خطبہِ فدک کی اسناد کا تحقیقی جائزہ

اہلِ نظر کے یہا ں پیغمبر اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو سمجھنے کے لیے خطبہِ فدک کلیدی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ یہ خطبہ دراصل جنابِ زہراء(سلام اللہ علیھا) کی طرف سے حاکمِ وقت کے خلاف ایک چار شیٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خطبہِ فدک ایک ایسا خطاب ہے جو اس وقت کے حاکم کے حکومت کے جواز کو براہِ راست سبوتاز کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ بعض نام نہاد محققین آج اس خطبے کو گھڑا ہوا اور خودساختہ ثابت کرنے کے لیے کئی قسم کی بے بنیاد دلیلوں کا سہارا لے رہے ہیں۔ اس مختصر سی تحریر میں ان دلائل کا تجزیہ منصفانہ انداز میں پیش کیا جا رہا ہے ان شاء اللہ

حصہ اول

پہلی دلیل

کچھ افراد کہتے ہیں کہ خطبہِ فدک ایک طویل خطبہ ہے اور اسے لفظ بہ لفظ سن کر یاد کر لینا ممکن نہیں، کیونکہ اس وقت حفظ کرنے کے علاوہ کوئی ایسا ذریعہ موجود نہیں تھا جو اس قسم کے طویل خطاب کو محفوظ کر لیتا۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ اس خطبے کے راوی نے اسے سنتے ہی یاد کر لیا اور پھر آگے نقل کرتا رہا بلکہ یہ ایک من گھرٹ خطبہ جس کو بعد کے زمانے کے شیعوں نے وضع کیا تھا۔

تجزیہ و جواب یہ دلیل انتہائی بے بنیاد معلوم ہوتی ہے، کیونکہ

 اولاً، اس طویل خطبے کو سنتے ہی لفظ بہ لفظ حفظ کرنا کوئی محال امر نہیں ہے۔ بعض لوگ آج بھی ایسے پائے جاتے ہیں جن کے پاس اتنا مضبوط حافظہ ہے کہ وہ طویل گفتگو سنتے ہی اسے لفظ بہ لفظ یاد کر سکتے ہیں۔ اگرچہ آج ایسے افراد کی تعداد نسبتاً کم ہو گئی ہے، لیکن یہ انسانی یادداشت کی طاقت کی مثال ہے۔ اگرچہ آج کے انسان میں عمومی طور پر قوت حافظہ کمزور پڑ چکا ہے اور اس میں جدید ٹیکنالوجی کا کردار بھی نمایاں ہے، جو آج کے انسان کے حافظے کی جگہ مصنوعی یا ڈیجیٹل حافظے کو دے چکی ہے

لیکن جوں جوں انسان ماضی کی طرف مڑ کر دیکھتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ عہد کے لوگوں کے پاس معلومات کو ذہن میں محفوظ کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن تقریباً نہیں تھا۔ آج بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ اسی یا نوے سال کے بزرگ اپنی یادداشت میں ایک خزانہ محفوظ کیے ہوئے ہوتے ہیں، جو آج کی نسل کے نوجوان لوگوں کے لیے باعث حیرت ہے۔

تقریباً 1400 سال قبل جب یہ خطبہ پیش کیا گیا، تو لوگ معلومات اور خطبات کو محفوظ کرنے کے لیے اپنےحافظے پر بھروسہ رکھنے کے خوگر تھے، اور یہ ایک عام سی بات تھی، کیونکہ اس وقت عرب ہزاروں اشعار پر مشتمل قصائد حفظ کر لیتے تھے۔ تو یہ خطبہ یاد کرنا کوئی مشکل امر نہیں تھا

