عصر حاضر میں خاندان کو درپیش چیلنجز اور ان کا حل سیرت حضرت فاطمہ ع کی روشنی میں

2022-01-25 17:49

)ڈاکٹر ندیم عباس، ویزیٹنگ پروفیسر نمل، اسلام آباد(

خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے  اور عموماًکسی بھی معاشرے کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہوتی ہے۔معاشرے میں   مثبت تبدیلی عورت کو نظر انداز کر کے ممکن ہی نہیں ہے۔اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس میں خواتین کے لیے نمونہ عمل دختر خاتم الانبیا حضرت فاطمہ ؑ  کی شخصیت ہے۔آپ کی تربیت خود خاتم الانبیاﷺ نے فرمائی،آپ کا خاندان رسالت کا خاندان ہے۔خاندان کی تشکیل شادی سے ہوتی ہے شادی آج معاشرہ کا بڑا چیلنج بنا ہوا ہے اس میں  حضرت فاطمہؑ اور حضرت علیؑ کی شادی کن بنیادوں پر اور کن اہتمامات سے ہوئی اس کا جاننا بہت ضروری ہے۔شادی کے بعد میاں بیوی کس طرح باہمی تعلقات کی بنیاد ڈالیں گے؟کس کی کیا ذمہ داریاں ہوں گی؟اس کا پتہ بھی علیؑ  بتولؑ کے درمیان تقسیم کار سے چلے گا۔گھر میں بے شمار چیلنجز ہوتے ہیں اس میں خواتین خانہ کا کردار کیا ہو گا؟مالی مشکلات،حکومت و ریاست کے ساتھ معاملات ،شوہر  کی  اس کے حق کے لیے حمایت و نصرت اور  شوہر کے لیے جذبہ قربانی،  یہ ایسے معاملات ہیں جن میں مسلم دنیا کی خواتین کے لیے حضرت سیدہ ؑ کی سیرت پر چلنے میں ہی بھلائی ہے۔خاندان کے مجموعی مزاج اور اخلاق کی تشکیل میں حضرت سیدہؑ کی سیرت   سے خدا،نبی خدا،وصی خدا اور مخلوق خدا سے بہترین تعلقات کی رہنمائی ملتی ہے اور یہی توازن دنیا میں  آخرت کی کامیابی کا ضامن ہے۔

اہم الفاط:حضرت فاطمہؑ،خاندان،سیرت،عورت،اسلام

خاندان کیا ہے؟

سب سے پہلے یہ جاننا بہت  ضروری ہے کہ خاندان ہوتا  کیا ہے ؟ مشہور  محقق ڈاکٹر خالد علوی خاندان کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“خاندان ایک ایسا ادارہ ہے جو انسانی رویئے اور طرز عمل کی تشکیل کرتا ہے۔ خاندان ہی وہ ادارہ ہے جس کے ذریعے معاشرتی تربیت ہوتی ہے۔ خاندان ہی وہ ادارہ ہے جو فرد کو اپنے فرائض کا احساس دلاتا ہے۔ اسے فرق مراتب کا شعور بخشتا ہے۔ اگر خاندان کا استحکام کم ہو جائے تو انسانی طرز عمل، معاشرتی فرائض کا شعور اور افراد معاشرہ کے مراتب کا یقین سب کچھ ختم ہو جائے گا”۔[i]

ڈاکٹر محمد امین خاندان کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: تمام مذاہب میں خاندان کی وکالت اس طرح کی گئی ہے کہ گویایہ خاندان مرد کے لیے گھونسلہ اور عورت کو اولین استاد قرار دیا گیا ہے، جس جیسا استاد مہیا ہونا نا ممکن ہے”۔[ii]

دونوں محققین نے خاندان کو معاشرے کی بنیادی اکائی قرار دیا ہے اور اس کے ذریعے ہی معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے اچھے خاندان اچھے معاشرے تشکیل دیتے ہیں۔ڈاکٹر محمد امین نے خاندان کے لیے عورت کو اولین استاد قرار دیا اور معاشرتی طور پر یہ بات  تحقیق کے مطابق ہے۔خاندان کا مزاج دراصل ماں کا اخلاق ہی ہوتا ہے ،تربیت کرنے والے دیگر عوامل جن میں  باپ،سکول،مذہبی رہنما شامل ہیں ان کا  حصہ کافی کم ہے۔ہم نے بھی  ایک کامل سیرت کی حیثیت سے حضرت سیدہؑ کی سیرت کی روشنی میں اسی کردار کو سمجھنا ہے۔

حضرت فاطمہ ؑ  اور آپ کے   خاندان  کا تعارف

حضرت فاطمہ ؑ نبی اکرم ﷺ کی  بیٹی ہیں ،آپ کی والدہ ماجدہ  مسلمہ اول  حضرت  خدیجہ ؑ ہیں ۔اللہ تعالی نے حضرت فاطمہ ؑ کے خاندان کو بڑے فضائل سے نوازا ہے   خاتم الانبیاؑ افضل البشر  آپ کے والد گرامی ہیں ،سید الاولیاء آپ کے شوہر ہیں اور جنت  کے جوانوں کے سردار آپ کے فرزندان ہیں۔ اللہ تعالی نے دنیا میں آپ کے نسب کے قائم رہنے اور خیر کا ذریعہ ہونے کی ضمانت سورہ کوثر کو نازل کر کے دی ہے ارشاد باری ہوتا ہے:

إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ﴿١﴾‏فَصَلِّلِرَبِّكَوَانْحَرْ﴿٢﴾‏إِنَّشَانِئَكَهُوَالْأَبْتَرُ﴿٣﴾‏ ۔ بیشک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔۲۔ لہٰذا آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔۳۔ یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔

سورہ مبارکہ کا شان نزول  اور خود اس کا متن بتاتا ہے کہ اس سے مراد حضرت سیدہ ؑ کا خاندان ہے مفسرین  لکھتے ہیں : "اللہ تعالی نے آپﷺ کی نسل کو آپ ع سے آگے بڑھایا اور سورہ کوثر میں خیر کثیر سے مراد آپ کا خاندان ہی ہے۔" [iii]

اللہ تعالی کی فضیلتیں اندھی بندر بانٹ نہیں  ہوتیں  بلکہ وہ  ان قربانیوں اور خدمات  کی وجہ سے اللہ کی عطا ہوتی ہیں جو کسی بھی انسان نے خلوص کے ساتھ انجام دی ہوتی ہیں۔اللہ نے آل محمد ؑ  کو یہ فضائل عطا کیے اس کی بنیادی وجہ ان کی اسلام کے لیے قربانیاں  اور سب کچھ للہ ہونا تھا : صرف  شعب ابی طالبؑ میں محصور ہونے کوہی دیکھ لیں تو اس میں بی بی کے والد،والدہ،سسر،ساس ،شوہر ٖغرض پورا خاندان تین سال تک محصور ہے۔ [iv]

بضعۃ الرسولﷺ کی ایک تفہیم:

آپ ﷺ نے فرمایا : فاطمة بضعة مني فمن اغضبها اغضبني، فاطمہؑ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے  ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔

یہاں لفظ منی کو لے کر کئی تشریحات کی گئی ہیں  ایک بات یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ خواتین کو بھی ویسے ہی اسلام پہنچائیں جیسے مردوں کو پہنچا رہے ہیں آپﷺ نے عورتوں کو اسلام کی عملی تعلیمات بی بی معظمہ ؑ کے ذریعے سے پہنچائیں اس لیے بی بی کے بارے میں نبی اکرم ﷺ فرما رہے ہیں کہ فاطمہ ؑ میرا ٹکڑا ہے۔

خاندان نبوت فاطمہؑ کا امت کو تعارف

 اللہ تعالی اور نبی اکرمﷺ نے  حضرت فاطمہؑ کے خاندان کا تعارف کرایا ہے  تاریخ اسلام کے شہرہ آفاق واقعہ مباہلہ میں اللہ تعالی  کے حکم سے نبی اکرمؐ اپنے خاندان کو لے کر نکلے  اس طرح نبی اکرمﷺ نے اپنے خاندان کا  عملی اظہار امت کے سامنے فرمایا تاکہ سب دیکھ لیں اور ان کو پہچان لیں۔مباہلہ کے لیے جب قرآن مجیدکی یہ آیت مجیدہ نازل ہوئی :

  فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ[vi]

آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔

واقعہ مباہلہ تاریخ  کا مسلمہ واقعہ ہے [vii]

نبی اکرمﷺ اس وقت فاطمہ ؑ کے پورے خاندان کو لے کر گئے اور عملی طو رپر یہ بتا دیا کہ اسلام اور مذہب میں فقط رشتہ دار ہونا اہم نہیں ہے اصل بات اس صلاحیت اور الہی انتخاب کا ہونا جس کے نتیجے میں انسان  مقرب ہو جاتا ہے۔

نبی اکرمﷺ نے بھی امت کو عملی طور پر بتایا کہ  فاطمہ ؑ کا خاندان ہی میری  اہلبیت ہے   جب کہ یہ آیت نازل ہوئی : إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا [viii] اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

رسول اللہ  ﷺ نے اپنے خاندان کو جمع کیا اور کہا اے  پروردگارا! یہ میرے اہل بیت ہیں۔ پس تو ہر قسم کی پلیدی کو ان سے دور کر اور انہیں پاک رکھ جس طرح کہ پاک رکھنے کا حق ہے اس کے بعد آیت تطہیرنازل ہوئی۔

حدیث کسا کو تمام محدثین نے نقل کیا ہے یہ مستفیضہ روایات میں سے ہے جن پر امت کا اتفاق ہے۔ [ix]

 

