوند سے متوسل ہوا جاتا ہے جس کا نتیجہ بھی برآمد ہوتا ہے۔ اور آپ کی کرامات عقلوں کو حیران کر دیتی ہیں.،کشف الغمه :ج2،ص212
اسی طرح آپ کی شان میں ابن حجر لکھتے ہیں کہ
و كان معروفاً عند أهل العراق بباب قضاء الحوائج عند الله و كان أعبد أهل زمانه و أعلمهم و أسخاهم
آپ عراقیوں کے درمیان خدا کی طرف سے باب اللہ کے نام سے مشہور تھے اور اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عبادت گزار، سب سے بڑے عالم اور سب سے زیادہ سخی انسان تھے۔الصواعق المحرقه :ص203
امام موسی کاظم (ع) کو جس آخری قید خانے میں قید کیا گيا تھا، اس کا زندان باں انتہائی سنگدل آدمی تھا جس کا نام سندی بن شاہک تھا۔ اس زندان میں امام پر بہت زیادہ ظلم و ستم ڈھایا گيا اور بالآخر ہارون رشید کے حکم پر ایک سازش کے ذریعہ امام کو زہر دے دیا گیا اور تین دن تک سخت رنج و تعب برداشت کرنے کے بعد 55 سال کی عمر میں بغدا میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
السلام على المعذب في قعر السجون وظلم المطامير
السلام على ذي الساق المرضوض بحلق القيود
السلام على الجسد النحيف
السلام على القلب الوجيف
السلام على الكاظم الصابر
السلام على من حارت فيه البصائر
السلام عليك يا باب الحوائج
عليك مني سلام الله مابقيت وبقي الليل والنهار