ثانیاً، اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ واقعا خطبہ فدک کو لفظ بہ لفظ یاد کرنا ممکن نہیں تھا، لہذا خطبہ کے یہ الفاظ وہ الفاظ نہیں ہو سکتے جنہیں جنابِ زہراء(سلام اللہ علیھا)نے فرمایا تھا۔ لیکن نقل بالمعنی میں تو کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ اسلام کے تمام مکاتب فکر نقل بالمعنی کو قبول کرتے ہیں۔ اوراگر معنی کے لحاظ سے نقل کی گئی روایات کو اسلامی لٹریچر سے نکال دیا جائے، تو لفظی مواد انتہائی کم رہ جائے گا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ خطبہ فدک کی طوالت اس خطبے کے جعلی ہونے پر دلیل ہے،یہ ایک انتہائی نامعقول بات معلوم ہوتی ہے۔

دوسری دلیل

اس خطبے کے جعلی ہونے کا دعویٰ ایک ذاتی یا خیالی تصور نہیں ہے، کیونکہ بعض مؤرخین نے قواعد و ضوابط کے تحت اسے تیسری صدی ہجری سے ہی جعلی قرار دینا شروع کر دیا تھا

تجزیہ و جواب

یہ دعویٰ دلیل کا محتاج ہے، کیونکہ جعل سازی کی پہچان کے اصول علمِ درایہ اور اصولِ حدیث میں واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ ان اصولوں کے مطابق تحقیق کرنے پر یہ لوگ کوئی قابلِ اعتماد دلیل نہیں لا سکے، سوائے اس بات کے جو ابن طیفور نے خطبہ فدک نقل کرنے سے پہلے بیان کی۔ وہ لکھتے ہیں: (قال أبو الفضل: ذكرت لأبي الحسين زيد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالبه كلام فاطمة العلم عند منع أبي بكر إياها فدك وقلت له ان هؤلاء يزعمون أنه مصنوع وأنه من كلام أبي العيناء ). بلاغات النساء ١٢

ترجمہ:’’ابوالفضل کہتا ہے: میں نے ابو الحسین زید بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالبؑ سے حضرت فاطمہؑ کا وہ کلام ذکر کیا جو انہوں نے ابوبکر کے فدک چھیننے کے وقت فرمایا تھا، اور میں نے کہا: کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ کلام گھڑا ہوا ہے اور اصل میں یہ ابو العیناء کا لکھا ہوا ہے۔‘‘

چنانچہ بعض لوگوں نے کہا کہ خطبہ فدکیہ پر اعتراض کوئی نیا نہیں بلکہ پرانا ہے، اور اس کے گھڑنے کا الزام ابوالعیناء پر ہے۔ بلکہ ان کے مطابق سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خود ابوالعیناء نے اعتراف بھی کر لیا کہ یہ بات انہوں نے گھڑی تھی۔ جیسا کہ حاکم نیشاپوری روایت کرتے ہیں: (سمعت عبد العزيز بن عبد الملك الأموي المحاملي يقول: سمعت أبا العيناء يقول: أنا والحافظ وضعنا حديث فدك وأدخلناه على الشيوخ ببغداد فقبلوه إلا ابن شيبة العلوي فإنّه قال: لا يشبه آخر هذا أوله، فأبى أن يقبله قال إسماعيل وكان أبو العيناء يحدث بهذا بعد ما تاب ) المدخل إلى الإكليل ١٠٣

ترجمہ:میں نے عبدالعزیز بن عبدالملک الاموی المحاملی کو کہتے سنا: میں نے ابوالعیناء کو کہتے سنا کہ میں نے اور جاحظ نے فدک کی حدیث گھڑی اور اسے بغداد کے محدثین کے سامنے پیش کیا۔ سب نے اسے قبول کر لیا سوائے ابن شبیبہ علوی کے، جنہوں نے کہا کہ اس کلام کا آخر اس کے آغاز سے مطابقت نہیں رکھتا۔اسماعیل کہتا ہے: ابوالعیناء یہ بات اس وقت بیان کیا کرتے تھے جب وہ تائب ہو چکے تھے

العودة إلى الأعلى