مسلم دنیا میں ٹوٹتے خاندان اور سیرت حضرت فاطمہؑ کی اہمیت

معاشرے کی تشکیل خاندان سے ہوتی ہے پس جتنا خاندان کا ادارہ مضبوط ہو گا اتنا ہی معاشرہ  مضبوط ہو گا۔ٹوٹتے خاندان  دراصل  ٹوٹتے معاشرے کے عکاس ہوتے ہیں۔خاندان کا ٹوٹنا   طرز زندگی میں اختیار کی تبدیلیوں اور معاشرتی اتار چڑھاو کے بڑھ جانے  کو بھی ظاہر کرتاہے طلاق کا مسئلہ دن بدن گھمبیر ہوتا جا رہا ہے مسلم ممالک بشمول پاکستان میں طلاق کی شرح حیران کن حد تک بڑھ چکی ہے: "لاہور میں ہرروز ایک سو پچاس طلاقیں رجسٹرڈ ہو رہی ہیں ،صرف کراچی شہر میں  دو ہزار بیس میں  خلع لینے والی خواتین کی تعداد میں سات سو  بائیس فیصد اضافہ ہوا۔"[x]

پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں ایک سال میں طلاق لینے والی خواتین کی تعداد میں سات سو فیصد  سے زیادہ اضافے کا ہونا ایک الارمنگ صورتحال کا منظر نامہ پیش کر رہا ہے۔اگر مسلمہ امہ کی مجموعی صورتحال کی بات کریں تو وہ بھی  انتہائی گھمبیر صورتحال کی نشاندہی کر رہی ہے: "مصرمیں چالیس فیصد شادیاں اگلے پانچ سال میں ٹوٹ جاتی ہیں،سعودی عرب میں ہر گھنٹے میں پانچ  طلاقیں ہو رہی ہیں۔"[xi]

مصر میں چالیس فیصد اور سعودی عرب میں ہر گھنٹے میں پانچ طلاقیں ہو رہی ہیں اس کا مطلب ظاہر ہے کہ مصر میں چالیس فیصد خاندان ٹوٹ جاتے ہیں یعنی چالیس فیصد معاشرہ ٹوٹ جاتا ہے۔بکھرا ہوا معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا اور جس معاشرے میں چالیس فیصد آبادی اس تکلیف دہ عمل سے گزر رہی ہو  وہ پر سکون معاشرہ بھی نہیں ہوتا۔ایسے میں بطور مسلمان اقوام ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی اصل کی طرف پلٹیں اور اس مثالی خاندان کو اپنا  آئیڈیل بنائیں جن کی پوری زندگی ہمارے لیے نمونہ عمل ہے اور جن کی تربیت کے شاہکار حضرت امام حسنؑ ،حضرت امام حسینؑ ،حضرت زینبؑ اور حضرت ام کلثوم ؑ کی شکل میں  ہمارے سامنے ہیں۔

مثالی خاندان کے اوصاف  اور حضرت زہراء کا خاندان

تشکیل خاندان  میں ہمارے لیے روشن  رہنما  حضرت فاطمہ ؑ کا خاندان ہے۔ہم آپ کی سیرت سے رہنمائی لے کر پرسکون اور اطاعت خدا سے مزین زندگی پا سکتے ہیں۔ہم خاندان کی تشکیل کے   لیےاس معزز خاندان کی تشکیل کے مراحل سے اپنے لیے ہدایت لے سکتے ہیں۔شادی سے پہلے،شادی کے دوران  اور شادی کے بعد ہر نئے قائم ہونے والے خاندان کے لیے  کچھ مسائل ہوتے ہیں ہم سیرت حضرت سیدہؑ کی روشنی میں ان مسائل  کو حل کر سکتے ہیں اور امت کو رہنمائی کے لیے اسی کی طرف پلٹنا ہو گا۔

1۔شادی کا معیار  مال و دولت نہیں بلکہ ایمان

حضرت فاطمہؑ سردار انبیاءﷺ کی دختر تھیں اور آپ ریاست مدینہ کے سربراہ تھے۔ آپ کا رشتہ عرب کے بڑے بڑے سرداروں نے مانگا مگر نبی اکرمﷺ نے  خاموشی اختیار کی اور بعض مواقع پر فرمایا کہ میں اللہ کے حکم کا منتظر ہیں ۔آپ ﷺ نے حضرت فاطمہؑ کا رشتہ امیر المومنین ؑ سے کیا  جو اس وقت کے رائج اصولوں کے مطابق بھی  مالدار نہیں تھے کیونکہ جو بھی مال و دولت آپ کے پاس آتا تھا آپ اسے راہ خدا میں خرچ کر دیتے تھے۔آپ ﷺ نے حضرت علیؑ کو رشتہ ایمان کی بنیاد پر دیا جیسا کہ روایات میں ہے: حضرت فاطمہؑ کا رشتہ عرب کے امیر لوگوں نے مانگا۔ [xii]

ایمان کی بنیاد پر تشکیل پانے والے اس خاندان کی برکات پورے عالم میں ہیں۔آج بچیوں کے رشتے نہ ہونے کی وجہ رشتوں کا نہ ہونا نہیں ہے بلکہ رشتوں  کے لیے نوکری،گھر اور جانے کیا کیا شرائط کا رکھ لینا ہے۔ایمان کی بنیاد پر رشتہ داری کریں تو اللہ تعالی مالی حالت بھی درست کر دیتا ہے۔

۲۔  طرفین کی رضا

موجودہ معاشرے میں ایک بہت بڑا  مسئلہ جس سے خاندانی نظام زندگی متاثر ہو رہا ہے وہ  بچوں اور بچیوں کی مرضی کے بغیر بلکہ زبردستی ان پر اپنی مرضی سے شادی کافیصلہ مسلط کرنا ہے ۔زبردستی کی شادی کرنا ایسے ہی ہے جیسے  کسی بلڈنگ کی بنیاد ہی ٹیڑھی رکھ دینا۔ مشرقی معاشروں میں ان کا سابقہ  ڈھانچہ اس طرح سے بنا ہے کہ اس میں والدین ہی یہ  فیصلہ کرتے ہیں اور بچے بچیوں کو فقط آگاہ کیا جاتا ہے۔اسلام  میں والدین کو ایک گائیڈ کرنے والے رہنما کی حیثیت حاصل ہے اصل زندگی کا فیصلہ جن کا ہو رہا ہے ان دو کا خوشی سے راضی ہونا ضروری ہے۔حضرت زہراءؑ کے خاندان کی بنیاد باہمی رضا اور خوشی پر مبنی تھی۔

حضرت علی ؑ نے آپ ﷺ سے رشتہ کی بات کی اور بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ بات کرنے میں حیا محسوس کرتے تھے اس لیے آپ نے یہ بات  حضرت سعد بن معاذ کے ذریعے  آپﷺ سے کی جس پر آپ نے   رضایت کا اظہار فرمایا اور پھر یہی بات حضرت فاطمہ ؑ کے سامنے رکھی انہوں نے بھی رضایت کا اظہار فرمایا۔[xiii]

خاتم الانبیاءﷺ سے بہتر اپنی بیٹی کے مفاد کو کوئی نہیں جانتا تھا مگر اس کے باوجود آپ نے اپنی دختر سے  اس کی رضایت کو دریافت فرمایا اور اس کے بعد باقی کے تمام مراحل انجام دیے گئے۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں پر  پورے خاندان کو علم ہو جانے کے بعد  بچے بچی کو پتہ چلتا ہے کہ ہماری  شادی کی بات ہو رہی ہے۔

 

 

۳۔شادی کی تقریبات میں سادگی

شادی کی تقریبات میں اتنا زیادہ  تصنع اور دکھاوا آ  گیا ہے کہ غریب آدمی کے لیے شادی  ایک خوفناک امر بن چکا ہے  پہلے بات لاکھوں تک تھی اور اب ملینز میں چلی گئی ہے۔اس سے معاشرے میں شادی مشکل ہوئی اور جنسی جرائم آسان ہو گئے،  ساتھ ساتھ شادی کے لیے وسائل ہر صورت میں فراہم کرنے ہیں تو  قرض اور  بعض اوقات چوری کی نوبت آ پہنچتی ہے۔حضرت فاطمہ ؑ کی شادی کی تقریبات کو مشعل راہ بنایا جائے تو معاملہ آسان ہو جائے گا روایات میں ہے:

آج کی اصطلاح میں جسے منگی کہا جاتا ہے  وہ فقط خواستگاری کی صور ت میں کی گئی اور نکاح مسجد میں ہوا اور  آپ  نے انتہائی سادگی سے ولیمہ کیا۔[xiv]

۴۔جہیز معاشرتی روگ  یا سنت؟ اور انداز ادائیگی

جہیز  ہمارے معاشرے میں ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور اس کی وجہ سے شادیاں تاخیر کا شکار ہو جاتی ہیں بلکہ ہو ہی نہیں پاتیں اور اس کی وجہ سے خاندانی جھگڑے جنم لیتے ہیں جن کے نتیجے میں  خاندان تباہ ہو جاتے ہیں۔ ایک بات تو طے شدہ ہے کہ  جہیز کو لعنت کہنا کم علمی  کی علامت ہے جہیز لعنت نہیں ہے بلکہ سنت ہے۔یہ  نئے گھر کے شروع ہونے سے پہلے اس کے لیے بنیادی ضروریات کے فراہم کرنے کا نام ہے جن کے بغیر گھر نہیں چل سکتا۔

اہم سوال یہ ہے کہ جہیز کون دے گا؟ جس اسلام میں جہیز سنت ہے اس میں یہ طریقہ بھی سنت ہے کہ یہ جہیز  دلہا کے پیسوں سے خریدا جائے گا ایک روایت ملاحظہ کریں: حضرت علی علیہ السلام نے حضرت زہرا کا مہر ایک زرہ قرار دیا تو پیغمبر اکرم ﷺ نےحضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:’اے علی اس زرہ کو بازار میں لے جاکر فروخت کرو تاکہ میں اس کی قیمت سے جناب فاطمہ زہرا کا جہیز او رگھر کا سامان مہیا کردوں۔[xv] جب یہ بات طے ہو گئی کہ جہیز شوہر کے دیے گئے پیسوں سے خریدا جائے گا تو اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  جہیز کس طرح کا ہو گا؟یہ انتہائی اہم سوال ہے وہ جہیز جس کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے وہ  دولت کی بے جا نمائش اور حد سے بڑھا ہوا جہیز ہے جس میں لڑکی والوں سے مطالبات کرکے چیزیں  لی جاتی ہیں اور  بچی کے والدین کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتاہے۔نبی رحمتﷺ نے جس جہیز کو معین فرمایا وہ تو  گھر کی بنیادی ضروریات ہیں جن کے بغیر نیا خاندان شروع نہیں ہو سکتا  اور اس کی ذمہ داری بھی  شوہر پر ڈال دی کہ یہ اس کے پیسوں سے ہوگا۔حضرت فاطمہ ؑ کے جہیز کے لیے جو  چیزیں خریدی گئیں  انکی فہرست یہ ہے:

 

قمیض

برقعہ

خیبری حلہ

چار پائی

دو عدد توشک(گدے)

چار تکیے

ایک چٹائی

ایک ہاتھ کی چکی

ایک پیالہ

ایک عبا

دو عدد کوزے

ایک فرش

ایک مٹی کا برتن

ایک لوٹا

ایک پردہ

ایک گلاس

ایک دھونے کالگن

ایک چمڑے کی مشک

 

[xvi]

 

5۔ محبت و احترام

 خاندان کی بنیاد محبت  اور احترام پرہوتی ہے  جب تک یہ قائم رہتے ہیں اس وقت تک ہی گھر سکون کا مرکز رہتا ہے جیسے ہی یہ ختم ہوتے ہیں گھر جہنم بن جاتا ہے ۔حضرت زہراء ؑ  اور حضرت فاطمہ ؑ کے درمیان باہمی محبت کا رشتہ تھا آپ ہمیشہ حضرت علیؑ کو ان کی کنیت ابالحسن ؑ سے پکارا کرتی تھیں۔ روایات میں ہے: آپ حضرت علی ؑ   سے محبت سے پیش آتی تھیں اور آپ کو بہترین شوہر سمجھتی تھیں آپ سے ہمیشہ محبت سے گفتگو فرماتی تھیں اور آپ کی   عزت کے لیے آپ کی کنیت   اباالحسن   سے پکارا کرتیں ۔[xvii]

آج خاندانی مسائل کی  جڑ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور عزت و احترام کی کمی ہے۔اس لیے  ہمیں سیرت حضرت زہراءؑ پر عمل کرنا ہو گا  اسی سے خاندان بہتر انداز میں آگے بڑھے گا۔

6۔ شوہر  کے لیے ظاہری خوبصورتی کا اہتمام

آج کل ایک بڑا مسئلہ  یہ ہے کہ  خواتین  شوہر کے علاوہ دوسروں کے لیے بناو سنگھار کرتی ہیں جب کسی فنگشن میں جانا ہوتا ہے۔اسلام نے خواتین  اور حضرات دونوں کو ایک دوسرے کے لیے بناو سنگھار کرنے کا حکم دیا ہے۔روایات میں ہے : آپ خود کو حضرت علی ؑ کے لیے خوشبو اور دیگر اس وقت میں رائج وسائل سے   آراستہ فرمایا کرتی تھیں۔[xviii]

۷۔گھر کا کام کاج

جب نیا خاندان تشکیل پا رہا ہے تو اس میں کچھ ذمہ داریاں ہیں جس میں خاندان کے لیے وسائل کی فراہمی اور پھر ان وسائل کو استعمال میں لا کر کھانے پینے کا انتظام کرنا ہے۔ہر دو ذمہ داریاں بہت اہم ہیں  مرد اور عورت میں تقسیم کار سے گھر کا ماحول بہتر رہتا ہے حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہ ؑ نے گھر میں تقسیم کار  اس طرح سے کیا تھا کہ گھر کے اندر کے کام حضرت سیدہؑ انجام دیتی تھیں اور گھر کے باہر کے کام حضرت امیرؑ  انجام دیتے تھے یہی روایات میں ہے کہ : حضرت فاطمہؑ  ؑ گھر کے کام کاج خود انجام دیا کرتی تھیں۔[xix]

۸۔مالی وسائل کی فراہمی

گھر کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کی بنیادی ذمہ داری شوہر کی ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت کی سرے سے کوئی ذمہ داری ہی نہیں اصل میں اسلام نے اس کے لیے مالی وسائل فراہم کرنا ضروری قرار نہیں دیا۔جہاں تک مالی وسائل  کو استعمال کر کے کمانے کا تعلق ہے تو بالکل عورت کما سکتی ہے اور گھر کے معاملا ت میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہے۔ روایات میں ہے: حضرت فاطمہ ؑ  مالی وسائل کی فراہمی کے لیے اون کاتا کرتی تھیں۔[xx]

دختر خاتم الانبیاء اور زوجہ سید الاولیاء گھریلو امور میں مالی وسائل کی فراہمی کے لیے کام کرتی ہیں تو یہ بی بی کی سنت ہے کہ شوہر کا ساتھ دینے کے لیے  کام کیا جائے۔

۹۔استقامت  اور حق کے لیے آواز بلند کرنا

مسائل کو دیکھ کر گھبرانا نہیں ہوتا بلکہ خاندان کے ساتھ کھڑے ہونا ہوتا ہے۔حضرت سیدہ ؑ کی سیرت اسی کی طرف رہنمائی کرتی ہے جب حضرت  علی ؑ  خلافت سے محروم کر دیئے جاتے ہیں تو  حضرت فاطمہ ؑ اپنے شوہر نامدار کے حق کے لیے پوری طاقت کے ساتھ سامنے آتی ہیں۔اسی طرح جب آپ کو فدک سے محروم کیا جاتا ہے تو بھی   آپ آواز بلند  کرتی ہیں فدک ،حضرت علی ؑ کی خلافت سے محرومی،آپ کے گھر کی اہانت  اور لوگوں کی بے رخی ان سب کے باوجود آپ  پوری طاقت کے ساتھ اپنے شوہر کے ساتھ کھڑی رہیں۔[xxi] فدک بی بی کیؑ ملکیت تھا جس پر حکومت نے قبضہ کر لیا تو آپ نے  اپنے حق کے لیے بھرپور آواز بلندکی اور اپنا مقدمہ  خود لڑا آپ کا خطبہ فدک اسلامی معارف کا عظیم خزانہ ہے۔[xxii]

بی بی کا اپنا حق لینے کے لیے حکومت و ریاست کے سامنے پوری آواز سے اپنا مقدمہ پیش کرنا  بتاتا ہے کہ عورت کمزور نہیں ہے بلکہ خدا نے اسے بڑی صلاحیتیں دی ہیں۔اسلام ان صلاحیتوں کے اظہار کا حق دیتا ہے حضرت فاطمہ ؑ کی سیرت اس کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

۱۰۔مالی مشکلات

مالی مشکلات گھر ٹوٹنے کی ایک بنیادی وجہ ہیں  میاں بیوی مالی وسائل کی عدم دستیابی یا  کمیابی  کی وجہ سے باہم دست و گریبان ہو جاتے ہیں۔ مشہور مغربی مفکر مری الزبتھ نے اپنے ایک مقالہ میں مالی مسائل کو گھروں کے ٹوٹنے کی ایک وجہ قرار دیا ہے [xxiii] آپ کو بہت زیادہ مالی مشکلات درپیش تھیں اور نوبت یہاں تک تھی کہ حسنین کریمیں  ع کو بھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا تھا[xxiv]

ان تمام تر مشکلات کے باوجود حضر ت فاطمہ ؑ نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے وسائل کی کمی سے خاندانی معاملات پر کوئی اثر پڑتا ہو بلکہ ہمیشہ صبر و شکر کے ساتھ آگے بڑھیں۔

۱۱۔ گھر کے ملازمین  بھی انسان ہیں

خاتم الانبیاﷺ نے فضہ نام کی ایک کنیز اپنی بیٹی کو عطا کی۔حضرت فاطمہ ؑ  نے اس کے ساتھ تقسیم کار کچھ یوں کیا کہ ایک دن گھر کا کام کاج وہ کنیز انجام دیتی اور دوسرے دن وہ آرام کرتی اور گھر کا سارا کام آپ خود انجام دیتی تھیں۔[xxv]

اہل اسلام دختر پیغمبرﷺ کییہ سیرت مردوں عورتوں سب کے لیے نمونہ عمل ہے ہمارے معاشرے میں لوگ نوکروں کو  انسان ماننے کے لیے ہی تیار  نہیں ہوتے نہ ان کی خوشی کا احساس کرتے ہیں اورنہ ان کے دکھ کو محسوس کرتے ہیں۔بی بی معظمہ کی سیرت پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ نوکر بھی انسان ہیں اور انہیں بھی آرام کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی مالک کو ہوتی ہے۔ان کےجذبات بھی اسی طرح محترم ہیں جیسے مالک کے ہوتے ہیں۔

۱۲۔ باپ اور بیٹی کا تعلق

خاتم  الانبیاءﷺ اور حضرت فاطمہ ؑ کا کچھ ایسا مثالی  رشتہ تھا کہ شعب ابی طالب کی تنگ دستی سے لے کر مکہ  کے کفار و مشرکین کے مظالم تک حضرت زہراءؑ اپنے والد گرامی کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔

تکمیل کارِ رسالت  میں مددگار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (نماز پڑھتے ہوئے) سجدہ کی حالت میں تھے، قریش کے کچھ لوگ وہیں اردگرد موجود تھے۔ اتنے میں عقبہ بن ابی معیط اونٹ کی اوجھڑی بچہ دانی لایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ مبارک پر اسے ڈال دیا۔ اس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر نہیں اٹھایا پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور گندگی کو پیٹھ مبارک سے ہٹایا[xxvi]

عرب بچیوں کی پیدائش کو اچھا نہیں سمجھتے تھے  نبی اکرمﷺ نے بیٹی کو رحمت قرار  دیا اور مشہور روایت ہے: عن ام المؤمنين عائشه رضي اﷲ عنها انها قالت مارأيت احداً کان اشبه کلاماً و حديثاً من فاطمة برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و کانت اذا دخلت عليه رحب بها وقام اليها فاخذ بيدها فقبلها واجلسها في مجلسه[xxvii] ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کسی کو فاطمہ سے بڑھ کر مشابہ نہیں پایا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ خوش ہو جاتے اور (محبت سے استقبال کیلئے) کھڑے ہوجاتے، حضرت فاطمہ کا ہاتھ پکڑ لیتے اس کو بوسہ دیتے اور پھر اپنی نشست پرحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو بٹھا دیتے۔

بیٹی کو باپ کے لئے قربانی کا جذبہ رکھنا چاہیے اور  باپ کو بیٹی کا ویسا ہی احترام کرنا چاہیے جیسے نبی رحمتﷺ فرمایا کرتے تھے اس سے خاندان کا  یہ رشتہ عظیم بن جائے گا۔

۱۳۔خدا سے تعلق اور خاندان

خاندان کی کامیابی کے لیے ایک اہم اور ضروری بات  خدا سے تعلق کا ہونا ہے۔خدا سے تعلق خاندان کے بہت سے مسائل کو ویسے ہی حل کر دیتا ہے۔ سیرت حضرت فاطمہ ؑ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی عبادت میں وقت بسر کرنا چاہیے اور اس سے راز و نیاز کرنا چاہیے اور جب دعا مانگیں تو فقط اپنے لیے دعا نہ مانگیں بلکہ پڑوسیوں کے لیے بھی دعا کرنی چاہیے۔روایات میں ملتا ہے: آپ  کثرت سے عبادت خدا کیا کرتی تھیں راز و نیاز اور پڑوسیوں کے لیے  دعائیں کیا کرتی تھیں۔[xxviii]

۱۴۔فیمنزم کی تحریک اورسیرت حضرت فاطمہ

اس وقت دنیا میں فیمنزم کی تحریک چل رہی ہے اور ہمارے مسلم معاشروں میں بھی اس کے اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں یہ عورت  کی برابری کے نعرے کی ظاہری چکاچوند سےمرد کی ذمہ داریاں بھی عورت کے کاندھوں پر ڈالنے کا نام ہے جیسے مغرب میں ہو چکا ہے۔اب مسلم معاشروں میں بھی کچھ عورتیں  تحریک چلا رہی ہیں اسلام  عورت کی معزز محترم الگ ساخت و  شناخت کے ساتھ الگ ذمہ داریوں کا تعین کرتا ہے اور مرد کی الگ  شناخت و ساخت کے ساتھ  دوسری  ذمہ داریوں کا حکم دیتا ہے۔حضرت فاطمہ ؑ کی سیرت   معاشرے میں ایک موثر  کردار کی عکاس ہے۔آپ تبلیغ رسالت کی انجام دہی میں اپنے والد کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں یہاں تک کہ مباہلہ کے میدان میں عظمت پاتی ہیں،اور پھروالد کے دفاع میں  آپ کے بدن سے اوجھڑی اتارتی نظر آتی ہیں،اسلام کے لیے مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آ تی ہیں،گھر کی ذمہ داریوں کو سنبھالتی ہیں،خاندان کو آگے بڑھانے کے لیے اون کاتتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ جسےآج کی فیمنزم والی خواتین ورکنگ وومن کہتی ہیں  تووہ  میں ہوں،آج عملی جدو جہد کا بڑا پرچار کیا جاتا ہے آپ اپنی شوہر کو حق خلافت دلانے عملی جدو جہد کرتی ہیں اور لوگوں کو حضرت علیؑ  کے حق پرہونے کے دلائل دیتی ہیں،اپنا حق باغ فدک لینے کے لیے دربار پہنچ جاتی ہیں اور ایک عظیم الشان مکالمہ  کرتی ہیں جس میں دلائل کا انبار لگا دیتی ہیں اور  اپنی قوت استنباط سے  سب کو لا جواب کر دیتی ہیں اس  سےموثر کردار عورت کابھلا اور کیا ہو سکتا ہے؟  مصحف فاطمہ ؑ جیسی عظیم الشان کتاب آپ کی طرف منسوب ہے جس کو قرآن کے ساتھ خلط کر کے شیعوں کو متہم کیا گیا در حالانکہ وہ  قرآن  کے علاوہ عظیم معارف کا مجموعہ تھا۔پس آج اگر ایک مسلمان خاتون تعلیم،تصنیف،معاشرتی تبدیلی کی عملی جدو جہد،حکومت وقت کو چیلنج کرنا،حق کے لیے آواز بلند کرنا،خاندان کی بہتری کے لیے کاروبار یا کام کرنا ،تربیت اولاد اور ان سب  سے بڑھ کر خدا سے اپنے تعلق میں خاتون جنت کو مشعل راہ بنائے تو اس کی دنیا و آخرت کی زندگی بہترین ہو گی۔

 

خلاصہ

۱۔مسلم معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور خاندانی نظام بڑی تیزی سے متاثر ہو رہا ہے۔

۲۔خاندان کی تشکیل میں طرفین کی رضا مندی ضروری ہے جبری رشے بہتر خاندان نہیں بنا پاتے اور رشتہ  داری مال کی بجائے اچھے اخلاق اور دینداری کی بنیاد پر کی جائے۔

۳۔جہیز لعنت نہیں سنت ہے مگر اس کا دائرہ کار ضروریات  تک محدود ہونا چاہیے۔

۴۔گھر  کا کام کاج سنت فاطمیؑ  ہے اور گھر کے لیے وسائل کی فراہمی سنت علویؑ ،بہتر خاندان کے لیے اس تقسیم کار کو اپنانا ہو گا۔

۵۔زوجہ پر مالی وسائل کی فراہمی فرض نہیں ہے مگر وہ سنت فاطمی ؑ پر عمل کر کے اس میں شریک ہو سکتی ہے اس  سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہے۔

۶۔مشکلات میں شوہر اور بیوی ایک دوسرے کا سہارا ہوتے ہیں کردار فاطمی ؑ بناتا ہے کہ مشکل سے مشکل حالات کا پوری جرات کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور مقابل میں  چاہے ریاست ہی کیوں نا ہو اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔

۷۔اہم ترین چیز خدا سے مضبوط  تعلق  ہے جو بہترین خاندان کی بنیاد بنتا ہے۔

۸۔عورت سیرت فاطمی ؑ کی روشنی   میں دین کے دائرہ کے اندر رہ کر معاشرہ ساز کردار ادا کر سکتی ہے اس لیے اسے جدید مغربی افکار  کے فقط نعروں سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

 

 

حوالہ جات

(([i]))۔ خالد علوی،اسلام کا معاشرتی نظام، 83

(([ii]))۔ محمد امین ،اسلام اور مغرب کی تہذیبی کشمکش ، 230

(([iii]))۔ طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1417ھ، ج20، ص370 و 371؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج27، ص371؛ فخر رازی، التفسیرالکبیر، 1420ھ، ج32، ص313؛ بیضاوی، انوار التنزیل و اسرار التأویل، ج5، ص342؛ نیشابوری، تفسیر غرائب القرآن، 1416ھ، ج6، ص576۔

(([iv]))۔ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410، ج1، ص163

(([v]))۔مفید، الامالی، 1414ھ، ص260؛ طوسی، الامالی، 1414ھ، ص24؛ احمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل، بیروت، ج4، ص5

(([vi]))سورہ آل عمران :۶۱

(([vii]))۔ الطبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، 1415، ج 2، ص 310الطبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج2، بیروت: موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، الطبعۃ الاولی، 1415

(([viii]))۔سورہ الاحزاب :۳۳

(([ix]))۔ مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج15، ص190 دارالمعرفہ، بیروت،1423ه، 2003عیسوی

(([x])).https://www.dawnnews.tv/news/1150872  Date :11-01-2022  Time:7:00 am

(([xi])).https://ibcurdu.com/news/89249/  Date :11-01-2022  Time:7:00 am

(([xii]))۔ اربلی، کشف الغمہ، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۳۶۳؛ خوارزمی، المناقب، ۱۴۱۱ق، ص۳۴۳

(([xiii]))۔طوسی، محمد بن حسن، الامالی، 1414ھ، ص40

(([xiv]))۔طبری امامی، دلائل الإمامۃ، 1413ھ، ص88-90؛ خوارزمی، المناقب، 1411ھ، ص335-338

(([xv]))۔بحار الانوار ج٤٣ص١٣٥

(([xvi]))۔ مناقب شہر ابن آشوب ج٣،کشفالغمہجلداولص٢٥٩.بحارالانوارج

(([xvii]))۔ مجلسی، بحار الانوار، 1404ھ، ج43، ص192 و 199؛ جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، 1413ھ، ص64

(([xviii]))۔ صدوق، الأمالی، 1417ھ، ص552۔

(([xix]))۔طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص140-142

(([xx]))۔ خوارزمی، المناقب، 1411ھ، ص268

(([xxi]))۔ ابن‌ ابی‌ شیبہ کوفی، المصنف فی الاحادیث و الآثار، 1409ھ، ج8، ص572

(([xxii]))۔مفید، المقنعۃ، 1410ھ، ص289 و 290؛ سید مرتضی، الشافی فی‌الامامۃ، 1410ھ، ج4، ص101؛ مجلسی، بحار الانوار، دار الرضا، ج29، ص124؛ اردبیلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، 1421ھ، ج1، ص353-364

(([xxiv]))۔ابن ‌سعد، الطبقات الکبری، بیروت، ج8، ص25مجلسی، بحار الانوار، 1404ھ، ج43، ص72

(([xxv]))۔طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص140-142

(([xxvi]))۔بخاری،صحیح بخاری ،کتاب: انصار کے مناقب،باب مکہ نبی اکرمﷺ کی مشکلات ،حدیث نمبر :3854

(([xxvii]))۔الحاکم،المستدرک للحاکم، 3 : 154

(([xxviii]))۔صدوق، علل الشرایع، 1385ھ، ج1، ص182

 

 

العودة إلى الأعلى